طارق شاہ

محفلین

برف گرماتی رہی، دُھوپ اماں دیتی رہی !
دل کی نگری میں جو موسم تھے، تِرے موسم تھے

میری پونجی، مِرے اپنے ہی لہو کی تھی کشید
زندگی بھر کی کمائی، مِرے اپنے غم تھے

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین

‫گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خُدائی تو کوئی بات نہیں

جو تجھ سے عہدِ وفا اُستُوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

نغمۂ شوق مِرا، جُنْبشِ لب تک پہنچا
سِلسِلہ تیری تمنّا کا، طلب تک پہنچا

اور کیا اِس سے سوا حُسنِ طلب ہے، عاجز
حد سے گزرا بھی تو میں حدِ ادب تک پہنچا

مشتاق عاجز
 

طارق شاہ

محفلین


اُمیدِ رنگ و بُو رکھّی ہوئی ہے
تمنّائے سبُو رکھّی ہوئی ہے

زباں کو بے طلب رکھّا ہُوا ہے
انا کی آبرو رکھّی ہوئی ہے

مشتاق عاجز
 

طارق شاہ

محفلین

وہ میرے پاؤں کو چُھونے جُھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اُسے دیتی، امیر ایسی تھی

کتر کے جال بھی صیّاد کی رضا کے بغیر
تمام عمر نہ اُڑتی، اسیر ایسی تھی

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین

ہیں سُرُورِ وصل سے لبریز مشتاقوں کے دل !
کر رہی ہیں، آرزوئیں سجدۂ شُکرانہ آج

حسرتیں دل کی ہُوئی جاتی ہیں، پامالِ نِشاط
ہے جو وہ جانِ تمنّا، رَونقِ کاشانہ آج

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

نہیں آتی، تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی !
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یاد آتے ہیں

حقیقت کُھل گئی حسرت، تِرے ترکِ محبّت کی
تجھے تو، اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

شرح بے دردیِ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی

پھر وہی وعدہ، جو اِقرار نہ ہونے پایا !
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی


فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

بتائیں کیا، کہ بنایا ہے اُس نے کاجل سے
نظر سے دل میں اُترتا جو خال، کیا شے ہے

ہے مشتِ خاک میں جاری وہ رقصِ بے ہنگام
مقابلے میں کہ جس کے دھمال کیا شے ہے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

کیوں یاس! قفس میں بھی وہی زمزمہ سنجی !
ایسا تو زمانے میں کوئی دل نہیں رکھتا

یاس، یگانہ، عظیم آبادی
 
Top