پُرنم آنکھوں سے
اک فلسفہِ عشق
جو کہہ دوں میں
اندھیری رات ہو جائے
اور دل بے نور ہو جائے
ترے ہجر کی تپتی راتوں میں
مری آنکھیں جل تھل ہو جائیں
بھیگی ہوئی آنکھیں مجھ سے کہتی ہیں
شکوہِ عہدِوفا یوں کرتی ہیں
غم کی گہری آنہوں سے
مجھے ہر پل یونہی مرنے دو
تم دور ہی رہو اچھا ہے
تم دور سہی ہو اچھا ہے
اس یک طرفہ الفت سے
مرے دل کا روگ اچھا ہے
مرزا عبدالعلیم بیگ