آگئے دوبارہ گو کہ سامنے سے کئی دفعہ گزرے دیکھا محفل جمی ہوئی ہے لیکن کچھ کہنے سننے کا یارا اور فرصت نہ تھی۔ اس دوران مجھ پر یہ بھی کھُلا کہ محفل تو باقاعدہ ایک بیٹھک ہے کوئی گلی کے نکڑ کا ٹھیہ نہیں کہ چلتے چلتے ہائے ہلو کی اور یہ جا وہ جا۔ یہاں کچھ کہنے سننے کے لیے باقاعدہ ادب آداب کے ساتھ اندر آنا پڑتا ہے نشست جمانی پڑتی ہے دیکھنا پڑتا ہے کہ کون کیا بات کر رہا ہے پھر آپ کوئی بات کریں۔ خصوصاً اگر کچھ دن ناغہ ہو جائے تو بات کا سِرا ہاتھ آنے میں وقت لگتا ہے۔
تو ساتھیو آداب
کچھ بھاگا دوڑی کچھ برسات اور زیادہ کام کا دباؤ یہ وجہ تھی غیر حاضری کی۔
اس دوران بہت سا پانی پلوں تلے سے بہہ چکا ہے اور باقاعدہ ایک سیلابی ریلے کی صورت اختیار کرچکا ہے یہاں حیدرآباد تک آیا ہی چاہتا ہے۔
قیصرانی کے انٹرویو سے شروعات ہوئی محب اور ماوراء کے بعد اب استادِ محترم بڑے احترام اور تزک و احتشام سے انٹرویو کے لپیٹے میں ہیں۔ شمشاد بھائی ڈر کے مارے پاکستان بھاگ لیے ہیں محفل ایک دم بھائیں بھائیں کر رہی ہے لگتا ہے ساری رونقیں بھی اپنے ساتھ پاکستان لے آئے ہیں! لیکن میں نے تو یہاں ایک بھی نہیں دیکھی، شاید چھپا کر رکھی ہوں ایک ایک کر کے چھوڑیں گے شمشاد بھائی بھی ڈیڑھ سیانے ہیں
اب قیصرانی کو خود کلامیاں سوجھی ہیں کہ سننے والا کوئی نہیں۔