طارق شاہ

محفلین


ہُوا سُکوں بھی مُیسّر تو اضطراب رہا
دلِ خراب ہمیشہ دلِ خراب رہا

تمام عمر کبھی جس سے کھُل کے بات نہ کی
ہر اِک سُخن میں اُسی سے مِرا خطاب رہا

سلیم احمد
 

طارق شاہ

محفلین

وضو کو مانگ کے پانی، خجل نہ کر اے میر
وہ مُفلسی ہے، تَیَمُّم کو گھر میں خاک نہیں

میر تقی میر
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

دلِ تباہ کی رُوداد اور کیا کہئے
خود اپنے شہر کو فرماں رَوا نے لُوٹ لیا

نہ اب خودی کا پتہ ہے، نہ بیخودی کا جگر
ہر ایک لُطف کو لُطفِ خُدا نے لوُٹ لیا

جگرمُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اے خُدا ! مایہ و زر اُن پہ فراواں کردے
ناؤ بہتی نہیں جن کی بھی رُکاوٹ کے بغیر

اِک نظر اُن پہ بھی شفقت کی، مِرے ربِ کریم
دانہ جن کو نہ میسّر ہو بناوٹ کے بغیر

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

نا گفتنی ہے حالِ دلِ ناتواں مِرا
آتی ہے شرم، میں اِسے تقریر کیا کروں

پُوچھا میں مصحفی سے، ہُوا کیوں تُو در بدر؟
بولا، کہ یوں ہی تھی مِری تقدیر، کیا کروں

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین


جس طرح چاہا لکھیں، دل نے کہا یُوں مت لکھ !
سیکڑوں بار، دھرا اور اُٹھایا کاغذ

درودیوار پہ، کوُچے میں حَسن نے اُس کے
اپنے احوال کا، لِکھ لِکھ کے لگایا کاغذ

میر حَسَن
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین


اِس کو اُمّید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کی !
اور وِیرانوں سے، اِس دل کا ہے وِیرانہ جُدا

گوشۂ چشم میں بھی مردمِ بد بِیں ہیں حَسَن
واسطے اُس کے بنا، دل میں نہاں خانہ جُدا

میر حَسَن
 

طارق شاہ

محفلین

ساری دُنیا سے انوکھی ہے، زمانے سے جُدا
نعمتِ خاص ہے، الله رے قِسمت میر ی

شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں
پھر کروگے کبھی، اِس منہ سے شکایت میری


فانی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

دل مِرا جس سے بہلتا، کوئی ایسا نہ مِلا
بُت کے بندے مِلے ، الله کا بندہ نہ مِلا

بزمِ یاراں سے پھری بادِ بہاری مایوس
ایک سر بھی اِسے آمادۂ سودا نہ مِلا

ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبر
مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ مِلا

اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

کتنی طویل ہوتی ہے اِنساں کی زندگی !
سمجھا ہُوں آج، میں شبِ فرقت گزار کے

میّت قمر کی دیکھ کے، بولے وہ صبحِ ہجر
تارے گِنے گئے نہ شبِ انتظار کے

قمر
جلالوی
 

طارق شاہ

محفلین

لوگ کہتے ہیں گیت ہےجیون !
کوئی گاتا نظر نہیں آتا

اب یقیں ہو چلا، کہ اُن کا ہاتھ
ہاتھ آتا نظرنہیں آتا

قمر جلال آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اب آنکھ اُٹھانا ہے اِیمان کی بربادی
اُس بُت کی نظر دیکھی اور اُس کا اثر دیکھا

تقدیر مُخالِف تھی، تدبیر ہُوئی قاصر !
مُمکن تھا جو کچُھ ہم سے، سب ہم نے وہ کردیکھا

اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

زندگی، کرتی ہی رہتی ہے مُصیبت پیدا
با خُدا اُس میں بھی کرلیتے ہیں لذّت پیدا

دل میں وہ رنگِ محبّت کو جگہ دیتے ہیں !
جس سے ہوجاتی ہے، تلخی میں حَلاوت پیدا

خلق، صُورت میں ہی کرتی ہے معانی کی تلاش !
وہ معانی سے بھی کرلیتے ہیں، صُورت پیدا

اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین



فسانہ کہہ رہے ہیں آج، وہ اپنی محبّت کا
خُدا ایسا کرے، میرا کہیں پر نام آجائے

قمراِک دن سفرمیں، خود ہلال عید بن جاؤں
اگر قبضے میں میرے گردشِ ایّام آجائے

قمرجلالوی
 

طارق شاہ

محفلین


سینکڑوں رات کے کِئے وعدے
اُن کی رات آج تک قمر نہ ہوئی

حشر میں بھی وہ کیا مِلیں گے ہمیں
جب مُلاقات عُمر بھر نہ ہوئی

قمرجلالوی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

اُسے لُبھا نہ سکا، میرے بعد کا موسم !
بہت اُداس لگا خال و خد سنوار کے بھی

اَب ایک پَل کا تغافُل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہلِ دل، کبھی عادی تھے اِنتظار کے بھی

محسن نقوی
 
Top