لاريب اخلاص

لائبریرین
(فیس بک سے انتخاب)

میں اپنے دور کا شاعر ہوں
ہر دور سے ہو کر آیا ہوں

حافی سے ہے تہذیب چُرائی
زریون کی مستی لایا ہوں

نجمی کے پنجرے سے اُڑ کر
جنگل میں سیدھا آیا ہوں

عامر کے انداز میں سُن لو
جالب کی بغاوت لایا ہوں

گُلزار کی خوشبو ساتھ لیے
میں سرحد توڑ کر آیا ہوں

جون کو مُرشد مانا ہے
تعویز محسن سے لایا ہوں

بچپن میں فیض کو سُنتا تھا
فراز کو پڑھ کر آیا ہوں

ساغر سے درویشی سیکھی
ناصر سے چرچہ لایا ہوں

درد کے درد کو پالا ہے
اور میر سے مصرعے لایا ہوں

غالب میرا ساقی ہے
اور جگر سے پیالہ لایا ہوں

امرتا روٹھی بیٹھی ہے
ساحر کو منانے لایا ہوں

اک یار منانا ہے مجھ کو
میں بُلھا بن کر آیا ہوں

وارث کا عشق حقیقی تھا
میں ھیر مجازی لایا ہوں

اقبال کو ہاتھ نہیں ڈالا
بس پاوں چوم کر آیا ہوں۔!!
نامعلوم
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
تم اپنے عقیدوں کے نیزے

ہر دل میں اتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں

تم خنجر کیوں لہراتے ہو

اس شہر میں نغمے بہنے دو

بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے

ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں

تم کس کا لہو پینے آئے

ہم پیار سکھانے والے ہیں

اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے

جب حرف یہاں مر جائے گا

جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی

جب شعر سفر کر جائے گا

جب قتل ہوا سر سازوں کا

جب کال پڑا آوازوں کا

جب شہر کھنڈر بن جائے گا

پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے

اپنے چہرے آئینوں میں

جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے
احمد فراز
 

شمشاد

لائبریرین
اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک
اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے
اختر ہوشیارپوری
 
Top