تهوڑا لکها اور زیادہ چهوڑ دیا
آنے والوں کے لیے رستہ چهوڑ دیا
لڑکیاں عشق میں کتنی پاگل ہوتی ہیں
فون بجا اور چولہا جلتا چهوڑ دیا
بس کانوں پر ہاتھ رکهے تهے تهوڑی دیر
اور پهر اس آواز نے پیچھا چهوڑ دیا
روز اک پتا مجھ میں آ کر گرتا ہے
جب سے میں نے باغ میں جانا چهوڑ دیا
تم کیا جانو اس دریا پر کیا گزری
تم نے تو بس پانی بهرنا چهوڑ دیا
تہذیب حافی