محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
قحط جذبوں کا پڑا ویراں سے ہیں دل کے نگر
شہر پر آسیب شاید ہجر کے منڈلا گئے
عابدہ عروج
شہر پر آسیب شاید ہجر کے منڈلا گئے
عابدہ عروج
انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے، اسے زخم کیوں دکھاؤ
خوب!یوں تو دُنیا کے جھمیلے میں بہت کچھ کھو گیا
دُکھ مگر یہ ہے کہ اُس کی یاد بھی گم ہو گئی
(حسن عباس رضا)
سکول کے دن خواب دیکھنے کے اور کالج یونیورسٹی کے ادوار ان خوابوں کو پروان چڑھانے کے ہوتے ہیں۔کچھ کرنے کچھ کر گزرنے کی قدرے آزادی ہوتی ہے۔ ایک طوطا خوشنما پنجرے(سکول) سے نکل کر جب کھلے باغ ()کالج میں آزادی سے اڑتا پھر رہا ہوتا ہے تو اس کے جذبات و احساسات کیا ہوں گے۔ پھر عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ خیالات و جذبات جوان ہو رہے ہوتے ہیں تب پرندے چہچہایا ہی کرتے ہیں۔اس شعر کو پڑھ کے مجھے اپنی ایک ہم جماعت یاد آگئی۔ ہم کالج کے سالِ اوّل میں تھے۔ اردو کی کلاس میں وہ کبھی کبھی یہ شعر پڑھتی تھی۔ اور ایسے ترنم سے پڑھتی تھی کہ ہم بہت لطف لیتے تھے اور بعد میں نقلیں اتارا کرتے تھے۔