احمدی جواب دیتے ہیں

جاسم محمد

محفلین
تاہم جمہوریت میں اکثریتی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے، بالخصوص اگر کوئی معاملہ فریقین کے مابین نزاعی صورت اختیار کر جائے۔ :)
مغربی تہذیب و اسلامی تہذیب میں بہت فرق ہے۔
مغربی تہذیب انفرادیت پر استوار ہے۔ اسی لئے وہاں ہر فرد کے انسانی حقوق ایک جیسے ہیں۔ جیسے مذہبی آزادی، آزادی اظہار، آزادی جنس وغیرہ وغیرہ۔
مغربی ریاستیں اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق میں مداخلت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں قادیانی بھی مسلمان ہیں۔ ملحد اور دہریے بھی برابر کے شہری ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے بھی دیگر عام جوڑوں جیسے حقوق ہیں۔
جبکہ اسلامی تہذیب فرد کی بجائے اجتماعیت پر قائم ہے۔ اور اس تہذیب پر چلنے والے مسلم ممالک کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایک وضاحت تو اوپر دے چکا ہوں کہ دستور پر حدود مقرر کی جاتی ہیں۔
فریقین کے مابین فیصلہ تو عدالت کا کام ہے۔
آئین ساز ادارہ عدالت ہے یا پارلیمان! :) فریقین کے مابین فیصلہ عدالت کرتی ہے تاہم قانون سازی پارلیمان کا کام ہے۔ :) قادیانی چاہیں تو اب بھی اپنا کیس لے کر عدالت جا سکتے ہیں۔ بات ویسے جمہوریت کی ہو رہی تھی! :)
 

جان

محفلین
تاہم جمہوریت میں اکثریتی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے، بالخصوص اگر کوئی معاملہ فریقین کے مابین نزاعی صورت اختیار کر جائے۔ :)
کٹر جمہوری بنیادوں پر چلنے والے ممالک میں بنیادی انسانی حقوق جمہوریت سے الگ ہوتے ہیں یعنی جمہوریت کے پیرامیٹرز بنیادی انسانی حقوق کو نہیں چھیڑ سکتے دوسرے لفظوں میں ان پر غیر مساوی طرز پہ قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بات سادہ سی ہے کہ یہاں ویسٹرن طرز کی جمہوریت نہیں بلکہ مذہبی جمہوریت ہے یا جمہوری مذہبیت ہے اس لیے پریکٹیکل بنیادوں پر یہاں مذہب جمہوریت پہ حاوی ہے جو قرار دادِ مقاصد کی پہلی شق میں ہی واضح ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
کٹر جمہوری بنیادوں پر چلنے والے ممالک میں بنیادی انسانی حقوق جمہوریت سے الگ ہوتے ہیں یعنی جمہوریت کے پیرامیٹرز بنیادی انسانی حقوق کو نہیں چھیڑ سکتے دوسرے لفظوں میں ان پر غیر مساوی طرز پہ قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بات سادہ سی ہے کہ یہاں ویسٹرن طرز کی جمہوریت نہیں بلکہ مذہبی جمہوریت ہے یا جمہوری مذہبیت ہے اس لیے پریکٹیکل بنیادوں پر یہاں مذہب جمہوریت پہ حاوی ہے جو قرار دادِ مقاصد کی پہلی شق میں ہی واضح ہے۔
یہ تو بات طے شدہ ہے کہ پاکستان میں مغربی طرز کی جمہوریت نہیں ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
شاید ہمیں کسی حد تک تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو گا اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ پارلیمان میں طے ہونے سے قبل کسی حیثیت میں عدالت میں نہیں گیا تھا۔ اس بابت انیس سو پچاس کی دہائی کی تاریخ کا مطالعہ ہر لحاظ سے مفید ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہاں مسئلہ مذہبی ہے ۔قادیانی دنیا میں خود کو مظلوم ثابت کرنے کی ہر دم کوشش کرتے رہتے ہیں ۔اس ہی مظلومیت کا پرچار کرکے کئی ممالک میں پناہ گزین ہیں ۔
مغربی ممالک میں قادیانیوں کو وہ انفرادی آزادیاں حاصل ہیں جو پاکستان میں نہیں ہیں۔ اس امتیازی سلوک کو بنیاد بنا کر پناہ کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ بلکہ کئی کٹر مسلمان بھی خود کو قادیانی ظاہر کر کے پناہ حاصل چکے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
مغربی ممالک میں قادیانیوں کو وہ انفرادی آزادیاں حاصل ہیں جو پاکستان میں نہیں ہیں۔ اس امتیازی سلوک کو بنیاد بنا کر پناہ لی جا سکتی ہے۔ بلکہ کئی کٹر مسلمان بھی قادیانی بن کر پناہ لے چکے ہیں۔
مغربی ممالک میں جمہوریت کے خدوخال مختلف ہیں۔ وہاں اس کی گنجائش نکلتی ہے اور قادیانیوں نے اس سہولت سے بہرصورت فائدہ اٹھایا۔ مغربی ممالک میں رہنے بسنے والوں کا مجموعی قومی مزاج بھی وہاں موجود جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ مجموعی قومی مزاج ایک دن میں تشکیل نہیں پایا۔
 
