ایک اہم بات یہ ہے کہ مسٹر جناح آزادی ہند کے بارے میں سنجیدہ نہ تھے۔ اس کے بر عکس گاندھی جی نے ستیاگرہ یا حکومت سے عدم تعاون کی مہم محض ہندوستان کی آزادی کے لیے شروع کی۔ مسٹر جناح اس بات سے اسقدر ناراض ہوئے کہ کانگریس ہی چھوڑ دی۔
رافع بھائی انگریز کا جانا تو تقریباًطے شدہ تھا۔ کئی اقوام انگریزوں سے آزادی حاصل کر رہی تھی سو ہندوستان کا معاملہ بھی اسی ذیل میں دیکھا جانا چاہیے۔ برٹش راج کے بعد کے نظام کے حوالے سے مختلف آراء ضرور پائی جاتی تھیں۔
آج کے ہندوستان میں دالعلوم دیوبند، جامعہ مدرسہ منظر اسلام بریلی احمد رضا خان اور مسلمانوں کی وہ تمام جماعتیں مثلا جماعت اسلامی، جماعت اہل حدیث انڈیا، دعوت اسلامی وغیرہ ویسے ہی کام کر رہی ہیں جیسے کہ پاکستان میں ان کی شاخیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ایک نیا ملک بنا کر وہی کام دہرایا جائے؟ ہندوستان میں تو ہمارا ہزار سالہ مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی ورثہ ہے۔ ہزارہا ایسے مقامات و عمارتیں ہیں جو مسلمانوں کے گزرے احوال بیان کرتی ہیں۔ صرف دلی میں ہی خواجہ نظام الدین اولیاء، بختیار کاکی رحم اللہ تعالی کے مزارات ہیں۔ غالب اور دیگر شعراء کے مقابر علحیدہ ہیں۔ مسلمان سلاطین کی قبور اسکے علاوہ ہیں۔ اتنا کچھ اثاثہ چھوڑ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟
دینی و مذہبی معاملات، نشر و اشاعت اور تبلیغ کا ملکوں کے قیام سے کوئی خاص تعلق ہوناتو نہیں چاہیے۔
پاکستان کے قیام کے پیچھے بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اگر برصغیر میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن نہ بنا تو جمہوریت کی آڑ میں ہندو اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کا استحصال کریں گے۔ اس لیے جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی، وہاں ان کے لیے الگ وطن کا مطالبہ غیر منطقی نہیں تھا بالخصوص اس تناظر میں کہ انیس سو سینتیس میں کانگریسی وزارتوں نے جمہوریت کی آڑ لے کر مسلم کمیونٹی کے خلاف کئی نا انصافیاں کی تھیں جس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔
آج کا ہندوستان معاشی لحاظ سے پاکستان سے بہتر ہے، مگر ہر حوالے سے ہندوستان ایک مثالی ملک نہیں ہے۔ کوئی ایسا نکتہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ جس کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکے کہ اگر تقسیم ہند نہ ہوتی تو خطے کے معاملات زیادہ بہتر ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ پھوٹ ہندوستان کا میوہ ہے سو تقسیم ہند نہ ہوتی تو غالب امکان تھا کہ ہندوستان میں کئی ممالک موجود ہوتے۔ ایک بڑے ملک کی بجائے کئی چھوٹے ملکوں کا ہونا بہتر تھا۔