ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

علی وقار

محفلین
نیکی کا کام کیا ہے!
مجھے آج تک د ومنفی ریٹنگز ملی ہیں اور سسٹم کی خرابی کے باعث 60 دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی ریٹنگ پر 1 منفی درجہ بندی نظر آتی تھی، زیک نے صرف ایک منفی ریٹنگ دی، اور تعداد یک دم 60 ہو گئی۔ زیک کو جو کوئی منفی ریٹنگ دیتا ہے، مجھے الگ ہی خوشی ہوتی ہے۔ ;)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

جاسم محمد

محفلین
کسی نے جاسم سے کہا کہ شروع ہو جا اور جاسم نے منفی ریٹنگ دینا شروع کر دی۔🤣🤣🤣🤣
بغض جاسم محمد !
میں نے یہاں زیک کے ایک کمنٹ کے علاوہ اور کسی کو منفی ریٹنگ نہیں دی 🙂

آپ میرے پروفائل پر جا کر یہ خود چیک کر سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
انگریز ساڈے مامے دا پتر سی؟ 😜
انگریز ساڈے مامے دے پتر نئیں سی تے فیر ہندوستان دے ہندو مسلم لیڈران سی؟ 🙂
یعنی اگر حالات کی سنگینی کے باعث ہندوستان کا بٹوارا کرنا ناگزیر ہو ہی چکا تھا تو کم از کم یہ بٹوارا اس طرح تو کرتے کہ خطہ مزید ہندو مسلم تنازعات کا باعث نہ بنتا۔ بٹوارے سے قبل ہندو مسلم شہری آپس میں گلی محلے میں لڑ مر رہے تھے۔ بٹوارے کے بعد اپنی اپنی قومی افواج کے ذریعہ مختلف جنگی محاذ کھول کر یہی کام شروع کر دیا۔ اور جس بنیادی مقصد (امن و سلامتی کیساتھ اپنے اپنے ملکوں میں رہنا) کے تحت ہندوستان کا بٹوارا ہوا تھا۔ وہ مقصد تو آج تک پورا نہ ہو سکا۔ 😕
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری طرف جناح صاحب کی قسمت دیکھیے، مولانا اور کانگریس ان کو فرقہ پرست کہتی رہی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایڈوانی صاحب ان کے مزار پر آ کر ان کو سیکولر کا خطاب دے گئے!
ہمم۔ یعنی قائد اعظم اپنی وفات کے بعد بھی بغض جناح شکار رہے۔ انتہائی افسوس ناک! 😕
 

جاسم محمد

محفلین
خدا کے لئے مولانا ابو الکلام آزاد تو زرداری جیسے انسان سے نہ ملائیں ۔وہ ایک ماہر عالم دین اور ایک عظیم خطیب تھے ۔دوسری طرف ایک بے دین شخص ہے جسکا موازنہ ایک ایسے شخص کے ساتھ بالکل درست نہ ہوگا۔کیونکہ مولانا کا عقیدہ تھا کہ قرآن ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔اور جس شخص کا نام آپ لے رہے اُنکے لئے صرف پیسہ اہمیت رکھتا ہے اب وہ جس ذریعے سے بھی آئے
😢😢😢😢
میں نے صرف مولانا آزاد کی جوڑ توڑ والی سیاست کی وجہ سے ان کو زرداری کیساتھ ملایا ہے۔ ان کی باقی اعلی صفات اور دور اندیشی کا تو میں خود معترف ہوں۔ انہوں نے پاکستان سے متعلق جو پیش گوئیاں کی ان میں سے اکثر تو پہلے ہی پوری ہو چکی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا ابوالکلام آزاد لوگوں کو صرف اس لئے یاد آتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔

اگر کوئی کہے کہ گاندھی جی پاکستان کے خلاف تھے تو ہمیں کیا فرق پڑنا ہے۔ اس لئے مولانا کا نام لیا جاتا ہے کہ دیکھو بھئی تمہارے مولانا ہی پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ اب یا تو یہ مان لو کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی یا پھر مولانا کو "ڈس اون" کردو۔
یہ نہایت ہی بھونڈی دلیل ہے۔ ایسے تو پھر بہت سارے ہندو لیڈران تھے جو ہندو کانگریس کی بجائے قائد اعظم کی مسلم لیگ کیساتھ تحریک پاکستان میں شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ ان سب ہندو لیڈران نے قیام پاکستان کے بعد مشترکہ طور پر قرار مقاصد کی مخالفت کی تھی۔ اور ان میں سے بعض احتجاج کرتے ہوئے بھارت چلے گئے تھے
 

