آپ کے ہاں سائلین کس طرح فریاد کرتے ہیں؟؟؟

جاسمن

لائبریرین
ہمارے بچپن میں ایک پورا گروہ آتا تھا۔
دے جا سکھیا راہِ خُدا،تیرا اللہ ہی بُوٹا لائے گا۔
یہ نابینا گداگروں کا گروہ تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
جب میں نئی نئی یہاں شفٹ ہوئی تو ایک مارکیٹ میں جو گھر کے راستے میں پڑتی تھی ، اکثر آتے جاتے رکنا لگا رہتا ہے. وہیں ایک انتہائی ضعیف و معمر خاتون ملتی تھیں جو بہت مشکل سے چل پاتی تھیں. ایک بار بنک سے باہر آتے ملیں تو میں انہیں کچھ تھما دیا. ذرا آگے آئی تو ایک انکل نے بھی روک لیا کہ کچھ دے کر جاو. اچھے خاصے صحت مند انکل تھے سو میں ان کو کچھ دیئے بغیر پاس ہی موجود سٹور میں چلی گئی. واپس آئی تو وہ انکل میری گاڑی کے پاس کھڑے تھے. میں دھیان دیئے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئی تو میرے ڈرائیور کہنے لگے کہ یہ چاچا یہ بتانے آئے تھے کہ جن اماں جی کی آپ اکثر مدد کرتی ہیں وہ اپنے پورے خاندان سمیت اس مارکیٹ میں ہوتی ہیں اور وہ بالکل بھی بیمار یا ضعیف نہیں ہیں بلکہ اداکاری کرتی ہیں اور یوں ہمارا حق بھی مارتی ہیں. میں کہا ایسے ہی کہہ رہے ہوں گے میں اتنے عرصے سے انہیں دیکھ رہی ہوں وہ ایسی ہی ہیں.
خیر کچھ عرصہ بعد وہ اسی مارکیٹ واقعی ہی مجھے بالکل ٹھیک ٹھک چلتی ہوئی دکھائی دیں اور ان کے اردگرد ان کی بیٹیاں یا بہوئیں اور بچے بھی موجود تھے. ان دوسرے انکل نے پروفیشنل رائولری میں سچی بات بتائی تھی. میں نے ہی یقین نہیں کیا.
ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ ہؤا۔ اپنی نوکری کے سلسلے میں ہاسٹل میں رہتی تھی تو میں نے ایک خاتون کو کاموں کے لیے رکھا۔ کچھ عرصہ صحیح کام کرتی رہی۔ہم اس کی اور بھی مدد کرتے تھے۔ میری ساتھی اُس سے کام تو نہیں کرواتی تھیں لیکن جس نے کوئی صدقہ خیرات دینی ہوتی،اسے دے دیتی۔ پھر اس کی توجہ کام پہ نہ رہی تو مجھے کام نہیں پسند آتا تھا۔ میں نے ہٹا کر خود کرنا شروع کر دیا۔ اس کی ساس فوت ہوئیں تو وہ آئی کہ کفن دفن کا انتظام کر دیں ۔ہم نے کیا۔ ایسے ہی وہ کبھی کبھی آجاتی اور کوئی بھی کام کئے بغیر مدد کی طالب رہتی۔
ایک بار کافی عرصہ بعد آئی کہ میرا بیٹا فوت ہو گیا۔ اب میری بہو بچوں سمیت میرے پاس ہے تو میری مدد کریں۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ اس طرح وہ کب تک مدد لیتی رہے گی میں اسے لے کے چلتی ہوں دارالاطفال میں۔ بہت اچھا ادارہ ہے۔ بچوں کے لیے الگ اور بچیوں کے لیے الگ۔ میں نے پہلے بھی ایک بچی داخل کرائی تھی۔ وہ اب میٹرک کر رہی ہے۔
میں نے اسے بڑا قائل کیا۔ اور اسے پیشکش کی کہ ایک بار میرے ساتھ چل کے خود دیکھو سارا ماحول اور فیصلہ کرو،،،،پر نہیں۔ وہ نہیں مانی ۔ایک ہی جملہ بار بار کہتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔میں نے کہا کہ ایسے مانگنے پہ لوگ کچھ نہیں کہتے۔پھر دوبارہ نہیں آئی۔
 

