ادبی لطائف

شمشاد

لائبریرین
جس زمانے میں اکبر نے آزادی نسواں اور بے پردگی کے خلاف جہاد شروع کیا، ترقی پسند خواتین اور اسی قسم کے مردوں نے ان پر بوچھاڑ شروع کر دی۔ لاہور کا " تہذیب نسواں " ان سب میں پیش پیش تھا۔ اکبر کے خلاف بہت سے مضامین شائع کیے گئے، اور "آصف جہاں بیگم" نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ آنے والا طوفان اب کسے کے روکے نہیں رک سکتا۔ اکبر خود بھی اسے تسلیم کرتے تھے اور جانتے تھے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہو رہا ہے۔ پھر بھی ان دھمکیوں سے مرعوب ہونے کو تیا نہ تھے۔ کہا ہے :

اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کے فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیگم کی نوج سے
 

شمشاد

لائبریرین
کاتبوں کی " غلط نوازیوں " بے بہت دل برداشتہ خاطر رہتے تھے۔ مولانا ظفر الملک علوی ایڈیٹر ماہنامہ " الناظر" کو ایک خط (مطبوعہ الناظر، یکم جنوری 1910ع) میں تحریر فرماتے ہیں :

اپنے مسودار خود نہیں پڑھ سکتا۔ کاتب کو ہدایت میں نہایت دقت ہوتی ہے۔ کاتب صاحب ایسے " ذی استعداد " ہیں کہ کونسلوں میں سیٹ کو " گھونسلوں میں بیٹ " لکھ دیتے ہیں۔"

پھر اسی خط میں پردہ کی بحث چھیڑتے ہوئے لکھا ہے :

" تعلیم نسواں کا مخالف میں کیوں کر ہو سکتا ہوں۔ بغیر تعلیم کے " معشوقانہ انداز" ممکن نہیں۔ میں تو شاعر آدمی ہوں، اس قدر تعلیم چاہتا ہوں کہ شعر کا سلیقہ پیدا ہو جائے۔ " سبز پری " اگر ایسا مطع نہ کہہ سکتی :

معمور ہوں شوخی سے شرارت سے بھری ہوں
دہانی میری پوشاک ہے میں سبز پری ہوں

تو " گلفام " کی کیا کم بختی تھی کہ اس پر مرتا اور راجہ مندر کی سختیاں اٹھاتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک صاحب ذوق نے نے اکبر کو لکھتا۔ " میں صاحب ذوق ہوں۔ آپ کی الہامی شاعری کا پرستار اور والہ و شیدا، اتنی استطاعت نہیں کہ آپ کے دیوان یا کلیات کو خرید کر پڑھ سکوں۔ اس لیے ازراہ علم دوستی اپنے دیوان کی ایک جلد بلا قیمت مرحمت فرما کر ممنون فرمائیے۔"

خط دیکھ کر کہنے لگے۔ " اور سنئے ۔۔۔۔ آج مفت دیوان طلب فرما رہے ہیں، کل فرمائش کریں گے کہ صاحب ذوق ہوں، مفت میں " جانکی بائی " کا گانا سنوا دیجیے۔"
 

اشتیاق علی

لائبریرین
کاتب صاحب ایسے " ذی استعداد " ہیں کہ کونسلوں میں سیٹ کو " گھونسلوں میں بیٹ " لکھ دیتے ہیں۔"
بھئی یہ کیسے کاتب تھے۔ بہت بھلکڑ کاتب گزرے ہوں گے۔ :laughing:
 

شمشاد

لائبریرین
میر تقی میر کی عادت تھی کہ جب گھر سے باہر جاتے تو تمام دروازے کھلے چھوڑ دیتے تھے اور جب گھر واپس آتے تو تمام دروازے بند کر لیتے تھے۔ ایک دن کسی نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا۔

" میں ہی تو اس گھر کی واحد دولت ہوں۔"
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دن سید انشاء اللہ خان انشاء نواب صاحب کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ گرمی کی وجہ سے دستار سر سے اتار کر رکھ لی۔ انشاء کی منڈا ہوا سر دیکھ کر نواب صاحب کو شرارت سوجھی اور ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے ٹھونگ ماری۔ جس پر انشاء نے جلدی سے دستار سر پر رکھ لی اور کہنے لگے کہ سبحان اللہ! بچپن میں بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ جو لوگ ننگے سر کھانا کھاتے ہیں شیطان ان کے ٹھونگیں مارتا ہے۔ آج معلوم ہوا کہ وہ بات سچی تھی۔
 
