جہاں بھی جانا تو آنکھوں میں خواب بھر لانا
یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا !
میں برف برف رتوں میں جلا تو اس نے کہا
پلٹ کے آنا تو کشتی میں دھوپ بھر لانا
دیکھوں تیرے ہاتھوں کو تو لگتا ہے تیرے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
یہ علم کا سودا، یہ کتابیں، یہ رسالے!
اِک شخص کی یادوں کو بُھلانے کے لیے ہیں
آج بھی تپتی دھوپ کا صحرا
ترے نرم لبوں کی شبنم
سائے سے محروم رہا
آج بھی پتھر ہجر کا لمحہ
صدیوں سے بے خواب رتوں کی
آنکھوں کا مفہوم رہا
آج بھی اپنے وصل کا تارا
راکھ اُڑاتی شوخ شفق کی
منزل سے معدوم رہا
آج بھی شہر میں پاگل دل کو
تری دید کی آس رہی
مدّت سے گُم صُم تنہائی
آج بھی میرے پاس رہی
آج بھی شام اداس رہی ( محسن نقوی )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
اس دھاگے کی خالق نے اس دھاگے کو اداسی شیئر کرنے کے لیے کھولا تھا لیکن یہ تو ‘اداس، اداسی‘ پر شعر و شاعری شروع ہو گئی تو میرا خیال ہے اس دھاگے کو شعر و شاعری کے زمرے میں منتقل کر دینا چاہیے۔