رباب واسطی

محفلین
‏جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ
کہاں گئے وہ میرے سارے مہربان سے لوگ
یہ بے چراغ سی بستی .یہ بے صدا گلیاں
ہر اک سمت یہ اجڑے ہوئے مکان سے لوگ
 

زیرک

محفلین
انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے، اسے زخم کیوں دکھاؤ​
 

زیرک

محفلین
کب تلک آہ و فغاں تیرے بعد
خیمۂ دل ہے دھواں تیرے بعد
ہجرتیں کر گئے امکاں کے طیّور
اب یقیں ہے نہ گماں تیرے بعد​
 
Top