طارق شاہ

محفلین
وقتِ رُخصت بڑا مُشکل تھا چُھپانا غم کا
اشک آنکھوں سے رَواں تھے، جو روانہ وہ تھا

عاشقی کا نہ مجھے ہی مگر اُن کو بھی خلش
رہ گیا یاد ہر اِک دن، کہ سُہانہ وہ تھا

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
نہ پوچھو ہم سے کہ وہ خُرد سال کیا شے ہے
کمر کے سامنے جس کی ہِلال کیا شے ہے

بنایا وہ یَدِ قُدرت نے خاک سے پُتلا
خجِل ہوں حُورمُقابل غزال کیا شے ہے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
اب تو دامن پہ لہو ہے، کہو کیا کہتے ہو
اب تو انکارِ سِتم کا کوئی پہلوُ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
جا تجھے ہم نے بس اے عمرِ رواں دیکھ لیا
ہم تجھے اپنا سمجھتے تھے مگر تو بھی نہیں
قمرجلالوی
 

طارق شاہ

محفلین
صُوفِیوں کو وجْد میں لاتا ہے نغمہ ساز کا
شُبہ ہو جاتا ہے، پردے سے تِری آواز کا
پڑ گئے سوراخ دل میں، گفتگوئے یار سے
بے کنائے کے نہیں، اِک قول اُس طناز کا
خواجہ حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین
غم دینے والا شاد رہے، پہلوُ میں ہجومِ غم ہی سہی
لب اُن کے تبسّم ریز رہیں، آنکھیں میری پُرنم ہی سہی
گر جذبِ عِشق سلامت ہے ، یہ فرق بھی مِٹنے والا ہے
وہ حُسن کی اِک دُنیا ہی سہی، میں حیرت کا عالم ہی سہی
حفیظ ہوشیارپُوری
 

طارق شاہ

محفلین
برق بے نُور ہے، اُس رُخ کی چمَک کے آگے
عالمِ نُور کا اِنساں نہ ہُوا تھا، سو ہُوا

یار کی رُوئے کتابی کی کرُوں کیا تعرِیف
بعد قرآں کے جو قرآں نہ ہُوا تھا، سو ہُوا

پہروں ہی مصرعِ سودا ہے رُلاتا آتش
تُجھ سے اے دیدۂ گریاں نہ ہُوا تھا، سو ہُوا

خواجہ حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین
جو کچُھ ہُوا، وہ کیسے ہُوا، جانتا ہوں میں !
جو کچُھ نہیں ہُوا، وہ بتا، کیوں نہیں ہُوا


عرفان صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین
دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نِظام !
مُنہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ

نِظام رام پُوری
 

طارق شاہ

محفلین
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بِیبِیاں
اکبرزمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

پُوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہُوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مَردوں کی پڑگیا

اکبرالہ آبادیؒ
 

طارق شاہ

محفلین
دَیر کی راہ نہ مِلتی ہو تو کعبہ ہی سہی
کفُر جب کفُر نہ بنتا ہو تو ایماں کردیں

پھرہراِک درد والم آج بنے وجہِ نشاط
دِل کے ہرداغ کو پھرشمْعِ شبِستاں کردیں

اصغرگونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
وہ نظراُس کی، جو ہے موجۂ صد رُوحِ حیات
مُجھ تک آئے تو، وہی تیرِ قضَا ہوجائے

لالہ و گُل پہ جو ہے قطرۂ شبنم کی بہار !
رُخِ رنگِیں پہ جو آئے تو حیا ہوجائے

اصغرگونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
ناقہٴ حُسن کی ہم رکابی کہاں، خیمہٴ ناز میں بازیابی کہاں
ہم تو اے بانوئے کشورِ دِلبری پاس داروں میں ہیں، ساربانوں میں ہیں

عرفان صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین
دیکھیے، لاتی ہے اُس شوخ کی نخوَت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خُدا کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبِ آشفتہ نوا، کہتے ہیں
مرزا غالب
 

طارق شاہ

محفلین

اپنا کر لایا، ہراِک غم میں کہ جس پر تھوڑا
یہ گُماں تک بھی ہُوا، اُس کا نِشانہ وہ تھا

شفیق خلش
 
Top