جاسم محمد

محفلین
ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو اکثر و بیشتر پاکستان کے قیام پر سوال اٹھاتا رہتا ہے۔ یا پاکستان کے اسلامی تشخص کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
تاریخ کے طالب علم تاریخ پر سوال نہیں کریں گے تو کیا روٹیاں بیچیں گے؟ 😉
 

سید رافع

محفلین
ایک اہم بات یہ ہے کہ مسٹر جناح آزادی ہند کے بارے میں سنجیدہ نہ تھے۔ اس کے بر عکس گاندھی جی نے ستیاگرہ یا حکومت سے عدم تعاون کی مہم محض ہندوستان کی آزادی کے لیے شروع کی۔ مسٹر جناح اس بات سے اسقدر ناراض ہوئے کہ کانگریس ہی چھوڑ دی۔

مسٹر جناح نہ ہی آزادی ہند کے بارے میں سنجیدہ تھے اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبات کے بارے میں سنجیدہ تھے۔ جب گاندھی جی نے 1919 میں خلافت موومنٹ کے ساتھ دینے کا اعلان کیا تو مسٹر جناح نے اس کی مخالفت کی کہ یہ ترکی کا مسئلہ ہے مسلمانوں یا ہند کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔

گاندھی جی مسٹر جناح سے بڑے لیڈر تھے۔ صرف دونوں کے لباس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس کی شناخت کیا تھی؟
 

سید رافع

محفلین
آج کے ہندوستان میں دالعلوم دیوبند، جامعہ مدرسہ منظر اسلام بریلی احمد رضا خان اور مسلمانوں کی وہ تمام جماعتیں مثلا جماعت اسلامی، جماعت اہل حدیث انڈیا، دعوت اسلامی وغیرہ ویسے ہی کام کر رہی ہیں جیسے کہ پاکستان میں ان کی شاخیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ایک نیا ملک بنا کر وہی کام دہرایا جائے؟ ہندوستان میں تو ہمارا ہزار سالہ مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی ورثہ ہے۔ ہزارہا ایسے مقامات و عمارتیں ہیں جو مسلمانوں کے گزرے احوال بیان کرتی ہیں۔ صرف دلی میں ہی خواجہ نظام الدین اولیاء، بختیار کاکی رحم اللہ تعالی کے مزارات ہیں۔ غالب اور دیگر شعراء کے مقابر علحیدہ ہیں۔ مسلمان سلاطین کی قبور اسکے علاوہ ہیں۔ اتنا کچھ اثاثہ چھوڑ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟
 

علی وقار

محفلین
ایک اہم بات یہ ہے کہ مسٹر جناح آزادی ہند کے بارے میں سنجیدہ نہ تھے۔ اس کے بر عکس گاندھی جی نے ستیاگرہ یا حکومت سے عدم تعاون کی مہم محض ہندوستان کی آزادی کے لیے شروع کی۔ مسٹر جناح اس بات سے اسقدر ناراض ہوئے کہ کانگریس ہی چھوڑ دی۔
رافع بھائی انگریز کا جانا تو تقریباًطے شدہ تھا۔ کئی اقوام انگریزوں سے آزادی حاصل کر رہی تھی سو ہندوستان کا معاملہ بھی اسی ذیل میں دیکھا جانا چاہیے۔ برٹش راج کے بعد کے نظام کے حوالے سے مختلف آراء ضرور پائی جاتی تھیں۔
آج کے ہندوستان میں دالعلوم دیوبند، جامعہ مدرسہ منظر اسلام بریلی احمد رضا خان اور مسلمانوں کی وہ تمام جماعتیں مثلا جماعت اسلامی، جماعت اہل حدیث انڈیا، دعوت اسلامی وغیرہ ویسے ہی کام کر رہی ہیں جیسے کہ پاکستان میں ان کی شاخیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ایک نیا ملک بنا کر وہی کام دہرایا جائے؟ ہندوستان میں تو ہمارا ہزار سالہ مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی ورثہ ہے۔ ہزارہا ایسے مقامات و عمارتیں ہیں جو مسلمانوں کے گزرے احوال بیان کرتی ہیں۔ صرف دلی میں ہی خواجہ نظام الدین اولیاء، بختیار کاکی رحم اللہ تعالی کے مزارات ہیں۔ غالب اور دیگر شعراء کے مقابر علحیدہ ہیں۔ مسلمان سلاطین کی قبور اسکے علاوہ ہیں۔ اتنا کچھ اثاثہ چھوڑ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟
دینی و مذہبی معاملات، نشر و اشاعت اور تبلیغ کا ملکوں کے قیام سے کوئی خاص تعلق ہوناتو نہیں چاہیے۔