لاریب مرزا

محفلین
بھیک مانگنے کے بہت سے انداز دیکھے ہیں۔ لیکن ہمیں جس پہ سب سے زیادہ غصہ آیا اور بہت عجیب بھی لگا ہم وہ شریک کرتے ہیں۔
سہیلیوں کے ساتھ داتا دربار جانے کا اتفاق ہوا۔ داتا دربار کے باہر مانگنے والی "صحت مند" خواتین کثیر تعداد میں ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیے کھڑی پائیں.. وہ ہر آنے جانے والوں کی طرف لپکتی تھیں اور ان پر باقاعدہ حملہ کر کے پھولوں کے ہار ان کے گلے میں ڈال دیتیں.. اور کہتیں، "باجی!! تو بڑی خوش نصیب ہے، اللہ کے حکم سے یہ ہار تیرے گلے میں ڈالا گیا ہے۔ دل کھول کے پیسے دینا.. :bulgy-eyes:
ایک تو رش اتنا تھا کہ ہم وہاں سے جلدی جلدی گزر جانا چاہتے تھے۔ ہم نے کہا بھئی اپنا ہار اپنے پاس رکھیں اور کسی اور "خوش نصیب" کے گلے میں ڈالیں، ہمیں نہیں چاہیے۔ لیکن وہ بھکارن ڈرائے جا رہی تھی کہ ہار ڈالنے کے بعد پیسے نہ دئیے تو تمہارے ساتھ اچھا نہیں ہو گا.. :oops:
کئی ایک نے "خوش قسمت" کہلائے جانے پر خوشی خوشی ان کو پیسے دے دئیے.. جبکہ کچھ نے ان کی باتوں سے ڈر کے۔۔ ہماری بھی جان نہیں چھوڑ رہیں تھیں۔ ہم نے تو جان چھڑانے کو دئیے۔۔ :cautious:
لیکن اس طریقے سے بھیک مانگنے پر بہت غصہ آیا تھا۔ :arrogant:
 

لاریب مرزا

محفلین
میں نے پیشہ وارانہ گداگروں سے بہتر آج تک کسی کو نفسیات شناس نہیں پایا۔ قیافے اور موقع محل سے ایسا بر محل جملہ ادا کریں گے کہ آپ کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیں گے اور بہت سے سادہ لوح لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہسپتال کے باہر صحت کی دعا، بچوں کے ساتھ بچوں کی درازی عمر کی دعا، بیوی (وغیرہ) کے ساتھ دیکھ کر جوڑی سلامت رہنے کی دعا، کسی چیز کی خریداری کرتے ہوئے دیکھ کر بلند اقبالی کی دعا، مسجد کے باہر دین میں سرفرازی کی دعا و علی ہذا القیاس :)
آج کل تو شادی ہال کے باہر بھی بھکارنیں موجود ہوتی ہیں اور آنے جانے والی دوشیزاؤں کو گھیر کر ان سے کچھ یوں مخاطب ہوتی ہیں۔
اے باجی! اللہ تنوں سوہنا جیا صاب دیوے، کُج دے جا باجی!!
:)
 

قیصرانی

لائبریرین
کچھ ماہ پہلے میں نے راستے میں سڑک کے کنارے ایک خاتون کو چھوٹے بچوں سمیت چادر بچھا کے بیٹھے دیکھا۔ وہ مسواک لے کے بیٹھی تھیں۔ ایک لڑکی شاید ان کی مدد کے خیال سے ان کے پاس بیٹھی پوچھ رہی تھی۔ لیکن تھوڑے دن گُذرے۔۔۔کئی خواتین نے یہ طریقہ اپنا لیا۔ اب وہ مسواک لے کے بھی نہیں بیٹھتی تھیں۔ پھر بوڑھا جوڑا دامن پھیلا کے بیٹھا نظر آتا رہا۔ اب بھی کہیں نہ کہیں ایسے لوگ نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے حلیہ سے درمیانے درجے کے خاندان کے لگتے ہیں۔ بھکاری نہیں لگتے۔ہم یہ سوچ کر کہ بیچارے کتنے لاچار ہیں۔۔۔۔۔مدد کرتے ہیں۔
لاہور کے سابقہ تین چکر لگے تو یہ چیز بہت دیکھی، خصوصاً قذافی سٹیڈیم سے لبرٹی کو جاتے ہوئے
 