مغربی تہذیب و اسلامی تہذیب میں بہت فرق ہے۔
مغربی تہذیب انفرادیت پر استوار ہے۔ اسی لئے وہاں ہر فرد کے انسانی حقوق ایک جیسے ہیں۔ جیسے مذہبی آزادی، آزادی اظہار، آزادی جنسی روابط وغیرہ وغیرہ۔
مغربی ریاستیں اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق میں مداخلت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں قادیانی بھی مسلمان ہیں۔ ملحد اور دہریے بھی برابر کے شہری ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے بھی دیگر عام جوڑوں جیسے حقوق ہیں۔
جبکہ اسلامی تہذیب فرد کی بجائے اجتماعیت پر قائم ہے۔ اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
کم از کم ٹھوس دلائل پیش کریں ۔
آپ کوئی ایک ایسا واقعہ یہاں قلم بند کریں جس میں پاکستانی حکومت نے کسی اقلیت کو مذہبی آزادی یا آزادی اظہار سے روکا ہو ۔
پاکستان میں سب سے زیادہ اقلیت کو تحفظ حاصل ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
شاید ہمیں کسی حد تک تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو گا اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ پارلیمان میں طے ہونے سے قبل کسی حیثیت میں عدالت میں نہیں گیا تھا۔ اس بابت انیس سو پچاس کی دہائی کی تاریخ کا مطالعہ ہر لحاظ سے مفید ہے۔
07 فروری 1935
بہاولپور کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ باقاعدہ عدالتی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ختم نبوت کا پرچم بلند کر دیا ۔

اس سے پہلے برصغیر پاک وہند کے تمام جید علمائے کرام قادیانیت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے چکے تھے لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ باقاعدہ سرکاری عدالت نے غلام مرزا قادیانی کو کذاب قرار دیتے ہوئے قادیانی گروہ کو کافر قرار دیا ۔

07 فروری 1953 کو تاریخی مقدمہ بہاولپور کا فیصلہ سنایا گیا جو کہ منشی محمد اکبر خان ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاولنگر ریاست بہاولپور میں 24 جولائی 1926 کو دائر ہوا تھا ۔

اس مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ ،ریاست بہاول پور میں عبد الرزاق نامی شخص مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا اور اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغت کو پہنچ کر اپنے باپ کے توسط سے24جولائی1926ء کو احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخ ِنکاح کا دعویٰ کر دیا۔یہ مقدمہ بالآخر ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کو بغرضِ شرعی تحقیق منتقل ہواکہ آیا قادیانی دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں کہ نہیں؟

پہلے تو مسلمانوں کی توجہ اس طرف نہیں تھی لیکن جب قادیانیوں نے بےدریغ پیسہ خرچ کر کے فیصلہ اپنے حق میں کروانے کی کوشش کی تو مسلمانوں نے اس مقدمہ کو ملت اسلامیہ کا مقدمہ بنا دیا ۔اس سلسلے ميں بہاولپور کی انجمن موید الاسلام، مجلس احرار اور انجمن حزب اللہ کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔

