شاید ہمیں کسی حد تک تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو گا اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ پارلیمان میں طے ہونے سے قبل کسی حیثیت میں عدالت میں نہیں گیا تھا۔ اس بابت انیس سو پچاس کی دہائی کی تاریخ کا مطالعہ ہر لحاظ سے مفید ہے۔
07 فروری 1935
بہاولپور کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ باقاعدہ عدالتی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ختم نبوت کا پرچم بلند کر دیا ۔
اس سے پہلے برصغیر پاک وہند کے تمام جید علمائے کرام قادیانیت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے چکے تھے لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ باقاعدہ سرکاری عدالت نے غلام مرزا قادیانی کو کذاب قرار دیتے ہوئے قادیانی گروہ کو کافر قرار دیا ۔
07 فروری 1953 کو تاریخی مقدمہ بہاولپور کا فیصلہ سنایا گیا جو کہ منشی محمد اکبر خان ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاولنگر ریاست بہاولپور میں 24 جولائی 1926 کو دائر ہوا تھا ۔
اس مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ ،ریاست بہاول پور میں عبد الرزاق نامی شخص مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا اور اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغت کو پہنچ کر اپنے باپ کے توسط سے24جولائی1926ء کو احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخ ِنکاح کا دعویٰ کر دیا۔یہ مقدمہ بالآخر ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کو بغرضِ شرعی تحقیق منتقل ہواکہ آیا قادیانی دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں کہ نہیں؟
پہلے تو مسلمانوں کی توجہ اس طرف نہیں تھی لیکن جب قادیانیوں نے بےدریغ پیسہ خرچ کر کے فیصلہ اپنے حق میں کروانے کی کوشش کی تو مسلمانوں نے اس مقدمہ کو ملت اسلامیہ کا مقدمہ بنا دیا ۔اس سلسلے ميں بہاولپور کی انجمن موید الاسلام، مجلس احرار اور انجمن حزب اللہ کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔
اس طرح یہ مقدمہ دولوگوں کے بجائے اسلام اور قادیانیت کے مابین حق وباطل کا مقدمہ بن گیا ۔قادیانیت کے خلاف اُمت مسلمہ کی نمائندگی کے لیے سب کی نظر دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کاشمیری پر پڑی اور وہ مولانا غلام محمد گھوٹوی کی دعوت پر اپنے تمام پروگرام منسوخ کرکے بہاول پور تشریف لائے اور فرمایا:
”جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈھابیل جانے کے لیے پابہ رکاب تھا،مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی،شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا جانب دار بن کر یہاں آیا تھا…اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔،،
پھر اس مقدمہ میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا غلام محمد گھوٹوی،مولانا محمد حسین کولوتارڑوی،مولانا محمد شفیع،مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری،مولانا نجم الدین،مولانا ابوالوفاء شاہ جہانپوری اور مولانا انورشاہ کاشمیری (رحمہم اللہ تعالیٰ) کے دلائل اور بیانات پرمرزائیت بوکھلا اُٹھی۔
مولانا ابوالوفاء شاہ جہاں پوری نے عدالت میں جواب الجواب داخل کرایا جو چھ سو صفحات پر مشتمل تھا،جس نے قادیانیت کے پرخچے اُڑا دیے۔
عدالت میں موجود علماء کا کہنا ہے کہ مولانا انور شاہ کاشمیری جب مرزائیت کے خلاف قرآن وحدیث کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوار جھوم اُٹھتے اور جب جلال میں آکرمرزائیت کو للکارتے تو کفر کے نمائندوں پر لرزہ طاری ہوجاتا۔
ایک دن مولانا نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر کہا:”اگر چاہوتو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہوکر دکھا سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے“۔یہ سن کر عدالت میں موجود تمام مرزائی کانپ اُٹھے اور مسلمانوں کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔خواجہ خان محمد اس بارے میں لکھتے ہیں:”اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کاشمیری نہیں‘بلکہ حضور سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔“
جب مرزائیوں کو اس مقدمہ میں اپنی شکست سامنے نظرآنا شروع ہوئی تو انہوں نے دسمبر1934ء میں عبدالرزاق کے مرجانے کی وجہ سے یہ درخواست دائر کردی کہ اب اس مقدمے کے فیصلہ کی ضرورت نہیں ہے ‘لہٰذا اس مقدمہ کو خارج کردیا جائے…
بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شکست سے بچنے کے لیے مرزائیوں نے از خود عبدالرزاق کو قتل کرادیا،تاکہ مقدمہ خارج ہوجائے،مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔لہٰذایہ مقدمہ جاری رہا اور حق وباطل کے اس مقدمہ کا فیصلہ جناب محمد اکبر خان(اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے)نے 3 ذیقعد 1353 بمطابق 7فروری1935ء کو سنایا،جس کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار اپنے عقائد واعمال کی بنا پر مسلمان نہیں،بلکہ کافر اور خارج از اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کاغلام عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ قرار دے دیا گیا۔
مرزائیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزابشیر الدین کی سربراہی میں سر ظفر اللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ بچار کی، لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا ہے کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔جب مولانا انوار شاہ کشمیری عدالت میں بیان دے کر پلٹ رہے تھے تو بہت بیمار تھے۔انہوں نے مولانا محمد صادق (جو اس مقدمے کے پیروی کرنے والوں میں سے ایک تھے) کو وصیت کی کہ" اس مقدمے کا فیصلہ اگر میری زندگی میں ہوگیا تو میں سن لو گا، اگر میری وفات کے بعد ہوا تو میری قبر پر آ کر سنا دینا تاکہ میری روح کو تسکین پہنچے۔"
مولانا انور شاہ کشمیری نے 2، صفر، 1352ھ بمطابق 28 مئی 1933ء کو شب کے آخری حصہ میں تقریباً 60 سال کی عمر میں دیوبند میں داعئ اجل کو لبیک کہا۔اور یہ فیصلہ آپ کی وفات کے 2 سال بعد آیا۔
1945 میں اس فیصلے کو آئے دس سال بیت گئے تھے ۔مولانا محمد صادق دیوبند میں مولانا حسین احمد مدنی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مولانا انور شاہ کشمیری کی قبر کی نشاندہی کی خاطر کوئی طالب علم ساتھ بھیج دیں مولانا مجاہد الحسینی ساتھ چلے ۔
قبر پر پہنچ کر مولانا محمد صادق نے پہلے سلام عرض کیا ۔پھر مقدمے کے فیصلے کی اطلاع دیتے ہوئے مقدمہ کا فیصلہ مکمل پڑھ کر سنایا ۔
یہ عجب لوگ تھے ۔یہ عجب داستان عشق ہے جو تاجدار ختم نبوت کے دامن سے جڑی ہے۔
آخر میں مولانا انور شاہ کشمیری کی ہی ایک بات۔
گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم ختم نبوت کا تحفظ نہ کریں ۔