محمد وارث

لائبریرین
آج کل تو شادی ہال کے باہر بھی بھکارنیں موجود ہوتی ہیں اور آنے جانے والی دوشیزاؤں کو گھیر کر ان سے کچھ یوں مخاطب ہوتی ہیں۔
اے باجی! اللہ تنوں سوہنا جیا صاب دیوے، کُج دے جا باجی!!
:)
اوہ، اب پتا چلا کہ وہ دوشیزاؤں کو بھی گھیرتی ہیں، میں سمجھتا تھا کہ وہ صرف گھبرو جوانوں ہی کو گھیر کر کہتی ہیں "اللہ تینوں چن جئی ووہٹی دیوے" :)
 

قیصرانی

لائبریرین
آج کل تو شادی ہال کے باہر بھی بھکارنیں موجود ہوتی ہیں اور آنے جانے والی دوشیزاؤں کو گھیر کر ان سے کچھ یوں مخاطب ہوتی ہیں۔
اے باجی! اللہ تنوں سوہنا جیا صاب دیوے، کُج دے جا باجی!!
:)
باجی کا لفظ قابلِ غور ہے کہ اکثر خواتین اس پر معترض ہوتی ہوں گی
 

لاریب مرزا

محفلین
اوہ، اب پتا چلا کہ وہ دوشیزاؤں کو بھی گھیرتی ہیں، میں سمجھتا تھا کہ وہ صرف گھبرو جوانوں ہی کو گھیر کر کہتی ہیں "اللہ تینوں چن جئی ووہٹی دیوے" :)
ہاہاہا۔۔۔۔۔ :grin: ان کی زبان کے آگے تو خندق ہوتی ہے۔ ایسی ایسی دعائیں دیتی ہیں کہ بندہ بس جان چھڑانے پر مجبور ہو جائے۔ :)
 
سب سے زیادہ پیچھے پڑ جانے والے مری مال روڈ کے بچے ہوتے ہیں.
چپکے رہیں گے چاہے آپ اگنور کریں یا منع کریں.
جب تک کچھ دے نہ دو یا بری طرح جھڑک نہ دو جو کہ کچھ لوگ ہی کرتے ہیں.
 

زیک

مسافر
21 سال پہلے کا ذکر ہے کچورہ جھیل جا رہے تھے ایک آدھ بچہ راستے میں بھیک مانگ رہا تھا۔ بیگم نے کچھ پیسے دے دیئے۔ سکینڈوں میں اچانک وہاں درجنوں بچے پہنچ گئے اور سارا رستہ ہمارا پیچھا کرتے رہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی نہیں۔ اکثر خواتین کو یہ لفظ دلچسپ لگتا ہے۔
:)
باجی آج کل ہمارے ہاں بالکل مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اس میں اب احترام اور عزت افزائی کے ساتھ اپنے سے اعلیٰ وغیرہ کے پہلو شامل ہو چکے ہیں۔عمر کا عنصر اتنا نہیں رہا۔ شاگرد پیشہ، دکان دار ، ٹرانسپورٹ والے اب اسی سے مخاطب کرتے ہیں چاہے باجی ان سے پندرہ بیس سال چھوٹی ہو کیوں نہ ہو، "بیٹی" کا لفظ اس طرح استعمال نہیں ہوتا جیسے کبھی تھا۔

مجھے اپنا ایک دفتری قصہ یاد آ گیا اس لفظ سے لیکن پھر کبھی سہی، فی الوقت تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی اب ہمارے جناب ابن سعید صاحب کے بالکل الٹ ہو چکے ہیں۔:)
 