اس طرح یہ مقدمہ دولوگوں کے بجائے اسلام اور قادیانیت کے مابین حق وباطل کا مقدمہ بن گیا ۔قادیانیت کے خلاف اُمت مسلمہ کی نمائندگی کے لیے سب کی نظر دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کاشمیری پر پڑی اور وہ مولانا غلام محمد گھوٹوی کی دعوت پر اپنے تمام پروگرام منسوخ کرکے بہاول پور تشریف لائے اور فرمایا:
”جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈھابیل جانے کے لیے پابہ رکاب تھا،مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی،شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا جانب دار بن کر یہاں آیا تھا…اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔،،

پھر اس مقدمہ میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا غلام محمد گھوٹوی،مولانا محمد حسین کولوتارڑوی،مولانا محمد شفیع،مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری،مولانا نجم الدین،مولانا ابوالوفاء شاہ جہانپوری اور مولانا انورشاہ کاشمیری (رحمہم اللہ تعالیٰ) کے دلائل اور بیانات پرمرزائیت بوکھلا اُٹھی۔

مولانا ابوالوفاء شاہ جہاں پوری نے عدالت میں جواب الجواب داخل کرایا جو چھ سو صفحات پر مشتمل تھا،جس نے قادیانیت کے پرخچے اُڑا دیے۔
عدالت میں موجود علماء کا کہنا ہے کہ مولانا انور شاہ کاشمیری جب مرزائیت کے خلاف قرآن وحدیث کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوار جھوم اُٹھتے اور جب جلال میں آکرمرزائیت کو للکارتے تو کفر کے نمائندوں پر لرزہ طاری ہوجاتا۔

ایک دن مولانا نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر کہا:”اگر چاہوتو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہوکر دکھا سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے“۔یہ سن کر عدالت میں موجود تمام مرزائی کانپ اُٹھے اور مسلمانوں کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔خواجہ خان محمد اس بارے میں لکھتے ہیں:”اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کاشمیری نہیں‘بلکہ حضور سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔“

جب مرزائیوں کو اس مقدمہ میں اپنی شکست سامنے نظرآنا شروع ہوئی تو انہوں نے دسمبر1934ء میں عبدالرزاق کے مرجانے کی وجہ سے یہ درخواست دائر کردی کہ اب اس مقدمے کے فیصلہ کی ضرورت نہیں ہے ‘لہٰذا اس مقدمہ کو خارج کردیا جائے…

بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شکست سے بچنے کے لیے مرزائیوں نے از خود عبدالرزاق کو قتل کرادیا،تاکہ مقدمہ خارج ہوجائے،مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔لہٰذایہ مقدمہ جاری رہا اور حق وباطل کے اس مقدمہ کا فیصلہ جناب محمد اکبر خان(اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے)نے 3 ذیقعد 1353 بمطابق 7فروری1935ء کو سنایا،جس کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار اپنے عقائد واعمال کی بنا پر مسلمان نہیں،بلکہ کافر اور خارج از اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کاغلام عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ قرار دے دیا گیا۔

مرزائیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزابشیر الدین کی سربراہی میں سر ظفر اللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ بچار کی، لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا ہے کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔

کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔جب مولانا انوار شاہ کشمیری عدالت میں بیان دے کر پلٹ رہے تھے تو بہت بیمار تھے۔انہوں نے مولانا محمد صادق (جو اس مقدمے کے پیروی کرنے والوں میں سے ایک تھے) کو وصیت کی کہ" اس مقدمے کا فیصلہ اگر میری زندگی میں ہوگیا تو میں سن لو گا، اگر میری وفات کے بعد ہوا تو میری قبر پر آ کر سنا دینا تاکہ میری روح کو تسکین پہنچے۔"

مولانا انور شاہ کشمیری نے 2، صفر، 1352ھ بمطابق 28 مئی 1933ء کو شب کے آخری حصہ میں تقریباً 60 سال کی عمر میں دیوبند میں داعئ اجل کو لبیک کہا۔اور یہ فیصلہ آپ کی وفات کے 2 سال بعد آیا۔

