احمدی اقلیت اور ہمارے علما کا رویہ
16/02/2020 عمیر ارشد
یہ سرزمین احمدیوں اوراحمدیوں کے ساتھ ہونے والے اعمال کی گواہ ہے۔ ان کے ساتھ اچھا رویہ برتنا، تعلقات رکھنا عین اسلام کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ حتی کہ انھیں انسانی حقوق کا روادار بھی نہیں سمجھا جاتا۔ جو کہ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ ہم ایک ایسے نبی کے ماننے والے ہیں جو کہ قیامت تک کے لئے رحمت العالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں ہمارا رویہ مشرکین مکہ سے بھی بدتر نظر آتا ہے۔
اللہ قرآن میں اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ ”اور اللہ کے سوا یہ جن کو پکارتے ہیں ان کو گالی نہ دیجیو کہ وہ تجاوز کر کے اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔ اسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نگاہوں میں اس کا عمل چھبا رکھا ہے۔ پھر ان کے رب ہی کی طرف ان سب کا پلٹنا ہے تو وہ انھیں اس سے آگاہ کرے گا جو وہ کرتے رہے ہیں“ (سورہ الانعام، آیت 108 ) سو ہمیں چاہیے کہ کسی کی بھی مذہبی شخصیت کے کردارکو اتنی بری طرح نہ اچھالیں کہ وہ ہماری بات کو ہی نہ سنے۔
ہمارے علماء اور امن کا دشمن طبقہ مرزا غلام احمد کے بارے میں ایسے نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جوکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اخلاقی قدروں کو کھو چکے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں احمدی اور مربیوں کا رویہ قابل تحسین ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتے بلکہ اسے در خور اعتنا ہی نہیں سمجھتے علاوہ ازیں احسن طریقے سے پیش آتے ہیں۔ ہمارے علماء ان کے ساتھ علمی غلطی واضح کرنے کی بجائے لڑنے کے درپے ہوتے ہیں۔ حالانکہ علماء کو چاہیے کہ قادیانیت کے محاسبہ کے لئے گالم گلوچ کی دنیا کو خیرآباد کہہ کے اخلاقی میدان میں آ کر مقابلہ کریں۔
ہمارے علماء نے ان کے اور ہمارے درمیان بہت کدورتیں پھیلا دی ہیں۔ جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ ان کی شادی، ان کی خوشی، ان کی غمی پر حتی کہ ان کے مرنے پر بھی ہمیں جانے کی اجازت نہیں۔ اگرکوئی جنازے پر جاتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کا نکاح ٹوٹ گیا۔ جنازہ پڑھنا، نہ پڑھنا اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس حد تک چلے جانا کہ جس نے پڑھ لیا اس کا نکاح ٹوٹ گیا۔ اس کے لیے دلیل چاہیے نہ کہ دلیل بزرگوں کے ناموں پر باندھ دی جائے۔
مرزا صاحب پر غیراخلاقی گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں اتنا ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کے ہاں گراں قدر اہمیت کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کے افکاراپنی جگہ، ان کے بارے میں ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ ہمارا رویہ اخلاق سے گرا ہوا نہیں بلکہ قابل تحسین ہونا چاہیے۔
ایک دفعہ چناب نگر (ربوہ) جانے کا اتفاق ہوا۔ سوچا جنت، جہنم دیکھیں گے، ضیافت خانہ جائیں گے۔ معلوم ہوا کہ جنت، جہنم کا تصور ہمارے علماء کی تخلیق ہے۔ کوئی احمدی ان دو قبرستانوں کو جنت، جہنم کا رتبہ نہیں دیتا۔ جماعت احمدیہ نے اپنی مالی معاونت کے لیے اپنے احمدی لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی آمدن کا، اپنے تحائف کاغرض ہر چیز کا سولہ فیصد جماعت احمدیہ کو دیں گے۔ جوجماعت احمدیہ کو سولہ فیصد دے گا اس کانام رہتی دنیا تک یاد رکھاجائے گا۔
سو جماعت احمدیہ اس شخص کواپنے لیے عظیم یا یادگار شخصیت کی حیثیت سے ایک علحیدہ قبرستان میں دفن کردیتی ہے۔ ان کا یہ عمل اپنی جماعت کی بقاء کے لیے تھا لیکن ہمارے علماء نے اس کے جواب میں تو انتہا کردی۔ ان کے اوپر ایسا جھوٹ باندھا کہ ہر کوئی اس قبرستان میں دفن ہونے والے کو یہ کہہ رہا ہے کہ یہ احمدی اسے جنتی سمجھ کریہاں دفن کر رہے ہیں۔ یہ کہاں کا علمی محاسبہ ہے؟ جیسا علماء نے رویہ اختیارکیا ایسا تو کوئی دنیادار بھی اپنے مخالف کا نہ کرے!
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے علماء قرآن سے اس قدر دور ہو چکے ہیں اور اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ قرآن و سنت سے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، سو اپنے مقام کو گنوا کر، غیراخلاقی گفتگو اختیار کر کے رد قادیانیت کو دین کا حصہ سمجھ رہے ہیں اور عام مسلمانوں تک منتقل بھی کر رہے ہیں۔
ہمارے علما کو چاہیے کہ دین کی جوبات پیش کی جائے اس میں محبت کا عنصرہو نہ کہ نفرت کا۔ دعوت دیں نہ کہ قطع تعلق کردیں۔ لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ دعوت تو کیا، مکالمہ سے بھی گریز کیا جا رہا ہے۔ علماء کو خود اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ وہ احمدیوں کے ساتھ جو رویہ برت رہے ہیں کیا یہ آخرالزمان محمدﷺکے امتی ہونے کا مصداق ہے؟ کیاوہ اپنے دین کی دعوت کو ان پر کھول رہے ہیں؟ کیا یہ ان کی غلطی کو واضح کر رہے ہیں؟
نوٹ: عاجز نہ احمدی ہے اور نہ ہی اسے احمدی سمجھا جائے۔ شکریہ