محمد وارث

لائبریرین
21 سال پہلے کا ذکر ہے کچورہ جھیل جا رہے تھے ایک آدھ بچہ راستے میں بھیک مانگ رہا تھا۔ بیگم نے کچھ پیسے دے دیئے۔ سکینڈوں میں اچانک وہاں درجنوں بچے پہنچ گئے اور سارا رستہ ہمارا پیچھا کرتے رہے۔
یہ بڑی مصیبت ہے صاحب۔ کسی ایک گداگر کو کچھ دینا مطلب بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دینا :)
 

عثمان

محفلین
مدتوں مجھے اس کو دیکھنے کی بہت حسرت رہی۔ یہ حسرت بھی ایک دن پوری ہوئی۔ لیکن بات طویل ہوجائے گی۔ اور شاید موضوع سے بھی ہٹ جائے۔
مجھے اپنا ایک دفتری قصہ یاد آ گیا اس لفظ سے لیکن پھر کبھی سہی، فی الوقت تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی اب ہمارے جناب ابن سعید صاحب کے بالکل الٹ ہو چکے ہیں۔:)
بیان جاری رکھیے۔ اب سسپنس پیدا کیا ہے تو سنانا تو پڑے گا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بیان جاری رکھیے۔ اب سسپنس پیدا کیا ہے تو سنانا تو پڑے گا۔ :)
نہیں اس میں کچھ خاص سسپنس نہیں ہے۔ ہماری مالکن صاحبہ بھی اپنی کمپنی کی ڈایٔرکٹر ہیں، سیالکوٹ کی اسی نوے فیصد پرائیوٹ لمیٹڈ ایکسپورٹ کمپنیوں کی طرح۔ ان کو بھی وہاں باجی کہنے کا رواج تھا، دوسرے ملازمین تو کہتے ہی تھے،مینیجر صاحبان بھی کہتے تھے، مالک صاحب بھی ان کا ذکر اسی طرح کرتے تھے۔ آٹھ سال پہلے میں وہاں گیا تو پیشہ وارانہ طور پر کچھ عجیب لگا کہ گھر کے القاب گھر میں اور دفتری القاب دفتر میں ، اللہ کی مہربانی سے کم ازکم دفتروں میں یہ رواج کب کا ختم ہو چکا۔ اب اس سے آگے کچھ کہنا سوئے ادب ہوگا ، کم ازکم سرِ محفل :)
 

محمد وارث

لائبریرین
اب ان القاب سے بھی اسکول کا ایک واقعہ یادآ گیا :)

نویں میں ہمارا میتھ کا ٹیچر اسکول کا سب سے بڑا ہٹلر تھا۔ اس کے نام چھیدا بھلی سے سب کانپتے تھے۔ ٹیپ چڑھی بید پندرہ بیس بار مارنا عام بات تھی۔ رشید صاحب کا بیٹا ہمارا کلاس فیلو تھا، ایک دن اُس نے انکی کسی مشکل بات سے گھبرا کر، بے اختیار انہیں ابو کہہ دیا۔ رشید صاحب نے اُس کا وہ حشر کیا کہ سرخا سرخ کر دیا مار مار کر کہ الو کے پٹھے کلاس میں ابو کہتا ہے، ابو گھر میں یہاں ماسٹر :)
 

قیصرانی

لائبریرین
اب ان القاب سے بھی اسکول کا ایک واقعہ یادآ گیا :)

نویں میں ہمارا میتھ کا ٹیچر اسکول کا سب سے بڑا ہٹلر تھا۔ اس کے نام چھیدا بھلی سے سب کانپتے تھے۔ ٹیپ چڑھی بید پندرہ بیس بار مارنا عام بات تھی۔ رشید صاحب کا بیٹا ہمارا کلاس فیلو تھا، ایک دن اُس نے انکی کسی مشکل بات سے گھبرا کر، بے اختیار انہیں ابو کہہ دیا۔ رشید صاحب نے اُس کا وہ حشر کیا کہ سرخا سرخ کر دیا مار مار کر کہ الو کے پٹھے کلاس میں ابو کہتا ہے، ابو گھر میں یہاں ماسٹر :)
بڑے نظر شناس تھے
 
Top