1945 میں اس فیصلے کو آئے دس سال بیت گئے تھے ۔مولانا محمد صادق دیوبند میں مولانا حسین احمد مدنی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مولانا انور شاہ کشمیری کی قبر کی نشاندہی کی خاطر کوئی طالب علم ساتھ بھیج دیں مولانا مجاہد الحسینی ساتھ چلے ۔
قبر پر پہنچ کر مولانا محمد صادق نے پہلے سلام عرض کیا ۔پھر مقدمے کے فیصلے کی اطلاع دیتے ہوئے مقدمہ کا فیصلہ مکمل پڑھ کر سنایا ۔

یہ عجب لوگ تھے ۔یہ عجب داستان عشق ہے جو تاجدار ختم نبوت کے دامن سے جڑی ہے۔

آخر میں مولانا انور شاہ کشمیری کی ہی ایک بات۔
گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم ختم نبوت کا تحفظ نہ کریں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حضرات محترم! آج میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالہ سے قادیانی مسئلہ کے ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہمارا اور قادیانیوں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا مذہب ہمارے مذہب سے الگ ہے اور ہم دونوں ایک مذہب کے پیروکار نہیں ہیں تو پھر قادیانیوں کو مسلمانوں کے مذہب کا نام، اصطلاحات، علامات اور ٹائٹل استعمال کرنے پر اس قدر اصرار اور ضد کیوں ہے؟

اور وہ ایک الگ اور نئے مذہب کا پیروکار ہونے کے باوجود اپنا نام، علامات اور اصطلاحات و شعائر الگ اختیارکرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟
فی الوقت قادیانیوں کے ساتھ ہمارا یہی سب سے بڑا تنازعہ ہے جس کے لیے انہوں نے بین الاقوامی اداروں اور عالمی میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف مورچہ بندی کر رکھی ہے اور بہت سے بین الاقوامی ادارے اور فورم بلا جواز ان کی حمایت بلکہ پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں چند شواہد آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم تو قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کا پیروکار کہتے ہی ہیں لیکن خود قادیانیوں نے بھی متعدد مراحل پر اس کا باقاعدہ اعلان کیا ہے، ان میں سے پانچ مواقع کا حوالہ دینا چاہوں گا:

  1. مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کے دعویٰ کے ساتھ ہی اعلان کیا کہ ان پر ایمان نہ لانے والے حضرات خواہ کہیں بھی ہوں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ یہ اس بات کا کھلم کھلا اظہار تھا کہ وہ دنیا بھر کے ان مسلمانوں کو اپنے مذہب کا حصہ نہیں سمجھتے جو ان پر ایمان نہیں لائے۔ مرزا صاحب نے تو اس سے آگے خود پر ایمان نہ لانے والوں کو اور بھی بہت کچھ کہا ہے اور ان کے بارے میں بہت سخت زبان استعمال کی ہے لیکن میں اسے ’’جھوٹے نبیوں کی زبان‘‘ سمجھتے ہوئے استعمال نہیں کروں گا، میں نے یہ زبان صرف ایک دفعہ استعمال کی تھی جب طالب علمی کے دور میں گکھڑ میں ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے میں نے مسلمانوں کے بارے میں مرزا قادیانی کے چند الفاظ کا ذکر کر کے انہی الفاظ میں جواب دیا تو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے مجھے پکڑ کر مائیک سے پیچھے ہٹا دیا اور خود مائیک پر تشریف لا کر لوگوں سے معذرت کی کہ بچہ ہے غلط باتیں کر گیا ہے۔ اس کے بعد سے آج تک بحمد اللہ تعالیٰ کبھی ’’جھوٹے نبیوں والی زبان‘‘ کسی جلسہ میں استعمال نہیں کی۔
    چنانچہ جب مرزا قادیانی خود پر ایمان نہ لانے والوں کو اپنے مذہب میں شامل نہیں سمجھتے تو مسلمانوں کے مذہب کے ساتھ نتھی رہنے کی ضد بھی قادیانیوں کو بہرحال چھوڑ دینی چاہیے کہ اس کا کسی طرح بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔

