رومن ایمپائر کا قرون اولٰی کے مسلمانوں کی فتوحات سے تقابل بالکل غلط ہے۔
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا، میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کسی نئے فلاحی نظام کے نفاذ کی کوشش کرنے کے لیے اسلام کو مردہ قرار دینا اور اس کے ابتدائی دور پر کیچڑ اچھالنا کیا ضروری ہے؟
بات وہی ہوئی، جسکا ڈر تھا!
میرا مؤقف
ہر گز یہ نہیں کہ اسلام مر دہ ہو چکا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات پر عمل سے دوری ، اسلام کی مردگی کا باعث بن رہی ہے: 72 سے زائد فرقے! مشراکانہ رسومات! مغربی طرز معاشرت ! اور نہ جانے کیسے کیسے عقائد جنکا اسلام توکیا انسانیت سے دور دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سب آجکل کے مسلمانوں میں موجود ہے۔ اب بھی اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام روز روشن کی طرح زندہ ہے تو کیا یہ ٹھیک ہوگا؟!
میں پھر یہ کہوں گا کہ ہم کوئی نیا نظام نہیںڈھونڈ رہے اور نہ ہی ابتدائی دور پر کیچڑ اچھال رہے ہیں ۔ آخر کیوں ایک چھوٹی سی تنقیدی سوچ کو وبال جان بنا لیا جاتا ہے۔ تنقید کے بعد ہی تو حقائق و کمزوریاں سامنے آتی ہیں اور نئے حل اور حکمت ملتی ہے۔ (خود خلافت راشدین کے دور میں مجلس شوریٰ میں اسلامی ریاست پر پوری تنقید کا حق تھا! جبکہ آج ایک پبلک فارم پر یہ حق نہیں ہے)ابتدائی اسلامی نظام اگر ہر لحاظ سے مکمل ہوتا تو بعد میںاٹھنے والے لامتناہی فتنے کہاں سے ٹپک پڑے؟ خلافت کے حقیقی حقدار سے شروع ہونے والے فتنہ نے آج مسلمان کو پاکستانی، ایرانی اور عربی میں تقسیم کر دیا ہے! ایک طرف عربی مسلمان اگر محل میں رہتا ہے تو دوسری طرف اسکا ہمسایہ مسلمان پاکستان میں فاقے سے خود کشی کرتا ہے۔اس بارے میں کیوں کوئی نہیں سوچتا
اگر بالفرض ابتدائی اسلامی دور دوبارہ جاری ہو جائے تو سوچیں کیا مسلمانوں پر کوئی میلی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے؟