طارق شاہ

محفلین

قلم جب درہم و دِینار میں تولے گئے تھے
کہاں تک دِل کی چِنگاری، تِرے شُعلے گئے تھے

فصیلِ شہرِ لب بستہ! گواہی دے، کہ لوگ
دہانِ حلقۂ زنجیر سے بولے گئے تھے

افتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین

میرے شیشے میں اُتر آئی ہے جو، شامِ فراق
وہ کسی شہرِ نگاراں کی پری لگتی ہے

شورِ طِفلاں بھی نہیں ہے، نہ رقیبوں کا ہجُوم
لوٹ آؤ، یہ کوئی اور گلی لگتی ہے

سلیم احمد
 

طارق شاہ

محفلین

نہ رہا غزل میں اوسط، کوئی لطف، نہ مزہ اب !
جو تھے نغمگی کا حاصِل، وہ کلام بُجھ گئے ہیں

اوسط جعفری
 

طارق شاہ

محفلین

جنہیں صُبح تک تھا جلنا، سرِ شام بُجھ گئے ہیں
وہ چراغ کیا بُجھے ہیں، در و بام بُجھ گئے ہیں

ہُوا ظُلم جاتے جاتے، شبِ غم ٹھہر گئی ہے
جو سحر سے آ رہے تھے، وہ پیام بُجھ گئے ہیں

اوسط جعفری
 

طارق شاہ

محفلین


رات ہو، دن ہو، غفلت ہو کہ بیداری ہو
اُس کو دیکھا تو نہیں ہے اُسے سوچا ہے بہت

تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا، یعنی
کبھی دریا نہیں کافی، کبھی قطرہ ہے بہت

کرشن بہاری نُور لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین

آئینہ یہ تو بتاتا ہے کہ میں کیا ہوں، لیکن
آئینہ اس پہ ہے خاموش کہ، کیا ہے مُجھ میں

اب تو بس جان ہی دینے کی ہے باری، اے نُور
میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مُجھ میں

کرشن بہاری نُور لکھنوی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

میں تو سمجھا تھا کہ، لوٹ آتے ہیں جانے والے
تُو نے تو جا کے جُدائی مِری قسمت کر دی

مُجھ کو دشمن کے اِرادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تیری اُلفت نے محبّت مِری عادت کر دی

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین


سخت دُشوار ہے پتّھر کو گُلِ تر کہنا
ہاں، جو مجبُور ہیں کہنے پہ، وہ ناچار کہیں

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین

میں وہ شعلہ تھا، جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہِ دام تھے، مجھے کھا گئے

جو کھُلی کھُلی تھیں عداوتیں، مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے، مجھے کھا گئے

خورشید رضوی
 

طارق شاہ

محفلین

لغزشیں کون سنبھالے کہ محبّت میں یہاں
ہم نے پہلے ہی بہت بوجھ اُٹھایا ہوا ہے

بانوئے شہر، ہمیں تجھ سے ندامت ہے بہت
ایک دل ہے، سو کسی اور پہ آیا ہوا ہے

عرفان صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین

بے فیض رہبروں سے مرتّب جو ہو چلی
احوال کی وہ شکل، گوارا ہمیں ہو کیوں

ہم ہیں پُھوار ابر کی، بوچھاڑ ہم نہیں
سختی کریں کسی پہ، یہ یارا ہمیں ہو کیوں

ماجد صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین

دھیان بھی تیرا، تِری موجُودگی سے کم نہ تھا
کنجِ خلوت میں بھی ہم، جکڑے رہے آداب میں

پیشِ دل کچھ اور ہے، پیشِ نظر کچھ اور ہے
ہم کھُلی آنکھوں سے کیا کیا دیکھتے ہیں خواب میں

خورشید رضوی
 

طارق شاہ

محفلین

دل پہ اِک طُرفہ قیامت کرنا
مُسکراتے ہوئے رُخصت کرنا

جُرم کِس کا تھا، سزا کِس کو مِلی
کیا گئی بات پہ حُجّت کرنا

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین

عکس کوئی ہو، خدوخال تمہارے دیکھوں
بزم کوئی ہو، مگر بات تمہاری نکلے

اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا، محسن
میرے قاتل تو میرے اپنے حواری نکلے

محسن نقوی
 

طارق شاہ

محفلین


ہمیں کوئی غم نہیں تھا، غمِ عاشقی سے پہلے
نہ تھی دشمنی کسی سے، تِری دوستی سے پہلے

یہ عجیب اِمتحاں ہے، کہ تُمھی کو بُھولنا ہے
مِلے کب تھے اِس طرح ہم، تُمھیں بے رُخی سے، پہلے


فیاض ہاشمی
 

طارق شاہ

محفلین


جنگل سے پُوچھتی ہے ہواؤں کی برہمی !
جگنو کو تِیرگی میں کِرن کون دے گیا

توڑا ہے کِس نے نوکِ سناں پرسکوُتِ صبر
لب بستگی کو تابِ سُخن کون دے گیا

محسن وہ کائناتِ غزل ہے، اُسے بھی دیکھ !
مجھ سے نہ پوچھ، مجھ کو یہ فن کون دے گیا

محسن نقوی
 

طارق شاہ

محفلین

بے حسی کا بھی اب نہیں احساس
کیا ہُوا تیری بے رُخی سے مجھے

موت کی آرزو بھی کر دیکھوں !
کیا اُمیدیں تھیں زندگی سے مجھے

ضیا جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین



ارمغاں ہیں تِری چاہت کے شگفتہ لمحے !
بیخودی اپنی، شب اپنی ، مہ تاباں اپنا

اس طرح عکس پڑا تیرے شفق ہونٹوں کا !
صُبحِ گُلزار ہُوا، سینۂ ویران اپنا

ضیا جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین


میں نے کچُھ اِختلاف کِیا آپ سے اگر !
غصہ عبث ہے، آپ کا نوکر نہیں ہُوں میں

اے قبلہ ! آپ مُجھ پہ چڑھے آتے ہیں یہ کیوں
ممبر اِس انجمن کا ہُوں، منبر نہیں ہُوں میں

اکبرالٰہ
آبادی
 
Top