  2. قادیانی مذہب جب مرزا قادیانی کے جانشین حکیم نور الدین بھیروہ کی وفات کے بعد دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا اور لاہوری گروپ کے سربراہ مولوی محمد علی نے اپنے بہت سے ساتھیوں سمیت اعلان کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنا پیشوا تو مانتے ہیں مگر نبی تسلیم نہیں کرتے تو مرزا قادیانی کے فرزند اور اس وقت کی قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے انہیں بھی ایک الگ مذہب کا پیروکار اور اپنے ’’دائرۂ اسلام‘‘ سے خارج قرار دے دیا۔ یہ بھی اس بات کا دو ٹوک اعلان تھا کہ وہ صرف ان لوگوں کو اپنا ہم مذہب سمجھتے ہیں جو مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں، ان کے علاوہ دنیا کا کوئی گروہ یا فرد ان کا ہم مذہب نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک تو قادیانی اور لاہوری دونوں گروہ ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر قادیانیوں نے مرزا قادیانی کو نبی نہ ماننے پر مرزا کے ان پیروکاروں کو بھی الگ مذہب کا حامل قرار دے دیا تھا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب کو سب سے الگ اور جدا مذہب سمجھتے ہیں۔ مگر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ وہ اس الگ مذہب کے لیے الگ نام اور شعائر و علامات اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
  3. قیام پاکستان کے موقع پر پنجاب کی تقسیم کے لیے قائم کیے جانے والے ریڈ کلف کمیشن کے سامنے قادیان اور ضلع گورداس پور کی آبادی کے بارے میں خود کو مسلمانوں میں شمار کروانے کی بجائے قادیانیوں نے اپنا کیس الگ پیش کیا جس کی وجہ سے گورداس پورکو پاکستان کی بجائے بھارت میں شامل کیا گیا اور اس کے نتیجے میں کشمیر کا مسئلہ کھڑا ہوا، یہ قادیانیوں کی طرف سے باضابطہ دستاویزی شہادت تھی کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں۔
  4. پاکستان کے قیام کے بعد معروف قادیانی راہ نما چودھری ظفر اللہ خان بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے مگر قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد جب ان کی نماز جنازہ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی امامت میں ادا کی جا رہی تھی تو ظفر اللہ خان وہاں موجود ہوتے ہوئے بھی جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اور قومی پریس کے ریکارڈ کے مطابق پوچھنے والوں کو جواب دیا کہ مجھے مسلمان حکومت کا کافر وزیر یا کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیا جائے۔ یہ بھی اس امر کا واضح اعلان تھا کہ قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے الگ ہے۔
  5. ۱۹۷۴ء کے دوران جب پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ قادیانی مسئلہ پر بحث کر رہی تھی جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو اس موقع پر قادیانی امت کے دونوں گروہوں یعنی قادیانیوں اور لاہوریوں کے سربراہوں مرزا ناصر احمد اور مولوی صدر دین کو قومی اسمبلی کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا اور کئی روز تک وہ ایوان میں بحث و مباحثہ کا حصہ رہے۔ اس مرحلہ پر بھی مرزا ناصر احمد نے پارلیمنٹ کے فلور پر واضح اعلان کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے والوں کو اپنے مذہب کا حصہ نہیں سمجھتے اور وہ سب ان کے نزدیک ’’دائرہ اسلام‘‘ سے خارج ہیں۔
مسلمانوں اور قادیانیوں کا مذہب الگ الگ ہونے پر یہ پانچ شہادتیں تو قادیانی کیمپ کی ہیں جن میں انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے الگ مذہب رکھتے ہیں، دوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے بھی بار بار اجتماعی طور پر اس حقیقت کا اظہار کیا گیا کہ قادیانی مذہب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں، ان میں سے دس اہم شہادتوں کا آج کی محفل میں تذکرہ کروں گا۔

