1451527_10151757157882963_2140288613_n.jpg
 

جاوید مرزا

محفلین
تهوڑا لکها اور زیادہ چهوڑ دیا
آنے والوں کے لیے رستہ چهوڑ دیا

لڑکیاں عشق میں کتنی پاگل ہوتی ہیں
فون بجا اور چولہا جلتا چهوڑ دیا

بس کانوں پر ہاتھ رکهے تهے تهوڑی دیر
اور پهر اس آواز نے پیچھا چهوڑ دیا

روز اک پتا مجھ میں آ کر گرتا ہے
جب سے میں نے باغ میں جانا چهوڑ دیا

تم کیا جانو اس دریا پر کیا گزری
تم نے تو بس پانی بهرنا چهوڑ دیا

تہذیب حافی
 

صائمہ شاہ

محفلین
میں زندگی کے سفر میں تھا مشغلہ اس کا
وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے مجھ کو گنوا دیا کرتا

مجھے وہ آنکھ میں رکھ کر شمار پچھلی شب
عجب خمار میں پلکیں گرا دیا کرتا

اختر شمار
 

طارق شاہ

محفلین

یہاں وابستگی، واں برہمی کیا جانیے کیوں ہے ؟
نہ ہم اپنی نظر سمجھے، نہ ہم اُن کی ادا سمجھے

فیض احمد فیض
 

اوشو

لائبریرین
میں منتشر ہوں مجھے سمیٹو ، بکھر گیا تو عذاب ہو گا
وجودِ بےکار مت سمجھنا، حدودِ پروردگار میں ہوں
 
Top