اللہ نہ کرے ہمارا معشوق مذکر ہو۔ یہ فساد پھیلنے کے اندیشہ سے معشوق لیکھا گیا ہے ورنہ بنتا یہ معشوق ہ تھا۔ ہ کو ساتھ ملانے کی اب بھی ہم میں ہمت نہیں۔۔۔
میں الحمد اللہ ٹھیک ہوں۔
آپ سنائیں۔
یہ اوپر والا مصرع بہت پرانا ہے شاید پاکستان بننے سے بھی پہلے کا۔ شاید مولانا محمد علی جوہر نے ایک لڑکے سے سنا جو اونچی آواز میں گاتا جارہا تھا یاالہی میرے معشوق کو گنجا کردے۔ انھوں نے تانگہ یا جو بھی سواری تھی رکوا کر اس کو بلایا اور پھر سے سنا اور مکمل سنانے کی درخواست کی لیکن وہ صرف ایک ہی مصرع جانتا تھا۔ پھراپنے اخبار زمیندار( شاید) میں انھوں نے اسی مصرع کو آگے بڑھا کر پوری نظم لکھی جس میں اندھے، گونگے، بہرے لنگڑے ہونے کی بددعائیں بھی شامل تھیں۔ اپنے قارئین کو بھی انھوں نے اس پر طبع آزمائی کی دعوت دی تھی۔ بس یہ واقعہ کہیں مع اس نظم کے پڑھا تھا نظم کا صرف دستخطوں والا حصہ ہی یاد رہ گیا جو کافی دنوں سے ذہن میں پھدک رہا تھا کل لکھ دیا پھر ہم نے بھی۔۔۔۔۔