  1. مرزا قادیانی کی طرف سے نبوت کے دعویٰ کے ساتھ ہی مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ مرزا قادیانی اور ان کو ماننے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ان میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیر یؒ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
  2. مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہوئے انگریزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار نہ کیا جائے۔
  3. برطانوی دور میں ریاست بہاولپور کی عدالت نے تفصیلی بحث و مباحثہ کے بعد قرار دیا کہ قادیانیوں کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس کیس میں مسلمانوں کی طرف سے حضرت مولانا سید محمد انور شاہؒ اور حضرت مولانا غلام محمد گھوٹویؒ جیسے اکابر پیش ہوئے تھے۔
  4. ۱۹۵۳ء کے دوران تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ مذہب کا پیروکار قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان سے انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا اور اس پر ملک بھر میں پرجوش عوامی تحریک چلی۔
  5. ۱۹۷۴ء کے دوران پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے مسلمانوں اور قادیانیوں کے دلائل تفصیل کے ساتھ سننے کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کرنے کا دستوری فیصلہ کیا۔
  6. صدر ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دور میں قادیانیوں کو اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مذہبی اصطلاحات و علامت کے استعمال سے روکنے کا قانون نافذ کیا تو ۱۹۸۵ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کر کے اسے قومی فیصلہ کی حیثیت دے دی۔
  7. جناب یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں پورے دستو ر پر نظر ثانی کی گئی تو اس وقت کی منتخب پارلیمنٹ نے ایک بار پھر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلہ کو بحال رکھنے کا اعلان کیا۔
  8. ابھی چند ماہ قبل انتخابی ترامیم کے حوالہ سے یہ بحث پھر اسمبلی میں سامنے آئی تو منتخب پارلیمنٹ نے چوتھی بار قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ قرار دینے کا متفقہ اعلان کیا۔
  9. عالمی سطح پر رابطہ عالم اسلامی نے ۱۹۷۴ء کے دوران مکہ مکرمہ میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کی طرف سے اعلان کیا کہ قادیانی مذہب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے جو پورے عالم اسلام کا متفقہ فیصلہ تھا۔
  10. بہاولپور کی ریاستی عدالت سے لے کر پاکستان کی سپریم کورٹ تک یہ مسئلہ متعدد بار عدالتی فورموں پر زیر بحث آیا اور بالآخر وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عظمیٰ نے واضح فیصلوں میں قادیانیوں کو اسلام اور مسلمانوں سے قطعی طور پر ایک الگ مذہب کا پیروکار قرار دے دیا۔
حضرات گرامی! میں نے تاریخ کے ریکارڈ سے پانچ فیصلے قادیانیوں کے اور دس فیصلے مسلمانوں کے بیان کیے ہیں کہ قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے الگ ہے اور ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن قادیانیوں اور ان کے پشت پناہوں کی اس ڈھٹائی کی داد دیجئے کہ وہ اس کے باوجود قادیانیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کرنے پر بضد ہیں اور اس کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں۔

آج کی اس کانفرنس کے حوالہ سے میں قادیانیوں کی بے جا حمایت اور پشت پناہی کرنے والے اداروں اور حلقوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کریں اور قادیانیوں کی بلاجواز حمایت کر کے نہ اپنا وقت ضائع کریں اور نہ ہمارا۔ کیونکہ قادیانیوں کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ
  1. یا تو وہ غلط عقائد سے توبہ کر کے مسلمانوں میں واپس آجائیں
  2. اور اگر یہ ان کے مقدر میں نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ شمار ہونے کی ضد چھوڑ کر اپنے لیے الگ نام، اصطلاحات اور علامات کا تعین کریں، اس کے علاوہ ان کے لیے اور کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قادیانی چاہیں تو اب بھی اپنا کیس لے کر عدالت جا سکتے ہیں۔ بات ویسے جمہوریت کی ہو رہی تھی!
تبھی تو کہا تھا کہ قادیانیوں نے اپنا کیس خود ہی پارلیمان میں لے جا کر سنگین غلطی کی تھی۔ کیونکہ عدالت عظمی اسمبلی سے پاس قوانین پر نظر ثانی تو کر سکتی ہے۔ لیکن اگر آئین ہی تبدیل کر دیا جائے تو ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی کوئی انصاف فراہم نہیں کر سکتی :)
 