استاد امام دین گجراتی اپنے شاگردوں میں بیٹھے مشقِ سخن فرما رہے تھے۔ انہوں نے شاگردوں کو اپنا ایک تازہ شعر سنایا :
یہ سڑک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاتی ہے جلال پور جٹّاں کو​
کافی دیر تک واہ واہ ہوتی رہی۔ پھر ایک نئے شاگرد نے ڈرتے ڈرتے کہا،" استاد جی دوسرا مصرح کچھ زیادہ لمبا نئیں؟"۔
استاد نے متانت سے کہا:
"تے ُپترا سڑک چھوٹی ایہہ؟؟؟؟؟"
:grin:
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ خاص آپ کے لیے لکھا ہے، تا کہ آپ محفل میں آئیں تو سہی۔

تو پھر تصرف کے ساتھ کچھ ایسے ہی سہی

یہ سڑک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاتی ہے اردو محفل کو

میرا پی سی اپنی وارنٹی پوری کر کے چپ چاپ مر گیا تھا۔ لیپ ٹاپ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ابھی دوسرا لیپ ٹاپ آیا ہے تو محفل پر آنے لگا ہوں ورنہ بیک اپ والا لیپ ٹاپ بے چارہ صرف مسینجر یا پھر زیادہ سے زیادہ دو تین صفحات ہی کھولنے کی اجازت دیتا تھا :(
 

Rashid Ashraf

محفلین

شخصی خاکہ نگاری میں بھی عطاء الحق قاسمی نے اپنی راہ الگ نکالی ہے۔ عام شخصیت نگار زندوں سے ڈرتے ہیںاور مرحومین پر لکھتے ہو ئے حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن عطاء زندوں کے بارے میں بھی ایسی ایسی باتیں لکھ دیتے ہیں کہ یہ زندہ لوگ ان باتوں کو سمجھ جائیں تو اپنا شمار مرحومین میں کرنے لگیں۔

مشفق خواجہ
 

کاشفی

محفلین
ایک مرتبہ کا ذکر ہے لیکن مشاعرہ کی صحبت تھی۔ نسیم(پنڈت دَیا شنکر نسیم لکھنوی) بھی وہاں موجود تھے۔ شیخ ناسخ نے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ پنڈت صاحب ایک مصرع کہا ہےدوسرا مصرعہ نہیں سُوجھتا کہ پورا شعر ہو جائے۔ اُنہوں نے جواب دیا، فرمائیے۔ ناسخ نے مصرعہ پڑھا۔ ع
“شیخ نے مسجد بنا مسمار بُت خانہ کیا“
اُن کے منہ سے مصرعہ نکلنے کی دیر تھی کہ یہاں دوسرا مصرعہ تیار تھا۔ ع
“تب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ کیا“
اس مصرعہ کا سُنناتھا کہ حاضرینِ جلسہ پھڑک اُٹھے اور ہر طرف سے نعرہائے تحسین بلند ہوئے۔ شیخ ناسخ نے شاعری کی آڑ میں مذہبی چوٹ کی تھی لیکن نسیم نے خوب ٹھنڈا کردیا۔
(اقتباس: مضامین چکبست از پنڈت برج نراین چکبست لکھنوی - 1928ء)
 

حماد

محفلین
ریل کے سفر کے دوران دو مسافر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک نے کہا، عبدالعزیز خالد کے شعر کسی کو یاد نہیں رہتے، اگر آپ ان کے پانچ شعر سنا دیں تو میں آپ کو پانچ سو روپے دوں گا۔
دوسرے شخص نے فوراً خالد کے پانچ شعر سنا دئیے۔ پہلا بہت متعجب ہوا۔ اس نے پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا اور شرط جیتنے والے کے حوالے کرتے ہوئے کہا، اپنا تعارف تو کرایئے۔
شرط جیتنے والے نے نوٹ اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا، میں ہی عبدالعزیز خالد ہوں۔
 

حماد

محفلین
مولوی عبدالحق نے اپنے ایک مضمون "آئ سی ایس" میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔
ایک کالا انگریز اپنے کسی دوست کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اسکے والد کمرے میں بے تکلفانہ چلے آئے۔ ان کی دیہاتی وضع قطع ایسی تھی کہ صاحب بہادر کو اپنے دوست کے سامنے انھیں اپنا والد بتاتے ہوئے شرم آئ، لہذا یہ کہ کر تعارف کروایا: "یہ میرے والد کے ایک دوست ہیں"
والد محترم کو غصہ آگیا، انھوں نے بیٹے کے دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "میں انکے والد کا نہیں ، والدہ کا دوست ہوں"
 

