سیما علی

لائبریرین
تازہ خواہی داشتن گر، داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خوان قصہء پارینہ را

اگر سینے کے داغوں کو تازہ رکھنا چاہتے ہو
کبھی کبھی پُرانے قصوں کو دوبارہ پڑھ لیا کرو
 

سیما علی

لائبریرین
ہے سبزہ زار ہر درو دیوارِ غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو، پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
ناچار بے کسی کی بھی حسرت اٹھائیے
دشواریِ رہ و ستمِ ہمرہاں نہ پوچھ
 

سیما علی

لائبریرین
یہی ہے صورت ِ ردّ ِ بلا ہمارے پاس
کہ اْس کے نام کا سینے پہ دم کیے جائیں

نہ جانے کون جگہ دفن ہو وہ تشنہ لبی
تمام راستے آنکھوں کو نم کیے جائیں
 

سیما علی

لائبریرین
پاؤں کے زخم دکھانے کی اجازت دی جائے
ورنہ رہگیر کو جانے کی اجازت دی جائے

اس قدر ضبط مری جان بھی لے سکتا ہے
کم سے کم اشک بہانے کی اجازت دی جائے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آدمی میں بھی ہوں آدمی کی طرح
جی رہا ہوں مگر بے کسی کی طرح
ہر قدم پر لہو کا تعاقب کرے
موت وحشت زدہ اونٹنی کی طرح

منصور آفاق
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اب کے برس کچھ ایسی تدبیر کرتے ہیں
مل کے اک شہرِ محبت تعمیر کرتے ہیں
خزاں کی اجاڑ شامیں نہ آئیں اگلے سال
اس بہار رُت کو زنجیر کرتے ہیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مسئلے تو پچھلے سال کے اپنی جگہ رہے
سب سوچتے رہے کہ نیا سال آ گیا
خوشیاں جو بانٹتا تو کوئی نئی بات تھی
گزرا ہوا یہ سال بھی عمریں بڑھا گیا
 
Top