کاشفی

محفلین
میں نے جب اُس سے کہا یہ ہے مہینہ جون کا
گر گیا ہاتھوں سے اس کے گرم گولہ اُون کا

(شاعر: مجھے معلوم نہیں، مقیم: کراچی)
 

کاشفی

محفلین
میرے ساتھی کا بدن نیلا ہوا
زہر اُس کے جسم کے اندر بھی تھا

(شاعر: مجھے معلوم نہیں، مقیم: کراچی)
 

کاشفی

محفلین
یہ کیسے دور کا سقراط بن کے جینا تھا
بجائے زہر مجھے گالیوں کو پینا تھا

(شاعر: مجھے معلوم نہیں یو نو، مقیم: کراچی)
 
میرے ساتھی کا بدن نیلا ہوا
زہر اُس کے جسم کے اندر بھی تھا

(شاعر: مجھے معلوم نہیں، مقیم: کراچی)

کاشفی بھائی شاعر کا نام معلوم کرنے کی جو وجہ مجھے سمجھ آرہی ہے ... میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ، چھوڑیں کاشفی بھائی کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے آخر انسان ہے ..
 

کاشفی

محفلین
کاشفی بھائی شاعر کا نام معلوم کرنے کی جو وجہ مجھے سمجھ آرہی ہے ... میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ، چھوڑیں کاشفی بھائی کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے آخر انسان ہے ..
جی آپ بھی انسان ہی ہیں شاید۔چھوڑیں یہاں آپ کی بات نہیں ہورہی۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
دیکھ دنیا اب ہمیں کچھ دیر تنہا چھوڑ دے
ایسے عالم میں کہ جب ہم پر اُترتی ہو کتاب

(شاعر: مجھے معلوم نہیں)
 

فرقان احمد

محفلین
دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے​
اب وہ آنکھوں میں تلاطم ہے کہ دریا کیا ہے​

کوئی رہبر ہے نہ رستہ ہے نہ منزل توصیفؔ​
ہم کہ گرد رہ صرصر ہیں ۔۔۔ ۔ ہمارا کیا ہے​
 

فرقان احمد

محفلین
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھُلا در اِس کا
وہ مُسافر اِسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہُوں میں
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
 

فرقان احمد

محفلین
آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو ۔۔۔۔ گزرنے نہیں دیا
 

فرقان احمد

محفلین
وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں سلگتے دن تھے مہکتی راتیں
وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکھنا

گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا
وہ آرزوؤں کے خواب بننا وہ قصہ نا تمام لکھنا

میرے نگر کی حسین فضاؤ! کہیں جو ان کا نشان پاؤ
تو پوچھنا یہ کہاں بسے وہ کہاں ہے ان کا قیام لکھنا
 

فرقان احمد

محفلین
اک نام کی اُڑتی خوشبو میں اک خواب سفر میں رہتا ہے​
اک بستی آنکھیں ملتی ہے اک شہر نظر میں رہتا ہے​

کیا اہلِ ہنر، کیا اہلِ شرف سب ٹکڑے ردی کاغذکے​
اس دور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے​
 

فرقان احمد

محفلین
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top