سین خے

محفلین
سلسلہ وار جھوٹ بولتے ہیں
سب اداکار جھوٹ بولتے ہیں

آپ نے تو حضور حد کر دی
لوگ دو چار جھوٹ بولتے ہیں

جن کو اچھا وکیل بننا ہو
وہ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں

لوگ آسان سی زبانوں میں
کتنے دشوار جھوٹ بولتے ہیں

کیا بھلے دوست ہیں لطیفؔ مرے
کیا ہی شہکار جھوٹ بولتے ہیں
 

جاسمن

لائبریرین
جو وہ نہیں تھا تو میں متفق تھا لوگوں سے
وہ میرے سامنے آیا تو اختلاف کیا
ذیشان ساحل
 

رباب واسطی

محفلین
عقل کو ،،، دل پہ وار پھینکا ہے
بوجھ ،،،،، سر سے اتار پھینکا ہے
جو ،،،،،،، مجھے مارنے کو بھیجا گیا
میں نے اُس دُکھ کو مار پھینکا ہے
 

رباب واسطی

محفلین
پتھروں میں بھی کوئ جوہرِ قابل رکھ دو
ورنہ رستے میں اٹھا کر کوئ منزل رکھ دو
دعوہِ حسن کرے کوئ تو خاموش رہو
صرف آہستہ سے آئینہ مقابل رکھ دو
دوستو ، ظلمتِ شب کا تمہیں اندازہ نہیں
جتنی شمعیں ہوں فراہم سرِ محفل رکھ دو
میں محبّت ہوں ، مرے پاس ہے نفرت کا علاج
تم ہر اک شخص کے سینے میں مرا دل رکھ دو
 

جان

محفلین
خود چراغ بن کے جل وقت کے اندھیرے میں
بھیک کے اجالوں سے روشنی نہیں ہوتی
(ہستی مل ہستی)
 

جان

محفلین
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
(منیر نیازی)
 

جان

محفلین
ہر ایک حسن کا پیکر ہے ماورائے گماں
ہر ایک چاہنے والے کو بدگماں پایا
(راحیل فاروق)
 

جان

محفلین
کبھی پا کے کھو دیا ہے مجھے بےنیازیوں نے
کبھی کھو کے دوسروں میں مجھے ڈھونڈتا ہے کوئی
(راحیل فاروق)
 

جان

محفلین
میں چھپا رہا ہوں جو کچھ میں بتا رہا ہوں جو کچھ
نہ چھپا سکا ہے کوئی نہ بتا سکا ہے کوئی
(راحیل فاروق)
 

جان

محفلین
پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں
اب تو آنسو بھی نہیں ہیں کہ بہانے لگ جائیں
 

جان

محفلین
تیرے کہنے سے میں خاموش ہوں اے دل لیکن
خود ہی پلکوں پہ کہیں اشک نہ آنے لگ جائیں
(محسن علوی)
 

جان

محفلین
آدمی سے انساں تک آ گئے تو سمجھو گے
کیوں چراغ کے نیچے روشنی نہیں ملتی
(منظر بھوپالی)
 

جان

محفلین
رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا
اب اختتامِ باب ضروری سا ہو گیا

ہم ٹالتے رہے کہ یہ نوبت نہ آنے پائے
پھر ہِجر کا عذاب ضروری سا ہو گیا

اعتبار ساجد
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
یہ خیال سارے ہیں عارضی، یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلِ آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھر گئے
(اعتبار ساجد)
 

جان

محفلین
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذاب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا ، مری دھڑکنوں کو قرار دو
(اعتبار ساجد)
 
Top