پاکستان کے قیام کے پیچھے بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اگر برصغیر میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن نہ بنا تو جمہوریت کی آڑ میں ہندو اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کا استحصال کریں گے۔ اس لیے جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی، وہاں ان کے لیے الگ وطن کا مطالبہ غیر منطقی نہیں تھا بالخصوص اس تناظر میں کہ انیس سو سینتیس میں کانگریسی وزارتوں نے جمہوریت کی آڑ لے کر مسلم کمیونٹی کے خلاف کئی نا انصافیاں کی تھیں جس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔

آج کا ہندوستان معاشی لحاظ سے پاکستان سے بہتر ہے، مگر ہر حوالے سے ہندوستان ایک مثالی ملک نہیں ہے۔ کوئی ایسا نکتہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ جس کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکے کہ اگر تقسیم ہند نہ ہوتی تو خطے کے معاملات زیادہ بہتر ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ پھوٹ ہندوستان کا میوہ ہے سو تقسیم ہند نہ ہوتی تو غالب امکان تھا کہ ہندوستان میں کئی ممالک موجود ہوتے۔ ایک بڑے ملک کی بجائے کئی چھوٹے ملکوں کا ہونا بہتر تھا۔
 

علی وقار

محفلین
ہندوستان میں تو ہمارا ہزار سالہ مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی ورثہ ہے۔ ہزارہا ایسے مقامات و عمارتیں ہیں جو مسلمانوں کے گزرے احوال بیان کرتی ہیں۔ صرف دلی میں ہی خواجہ نظام الدین اولیاء، بختیار کاکی رحم اللہ تعالی کے مزارات ہیں۔ غالب اور دیگر شعراء کے مقابر علحیدہ ہیں۔ مسلمان سلاطین کی قبور اسکے علاوہ ہیں۔ اتنا کچھ اثاثہ چھوڑ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟
ایک دوسرے کے ہاں جانا چاہیے۔ تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ میں اس کے حق میں ہوں۔ آپ کی اس بات میں بہت وزن ہے۔
 

سید رافع

محفلین
دینی و مذہبی معاملات، نشر و اشاعت اور تبلیغ کا ملکوں کے قیام سے کوئی خاص تعلق ہوناتو نہیں چاہیے۔

یہ ان لوگوں پر الزامی جواب ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ہندوستان سے بڑا علمی کام کیا جا سکے گا، اور ایسے افراد پیدا کیے جا سکیں گے جو قرآن کی سنہری تعلیمات کو لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا دیں گے۔ یہ محض لغو بات ہے۔
 

سید رافع

محفلین
رافع بھائی انگریز کا جانا تو تقریباًطے شدہ تھا۔ کئی اقوام انگریزوں سے آزادی حاصل کر رہی تھی سو ہندوستان کا معاملہ بھی اسی ذیل میں دیکھا جانا چاہیے۔ برٹش راج کے بعد کے نظام کے حوالے سے مختلف آراء ضرور پائی جاتی تھیں۔

میں دراصل مسٹر جناح کی غیر سنجیدگی کو واضح کر رہا تھا کہ وہ نہ ہی ہندوستان کی آزادی کے لیے جم کر کام کر سکے اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے۔ 1907ء میں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین اختلافات کے سبب کانگریس دو حصوں میں منقسم ہو گئی اور اعتدال پسندوں کو کانگریس کی رکنیت سے خارج کر دیا۔ مسٹر جناح ان اعتدال پسندوں میں سے تھے جنھوں نے کانگریس میں اپنا دائرہ اختیار بڑھانے کے بجائے، اور نفرت اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے بجائے ،خود ایک دوسری قسم کی انتہا پسندی کا شکار ہوگئے ۔اس کا نتیجہ چھ لاکھ مرد، عورتوں اور بچوں کے قتل کی صورت میں نکلا۔
 

سید رافع

محفلین
پاکستان بننے کے بعد 24 اکتوبر1947 کو عید الاضحی کے موقع پر انڈین مسلمانوں کی سراسیمگی اور پریشانی کو دیکھ کر مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی کے سامنے میدان میں مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک یادگار اور تاریخ ساز تقریر کی۔ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب ’خطبات آزاد‘ میں شامل اس تقریر کے چند اقتباسات یہ ہیں:

عزیزان گرامی آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی زنجیر ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لیے شاہ جہاں کی اس یادگار مسجد میں یہ اجتماع نیا نہیں۔ میں نے اس زمانہ میں بھی کہ جب اِس پر لیل و نہار کی بہت سی گردِشیں بیت چکی تھیں، تمھیں خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دلوں میں شک کی بجائے اعتماد۔‘

’آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند برس کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔‘

’حتیٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغ جدائی دے گئی ہے اس کے عہد شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ منع و انکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج انھی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صراط مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘

’میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں ہمارے سوا کوئی زیر نہیں کر سکتا۔ میں نے ہمیشہ کہا اور آج پھر کہتا ہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو۔ شک سے ہاتھ اٹھا لو اور بے عملی کو ترک کر دو۔ یہ تین دھار کا انوکھا خنجر لوہے کی اِس دو دھاری تلوار سے زیادہ کاری ہے جس کے گھاؤ کی کہانیاں میں نے تمہارے نوجوانوں کی زبانی سُنی ہیں۔‘

’یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے، اس پر غور کرو۔ تمہیں محسوس ہو گا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دِلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟‘

آزاد نے آگے یہ بھی کہا کہ ’یہ دیکھو۔۔۔ مسجد کے بلند مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون کی سینچی ہوئی ہے۔‘

’آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اسی کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔ آج زلزلوں سے ڈرتے ہو۔ کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو، کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود ایک اجالا تھا۔ یہ بادلوں کے پانی کی سبیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائنچے چڑھا لیے ہیں۔‘

’وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے۔ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرائے۔ بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا۔ صرصر اٹھی تو رخ پھیر دیا۔ آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایمان کی جانکنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اس درجہ غافل ہو گئے ہیں کہ جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔‘

'عزیزو! میرے پاس تمہارے لیے کوئی نیا نسخہ نہیں۔ 14 سو برس پہلے کا نسخہ ہے۔ وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا۔ وہی نسخہ تمہاری حیات کا ضامن اور تمہارے وجود کا رکھوالا ہے۔ اسی کا اتباع تمہاری کامرانی کی دلیل ہے۔‘
 

علی وقار

محفلین
پاکستان بننے کے بعد 24 اکتوبر1947 کو عید الاضحی کے موقع پر انڈین مسلمانوں کی سراسیمگی اور پریشانی کو دیکھ کر مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی کے سامنے میدان میں مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک یادگار اور تاریخ ساز تقریر کی۔ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب ’خطبات آزاد‘ میں شامل اس تقریر کے چند اقتباسات یہ ہیں:

عزیزان گرامی آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی زنجیر ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لیے شاہ جہاں کی اس یادگار مسجد میں یہ اجتماع نیا نہیں۔ میں نے اس زمانہ میں بھی کہ جب اِس پر لیل و نہار کی بہت سی گردِشیں بیت چکی تھیں، تمھیں خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دلوں میں شک کی بجائے اعتماد۔‘

’آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند برس کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔‘

’حتیٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغ جدائی دے گئی ہے اس کے عہد شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ منع و انکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج انھی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صراط مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘

’میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں ہمارے سوا کوئی زیر نہیں کر سکتا۔ میں نے ہمیشہ کہا اور آج پھر کہتا ہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو۔ شک سے ہاتھ اٹھا لو اور بے عملی کو ترک کر دو۔ یہ تین دھار کا انوکھا خنجر لوہے کی اِس دو دھاری تلوار سے زیادہ کاری ہے جس کے گھاؤ کی کہانیاں میں نے تمہارے نوجوانوں کی زبانی سُنی ہیں۔‘

’یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے، اس پر غور کرو۔ تمہیں محسوس ہو گا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دِلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟‘

آزاد نے آگے یہ بھی کہا کہ ’یہ دیکھو۔۔۔ مسجد کے بلند مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون کی سینچی ہوئی ہے۔‘

’آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اسی کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔ آج زلزلوں سے ڈرتے ہو۔ کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو، کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود ایک اجالا تھا۔ یہ بادلوں کے پانی کی سبیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائنچے چڑھا لیے ہیں۔‘

’وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے۔ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرائے۔ بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا۔ صرصر اٹھی تو رخ پھیر دیا۔ آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایمان کی جانکنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اس درجہ غافل ہو گئے ہیں کہ جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔‘

'عزیزو! میرے پاس تمہارے لیے کوئی نیا نسخہ نہیں۔ 14 سو برس پہلے کا نسخہ ہے۔ وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا۔ وہی نسخہ تمہاری حیات کا ضامن اور تمہارے وجود کا رکھوالا ہے۔ اسی کا اتباع تمہاری کامرانی کی دلیل ہے۔‘
کیا بات ہے مولانا کی۔ واہ! یہی تو اُن کا اصل کمال تھا۔ سیاسی حوالے سے ان سے اختلاف ممکن ہے مگر علمی و ادبی لحاظ سے ان کا مقام نہایت ارفع و بلند ہے۔
 

سید رافع

محفلین
وہ تعصب اور انتہا پسندی جس کے سامنے مسٹر جناح ہار گئے۔

 
Top