پورے سات (۷) صفحہ تو نہ پڑھ سکا لیکن امید ہے یہ انوکھا اور جدید طریقہ ابھی تک دامِ تحریر میں نہ آیا ہوگا.
ابھی کچھ دن گزرے ایک دوست نے بتایا کہ دوپہر کے وقت وہ اپنے دفتر میں آرام فرمارہے تھے کہ اسی دوران خاتونِ خانہ کی گھبرائی ہوئی کال موصول ہوئی. اطلاع یہ ملی کہ انہی کی گلی میں ڈکیتی کی ایک واردات ہوئی ہے اور ڈکیتی پر مزاحمت کے دوران زخمی ہونے والا شہری انہی کے دروازے کے آگے بےسدھ پڑا ہے. موصوف اس اطلاع پر حسبِ توفیق فکرمند ہوئے اور خاتونِ خانہ کو تسلی دے کر اس امید پر اطمینان سے دوبارہ آرام کرنے میں مصروف ہوگئے کہ بہرحال گلی میں اور لوگ بھی رہتے ہیں کوئی نہ کوئی خداترسی کاثبوت دے ہی دے گا. اور ایسا ہی ہوا.
جب رات کو ہمارے یہ دوست دفتر سے تھکےہارے گھر پہنچے تو گلی کے کونے پر ہی انہیں پورے واقع کی اطلاع مل گئی.
ہوا یہ تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار دوافراد گلی میں داخل ہوئے اور گلی میں کھڑے غریب مسکین ٹھیلے والے کو لوٹنے لگے اس غریب نے دہائی دینے کیلئے آواز لگائی تو کمبختوں نے اسے زدوکوب کیا اور گلی میں ادھ موا چھوڑ کے بھاگ گئے بہرحال شورشرابے پر لوگ گھروں سے نکلے تو مظلوم ٹھیلے والا تڑپتا ہوا ملا. لوگوں نے پانی وغیرہ پلایا حالت درست کی تو وہ بلک بلک کے رونے لگا، پوچھنے پر پتا چلا کہ گھر کا خرچہ چلانے کیلئے ہزار پندرہ سو روپے رکھے تھے جو ڈاکو لوٹ کر لے گئے، اب گھر جائے بھی تو کس منہ سے؟۔۔ خیر محلے والوں نے مل ملا کر اس کا نقصان پورا کردیا۔ ہمارے دوست نے اس واقعہ پر غیر محتاط افسوس کا اظہار فرمایا اور گھر آگئے، پتا چلا کہ اس رقم میں ایک حصہ خاتون خانہ نے ان کی نیک کمائی سے بھی ملایا ہے کیونکہ بہرحال وہ شخص زخمی ہو کر انہیں کے دروازے پر گرا تھا۔
اگلے روز جب ہمارے دوست اپنی بیگم اور بچوں کو لیکر سسرائیل گئے تو ہوبہو وہی منظر کوچہءجاناںِ ماضی میں بھی وقوع پزیر ہو رہا تھا ۔۔ حد تو یہ ہے کہ جاناںِ ماضی یعنی حالیہ خاتون خانہ نے بھیگی آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز سے تصدیق کی کہ یہ تو وہی مظلوم آدمی ہے جسے کل بھی لوٹنے کے بعد زخمی حالت میں تڑپتا چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔۔