طارق شاہ

محفلین


بدلا نہ کِسی غم سے تِرے ہجر کا غم بھی
کیا کچُھ نہ توقّع میں اُٹھا لائے ہیں ہم بھی

دم توڑ چُکی دل میں، تِری دید کی خواہش
رُکنے کو کِسی پل ہے تِرے ہجر سے دم بھی

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

اِس دورِ فلک میں کوئی کیا دیکھے گا
جو بھی دِکھلائے گا خُدا، دیکھے گا

رنجِیدہ ہے، جس نے اِبتدا دیکھی ہے!
بے حِس ہوگا، جو اِنتہا دیکھے گا

اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

بُوئے گُل میں فسُوں ہی وہ نہ رہا
موسم بدلا، جنُوں ہی وہ نہ رہا

سینے میں وہ دل کہاں سے آئے اکبر !
جب اپنی رگوں میں خُوں ہی وہ نہ رہا

اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین


تُو کِس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی

کھُلی جو آنکھ تو کچُھ اور ہی سماں دیکھا !
وہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائی

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

وہ تابِ درد، وہ سودائے اِنتظار کہاں
اُنہی کے ساتھ گئی طاقتِ شکیبائی

پھر اُس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رُسوائی

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

صبح دم، کیا ڈھونڈتے ہو، شب رَووں کے نقشِ پا
جب سے اب تک، بارہا موجِ صبا آئی گئی

رو رہا ہُوں، ہر پُرانی چیز کو پہچان کر !
جانے کِس کی رُوح میرے رُوپ میں لائی گئی

خورشید رضوی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

کفر و اِسلام سے آزاد ہُوں، بے قید ہُوں میں !
مجھ سے کافر نہ ہی جھگڑے ، نہ تو دِیندار اُلجھے

خواجہ حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین

خیالِ یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رہے
اِسی متاع پہ، ہم روزگار کرتے رہے

ضیائے بزمِ جہاں بار بار ماند ہوئی
حدیثِ شُعلہ رُخاں بار بار کرتے رہے

نہیں شکایتِ ہجراں، کہ اس وسِیلے سے
ہم اُن سے رشتۂ دل اُستُوار کرتے رہے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

تِرے خیال کی لو میں جِدھر جِدھر جائیں
چراغ جل اُٹھیں، منظر نِکھر نِکھر جائیں

یہ آرزو ہے کہ، مہکائیں باغِ عالم کو
برنگِ نکہتِ گُل، چار سُو بِکھر جائیں

حَزِیں صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین



وہ تبسّم تھا، کہ برقِ حُسن کا اعجاز تھا
کائناتِ جان و دل، زیر و زبر ہونے لگی

دل کی دھڑکن بڑھ گئی، آنکھوں میں آنسو آ گئے
غالباً میری طرف، اُن کی نظر ہونے گی

حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

یہ طِلِسمِ حُسن ہے، یا کہ مآلِ عشق ہے
اپنی ناکامی ہی، اپنی راہ بر ہونے لگی

اُن سے وابستہ اُمیدیں، جو بھی تھیں، وہ مِٹ گئیں
اب طبیعت، آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی

حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

سمجھتے کیا تھے، مگر سُنتے تھے ترانۂ درد
سمجھ میں آنے لگا جب، تو پھر سُنا نہ گیا

بُتوں کو دیکھ کے، سب نے خُدا کو پہچانا
خُدا کے گھر تو، کوئی بندۂ خُدا نہ گیا

یاس، یگانہ، چنگیزی
 

طارق شاہ

محفلین



علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی، جس کے گمان میں آئی

میں پیمبر نہیں، یگانہ سہی
اِس سے کیا کسر شان میں آئی


یاس، یگانہ، چنگیزی
 

طارق شاہ

محفلین

کچُھ سنبھل کر رہو اِن سادہ ملاقاتوں میں !
دوستی عشق میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے

میں ادھُورا ہوں، مگر خُود کو ادھُورا نہ سمجھ
مجھ سے مِل کر تری تکمیل بھی ہو سکتی ہے

علی ظہیر
 

طارق شاہ

محفلین


یہ چمک دھُول میں تحلیل بھی ہو سکتی ہے
کائنات اِک نئی تشکیل بھی ہو سکتی ہے

تم نہ سمجھو گے کوئی اور سمجھ لے گا اِسے
خامشی درد کی ترسِیل بھی ہو سکتی ہے

علی ظہیر
 
Top