فرقان احمد

محفلین
تبھی تو کہا تھا کہ قادیانیوں نے اپنا کیس خود ہی پارلیمان میں لے جا کر سنگین غلطی کی تھی۔ کیونکہ عدالت عظمی اسمبلی سے پاس قوانین پر نظر ثانی تو کر سکتی ہے۔ لیکن اگر آئین ہی تبدیل کر دیا جائے تو ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی کوئی انصاف فراہم نہیں کر سکتی :)
دراصل، پارلیمان میں مقدمہ یک دم نہیں چلا گیا تھا۔ پہلے بہت خون خرابا ہو چکا تھا۔ آپ ذرا تاریخ کا مطالعہ تو کریں۔ عدالتوں میں بھی مقدمات چلتے رہے۔ پارلیمان نے جمہور کی آواز کو باریک بینی سے سنا اور فتنہ فساد کو فرو کرنے کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ :) اب یہ بات ہمیں اچھی لگے یا بری لگے، تاہم، حقیقت یہی ہے۔ وگرنہ، بھٹو جیسی شخصیت سے آپ ایسی توقع کم کم رکھ سکتے تھے کہ وہ اس بابت آئین میں ترمیم کے حق میں ہوتے۔ معاملات بہت زیادہ بگڑ چکے تھے اور عدالتیں بھی اپنے تئیں ہاتھ کھڑے کر چکی تھیں۔ :)
 

یاقوت

محفلین
مغربی تہذیب و اسلامی تہذیب میں بہت فرق ہے۔
مغربی تہذیب انفرادیت پر استوار ہے۔ اسی لئے وہاں ہر فرد کے انسانی حقوق ایک جیسے ہیں۔ جیسے مذہبی آزادی، آزادی اظہار، آزادی جنس وغیرہ وغیرہ۔
مغربی ریاستیں اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق میں مداخلت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں قادیانی بھی مسلمان ہیں۔ ملحد اور دہریے بھی برابر کے شہری ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے بھی دیگر عام جوڑوں جیسے حقوق ہیں۔
جبکہ اسلامی تہذیب فرد کی بجائے اجتماعیت پر قائم ہے۔ اور اس تہذیب پر چلنے والے مسلم ممالک کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
نہ محترم نہ ڈنڈی نہ ماریں اسلامی ممالک میں نافذ کسبیوں جیسے جمہوری نظام کو کوئی دوش مت دیجئے گا کہیں آپ کی دل آزاری نہ ہوجائے ٹوٹ ہار کے کجی پھر بھی اسلامی نظام میں نکالیے گا جو اس وقت روئے زمین پر موجود کسی بھی اسلامی مملکت میں عملاََ نافذ نہ ہے۔ایک بار آپ کسی ملک میں پورے طور پر اسلامی نظام کو نافذ ہونے دیں پھر دیکھیے گا اسلامی نظام کی بہاریں ۔وہ جیسے نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی​
 

جاسم محمد

محفلین
اس امر کے بعد وہ کٹر کیا، عام بھی نہیں رہے۔
وہ کٹر مسلمان بھی قادیانیوں کی طرح کاغذی ہیر پھیر ہی کرتے ہیں۔ یعنی پناہ کی درخواست میں خود کو قادیانی ظاہر کر دیا۔ اور اگر پناہ مل گئی تو پھر کس نے پوچھنا ہے کہ ملک میں مذہبی آزادی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہی قراردادِ مقاصد جس کی قادیانیوں نے بھی حمایت کی تھی۔ ہماری طرف سے بھی تین ایموجیز! :)
چوہدری ظفراللہ خان قادیانی (پہلے وزیر خارجہ) کو اس وقت کی ہندو اقلیتیں سمجھاتی رہ گئیں کہ قرارداد مقاصد کا ساتھ نہ دو یہ ایک دن تمہاری جماعت کے پیچھے آئے گا۔ لیکن وہ بضد تھے کہ ملک میں اسلامی نظام ہی قائم ہونا چاہیے۔ :)
ان واقعات سے یہ تو طے ہے کہ قادیانی لیڈرشپ میں بصیرت کی شدید کمی ہے۔
 
Top