فاخر رضا

محفلین
مشورے کا شکریہ! ورکشاپ سے نکلنے کے بعد شعر اپنا نہیں لگتا ، یعنی پہچانا نہیں جاتا۔ ایک دفعہ احمد فراز کی غزل بھیجی تھی ، اس کی بھی کافی مرمت فرمائی تھی (مذاق میں )۔ اگر آپ کو شعر اچھا نہیں لگا، تو معافی چاہتا ہوں۔ آئندہ اس لڑی میں شیئر نہیں کروں گا۔
یار بس مذاق کیا تھا
پہلے ردیف قافیہ دیکھ لیا کرو یا محلے میں کسی کو دکھا لیا کرو.
اس لڑی میں اپنے نہیں، اپنے پسندیدہ اشعار (مصدقہ شعراء کے) ڈالو کرو
ناراض کیوں ہوگئے، میں نے کیا ایسا کہ دیا
 
یار بس مذاق کیا تھا
پہلے ردیف قافیہ دیکھ لیا کرو یا محلے میں کسی کو دکھا لیا کرو.
اس لڑی میں اپنے نہیں، اپنے پسندیدہ اشعار (مصدقہ شعراء کے) ڈالو کرو
ناراض کیوں ہوگئے، میں نے کیا ایسا کہ دیا
ناراض نہیں ہوں۔ محلے میں دکھا دیا تو وہ پتہ نہیں کیا سمجھیں گے۔ البتہ اصلاح کے لٸے فورم میں برادرم بھیج دیا کروں گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
افتخار عارف

میانِ عرصۂ موت و حیات رقص میں ہے
اکیلا میں نہیں کل کائنات رقص میں ہے

مزارِ شمس پہ رومی ہیں حجتِ آخر
کہ جو جہاں بھی ہے مرشد کے ساتھ رقص میں ہے

ہر ایک ذرہ، ہر اک پارۂ زمین و زمان
کسی کے حکم پہ، دن ہو کہ رات، رقص میں ہے

اُتاق کنگرۂ عرش کے چراغ کی لو
کسی گلی کے فقیروں کے ساتھ رقص میں ہے

سنائ ہوں کہ وہ عطّار ہوں کہ رومی ہوں
ہر اک مقام پہ اک خوش صفات رقص میں ہے

یہ جذب و شوق، یہ وارفتگی، یہ وجد ووفُور
میں رقص میں ہوں، کہ کُل کائنات رقص میں ہے

مجال ہے کوئ جنبش کرے رضا کے بغیر
جو رقص میں ہے، اجازت کے ساتھ رقص میں ہے

میں ایک شمس کی آمد کا منتظر تھا سو اب
مرے وجود کے رومی کی ذات رقص میں ہے
 

سیما علی

لائبریرین
وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصل گل پہ روئے تھے

ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے

تمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالی
کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے

تمام عمر وفا کے گناہ گار رہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے

شب خموش کو تنہائی نے زباں دے دی
پہاڑ گونجتے تھے دشت سنسناتے تھے

وہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیار
جو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھے

نئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے آہن میں
ہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھے

یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے

ندیمؔ جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے

احمد ندیم قاسمی
 

سیما علی

لائبریرین
میری راتیں تیری یادوں سے سجی رہتی ہیں
میری سانسیں تیری خوشبو میں بسی رہتی ہیں

میری آنکھوں میں تیرا سپنا سجا رہتا ہے
ہاں میرے دل میں تیرا عکس بسا رہتا ہے

اس طرح میرے دل کے بہت پاس ہو تم
جس طرح پاس ہی شہ رگ کے خدا رہتا ہے

تم کو معلوم بھی شاید یہ کبھی ہو کہ نہ ہو
میرے آنگن میں لگے پھول گواہی دیں گے

میں نے عرصے سے کسی پھول کو دیکھا بھی نہیں
تجھ کو سوچا ہے تو پھر تجھ کو ہی سوچا ہے فقط

تیرے سوا کسی اور کو سوچا بھی نہیں
تم کو معلو م بھی شاید یہ کبھی ہو کہ نہ ہو

امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
اب کے یوں دِل کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے

ایک ایک پھول بہت یاد آیا
شاخِ گل جب جلا دی ہم نے

آج پِھر یاد بہت آئے وہ
آج پِھر اس کو دعا دی ہم نے

کوئی تو بات اس میں بھی ہے احسان
ہر خوشی جس پر لٹا دی ہم نے

احسان دانش
 

سیما علی

لائبریرین
پسِ گردِ جادۂ درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے!!!!!!!!!!!!!!
جو دلوں سے ہو کے گزر رہا ہے وہ راستہ بھی تو دیکھتے


یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی
کبھی راویانِ خبر زدہ پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

یہ گلو گرفتہ و بستۂ رسنِ جفا، مرے ہم قلم!!!!!!!!!!!!
کبھی جابروں کے دلوں میں خوفِ مکالمہ بھی تو دیکھتے

یہ جو پتھروں میں چھپی ہوئی ہے شبیہ ،یہ بھی کمال ہے
وہ جو آئینے میں ہُمک رہا ہے وہ معجزہ بھی تو دیکھتے!!!!!!!


جو ہوا کے رُخ پہ کھلے ہوئے ہیں وہ بادباں تو نظر میں ہیں
وہ جو موجِ خوں سے الجھ رہا ہے وہ حوصلہ بھی تو دیکھتے!!

یہ جو آبِ زر سے رقم ہوئی ہے یہ داستاں بھی مستند
وہ جو خونِ دل سے لکھا گیا ہے وہ حاشیہ بھی تو دیکھتے


میں تو خاک تھا کسی چشمِ ناز میں آگیا ہوں تو مِہر ہوں
مرے مہرباں کبھی اک نظر مرا سلسلہ بھی تو دیکھتے!!!!


افتخار عارف
 
اب کے یوں دِل کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے

ایک ایک پھول بہت یاد آیا
شاخِ گل جب جلا دی ہم نے

آج پِھر یاد بہت آئے وہ
آج پِھر اس کو دعا دی ہم نے

کوئی تو بات اس میں بھی ہے احسان
ہر خوشی جس پر لٹا دی ہم نے

احسان دانش


یہ غزل سوشل میڈیا پر پڑھی تھی جو فیض صاحب کے نام سے منسوب تھی, آج آپ نے احسان دانش صاحب کے نام سے شیئر کی :unsure::struggle:
 
Top