رباب واسطی
محفلین
ہم بے زباں نہیں تھے مگر بے زباں رہے
آنسو ہی حسرتوں کے سدا ترجماں رہے
آنسو ہی حسرتوں کے سدا ترجماں رہے
جو اتر کر سینہِٗ شام سے تیری چشمِ خو میں سماگئے
وہی جلتے بجھتے چراغ سے میرے بام و در کو سجاگئے
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے
آمنہ خان
یہ امجد اسلام امجد کے اشعار ہیں،پہلے مصرعے میں 3 سہو ہیںجو اتر کر سینہِٗ شام سے تیری چشمِ خو میں سماگئے
وہی جلتے بجھتے چراغ سے میرے بام و در کو سجاگئے
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے
امجد اسلام امجد
یہ امجد اسلام امجد کے اشعار ہیں،پہلے مصرعے میں 3 سہو ہیں
جو اتر کے زینۂ شام سے تیری چشمِ خوش میں سماگئے
اسی غزل کا ایک اور شعر
یہ عجیب کھیل ہے پیار کا، میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
کہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پہ آ گئے
جی آپ نے صحیح فرمایایہ تو امجد اسلام امجد کی شاعری ہے۔ آمنہ خان صاحبہ کہاں سے آ گئیں؟