حسن

محفلین
ایک مرتبہ کا ذکر ہے لیکن مشاعرہ کی صحبت تھی۔ نسیم(پنڈت دَیا شنکر نسیم لکھنوی) بھی وہاں موجود تھے۔ شیخ ناسخ نے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ پنڈت صاحب ایک مصرع کہا ہےدوسرا مصرعہ نہیں سُوجھتا کہ پورا شعر ہو جائے۔ اُنہوں نے جواب دیا، فرمائیے۔ ناسخ نے مصرعہ پڑھا۔ ع
“شیخ نے مسجد بنا مسمار بُت خانہ کیا“
اُن کے منہ سے مصرعہ نکلنے کی دیر تھی کہ یہاں دوسرا مصرعہ تیار تھا۔ ع
“تب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ کیا“
اس مصرعہ کا سُنناتھا کہ حاضرینِ جلسہ پھڑک اُٹھے اور ہر طرف سے نعرہائے تحسین بلند ہوئے۔ شیخ ناسخ نے شاعری کی آڑ میں مذہبی چوٹ کی تھی لیکن نسیم نے خوب ٹھنڈا کردیا۔
(اقتباس: مضامین چکبست از پنڈت برج نراین چکبست لکھنوی - 1928ء)

خوب
 

Shahnaz Sheikh

محفلین
میر تقی میر کی عادت تھی کہ جب گھر سے باہر جاتے تو تمام دروازے کھلے چھوڑ دیتے تھے اور جب گھر واپس آتے تو تمام دروازے بند کر لیتے تھے۔ ایک دن کسی نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا۔

" میں ہی تو اس گھر کی واحد دولت ہوں۔"
بہت عمدہ :heehee:
 
اختر شاد کی شادی، میزبان اور مہمانوں میں بھی خاصے دوست حرف و قلم سے تعلق رکھنے والے، ان کے ہاں موجود، میرا حکیم فضل الٰہی بہار سے بالمشافہ ملاقات کا پہلا موقعہ ۔ یہ بتاتا چلوں کہ بہار صاحب کا قد چھوٹا تھا (جسمانی قد کی بات کر رہا ہوں، ادبی یا اخلاقی قد کی نہیں)۔
۔۔ بات پنجابی ادب پر چل نکلی۔
مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’آسی صاحب، یار پنجابی تے کوئی کم نہیں ہو رہیا، ڈھائی قلندر نیں جہڑے کچھ لکھ پڑھ لیندے نیں۔۔‘‘
عرض کیا: ’’بہار صاحب، اوہ ڈھائی قلندراں دے ناں وی دس دیو!‘‘
فرمایا: ’’اک تسیں او، اِک ایہ پاشا راز ہوریں نیں ۔۔ تے، ادھا مینوں سمجھ لئو۔‘‘
میں نے فی البدیہہ کہا: ’’تے پھر ڈھائی نہ نا کہو جی بہار صاحب! سوا دو کہو!‘‘
۔۔ بہار صاحب نے بھی دوسرے احباب کے ساتھ بہت بلند قہقہہ لگایا۔
 
اسلام آباد سے راولپنڈی (ایک ویگن میں) جا رہا تھا۔ بارانی یونیورسٹی سٹاپ پر پہلو میں ایک سیٹ خالی ہوئی۔ بہار صاحب کو ویگن میں سوار ہوتے دیکھا، تو اُن کو اپنے پاس بلا لیا۔ بیٹھے تو اُن کے ہاتھ میں ماہنامہ ’’حماقت‘‘ کے کچھ پرچے تھے۔ میں استفسار کرنے ہی والا تھا کہ انہوں نے ایک پرچہ مجھے دیا اور کہنے لگے: ’’یار، ایہ اِک نواں کم شروع کیتا اے‘‘۔ میں ہس کے آکھیا: ’’مینوں تہاڈے توں ایہو ای توقع سی!‘‘۔
بولے: ’’بڑا شرارتی ایں یار، صدر جا کے تینوں چاہ پیاواں گا!‘‘۔
 
فضل الٰہی بہار ۔۔۔ اپنے بے تکلف دوستوں کو ’’سہیلی‘‘ کہہ کر مخاطب کِیا کرتے۔
مجھے کہنے لگے: ’’گل سُن سہیلئے!‘‘۔ میں نے فوراً کہا: ’’جی، پھُوپھو!‘‘۔
بعد ازاں میں اکثر انہیں ’’پھُوپھو‘‘ کہا کرتا اور انہوں نے کبھی برا نہیں منایا۔
 
Top