ادبی لطائف

ڈاکٹر رؤف امیر (مرحوم)، اختر شاد، صدیق ثانی اور میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے ہری پور جا رہے تھے۔ تنقید کی بات ہوئی تو میں نے کہا: ’’رؤف امیر! تمہاری تنقید اور تعریف اکثر بے جا ہوتی ہے۔‘‘
بولے: ’’یہ تو مجھے طاہر بخاری بھی کہا کرتا ہے‘‘۔
 
ڈاکٹر رؤف امیر کی وفات کے بعد حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا نے سہ ماہی خبرنامہ ’’کاوش‘‘ کا ’’رؤف امیر نمبر‘‘ شائع کیا۔ اس میں صدیق ثانی کا ایک مختصر تاثریہ بھی تھا۔ اس میں صدیق ثانی نے لکھا ہے: ’’رؤف امیر نے مجھے اپنی دو کتابیں بھجوائیں۔ ایک پر اپنے قلم سے لکھا ہم دمِ دیرینہ کے نام‘‘۔
فون پر بات ہوئی تو میں نے ثانی سے کہا: ’’وہ تمہیں شیطان کہہ گیا ہے‘‘۔ بولے: ’’وہ کیسے؟‘‘
میں نے کہا: ’’یاد کرو، مکالمہء ابلیس و جبریل ۔۔ جبریل کہتا ہے ابلیس سے: ہم دمِ دیرینہ کیسا ہے جہانِ رنگ و بو‘‘۔
صدیق ثانی کئی منٹ تک قہقہے لگاتے رہے۔
 
ایک خصوصی محفلِ شعر، رؤف امیر ہمیشہ کی طرح تاخیر سے پہنچے۔ دوسری یا تیسری قطار میں میرے ساتھ آ بیٹھے۔ مجھے شرارت سوجھی اور میں ہولے سے کہا: ’’اعوذ باللہ من الرؤف امیر‘‘۔ بولے: ’’تم نے مجھے شیطان کہا ہے؟ ہاں! قصہء آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!‘‘ پھر سینے پر ہاتھ مار کر بولے: ’’ہاں، وہ میرا لہو تھا‘‘۔
کچھ ہی دیر بعد انہوں نے پاشا راز سے سگرٹ مانگا اور کہا: ’’آسی، ماچس دئیں یار‘‘۔
میں نے کہا: ’’تینوں وی ماچس چاہی دی اے؟‘‘
 
رؤف امیر بہت اچھے شاعر تھے، تاہم وہ اپنی شاعری سے خود کبھی مطمئن نہیں ہوئے۔ اپنے شعروں میں اکثر قطع و برید کرتے رہتے، ایک شعر کا متن کسی ایک محفل میں کوئی اور تو دوسری محفل میں کوئی اور۔ مجھ سے کہنے لگے: ’’اپنے شعروں کو پالش کرتے رہا کرو! پتہ ہے میں واش روم میں بھی اپنے شعروں پر سوچا کرتا ہوں (یا شاید کہا کہ شعر کہتا ہوں)۔‘‘ میں نے کہا: ’’اسی لئے!!!‘‘ بولے: ’’کیا اسی لئے؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں بھی کہوں تمہارے شعروں سے بدبو کیوں آتی ہے‘‘۔
 
رؤف امیر میں البتہ ایک بہت خاص بات تھی۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر، باتیں کر کے، ان کی شاعری سن کر؛ شعر کہنے کی تحریک ہوتی تھی۔ جی چاہتا کہ رؤف امیر کی طرح میں شعر کہے جائیں، مگر وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے۔ تاہم میں نے ان کی کچھ اردو غزلوں کی زمین میں پنجابی شعر ضرور کہے۔
مثلاً، رؤف امیر کا شعر:
شہرت چومے تیرے پاؤں​
تو بھی کوئی قصیدہ لکھ​
اس زمین میں میری کاوش ہے:
حال اس دکھیا جی دا لکھ​
مونہوں نہیں دسی دا، لکھ​
خبرے کیہ لکھوائی دا اے​
خبرے کیہ لکھی دا، لکھ​
کیہ لکھاں جے آکھے کوئی​
قصہ عمر گئی دا لکھ​
آسی ورگے لوکاں نوں​
مندا نہیں بولی دا، لکھ​
۔۔​
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر عبد الرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جا رہے تھے۔ نسبت روڈ سے گزرے تو انہیں سڑک کے کنارے "قاسمی پریس" کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کن صاحب کا پریس تھا مگر بہر حال قاسمی پریس کا بورڈ تھا۔ فیض صاحب کہنے لگے "آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں۔" اس پر ہم دونوں ہنسے۔

تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔ میں نے کہا "فیض صاحب، کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔"

بورڈ پر "فیض ہیئر کٹنگ سیلون" کے الفاظ درج تھے۔

فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انہیں کار سٹرک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔

احمد ندیم قاسمی کی کتاب "میرے ہمسفر" سے اقتباس
 

شمشاد

لائبریرین
اپنی روایت

بابائے اردو مولوی عبد الحق ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے کہ ڈبے میں بیٹھے ہوئے کسی مغرب زدہ شخص نے ان سے کہا "کیا میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟"

مولوی عبد الحق نے جواب دیا "جی ہاں، پوچھ سکتے ہیں۔"

اس کے بعد دونوں خاموش ہو گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ بعد میں مولوی صاحب کے کسی عقیدت مند نے ان سے دریافت کیا "مولوی صاحب، آخر آپ نے اپنا نام انہیں کیوں نہیں بتایا تھا؟"

مولوی صاحب فرمانے لگے "صاحب، گفتگو کا یہ کیا انداز ہوا؟ ہماری زبان میں اس طرح نہیں کہتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ "آپ کا اسم شریف یا جناب کا نام؟" ان صاحب نے اپنی روایات کو سمجھے بغیر انگریزی کے اس جملے کا محض لفظی ترجمہ کر دیا کہ :"?May I know your name" اور جتنی بات انہوں نے پوچھی، میں نے اس کا جواب دے دیا۔"
 

عباد اللہ

محفلین
یہاں کے ادبی حلقوں میں ایک لطیفہ کئی سال سے گردش میں ہے۔

ایک شاعر نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ اور اولین تبلیغ اپنے ادیب دوستوں سے شروع کی۔ کئیوں نے سمجھایا بجھایا، کئیوں نے لعن طعن کی، مگر وہ اپنے دعوے سے باز نہ آئے۔ اپنے جاننے والوں میں ایک بڑے شاعر اور نقاد کو اپنی امت میں شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی۔ نقاد نے کہا: ’’میں تمہیں نبی مان ہی نہیں سکتا۔‘‘، بولے: ’’کیوں نہیں مان سکتے؟‘‘ کہا: ’’تم نبی کیسے ہو سکتے ہو، جب کہ میں نے تمہیں بھیجا ہی نہیں۔ ‘‘
کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے کسی اور کو اپنی امت میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ حضرتِ نقاد سے پوچھا گیا: ’’یہ تم نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا؟‘‘۔ کہا: ’’نہیں یار! در اصل اُس بد دماغ کا یہی علاج سوجھا تھا مجھے!‘‘
ھاھاھا مزہ آ گیا
بہت خوب
 

جاسمن

لائبریرین
اختر شاد کی شادی، میزبان اور مہمانوں میں بھی خاصے دوست حرف و قلم سے تعلق رکھنے والے، ان کے ہاں موجود، میرا حکیم فضل الٰہی بہار سے بالمشافہ ملاقات کا پہلا موقعہ ۔ یہ بتاتا چلوں کہ بہار صاحب کا قد چھوٹا تھا (جسمانی قد کی بات کر رہا ہوں، ادبی یا اخلاقی قد کی نہیں)۔
۔۔ بات پنجابی ادب پر چل نکلی۔
مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’آسی صاحب، یار پنجابی تے کوئی کم نہیں ہو رہیا، ڈھائی قلندر نیں جہڑے کچھ لکھ پڑھ لیندے نیں۔۔‘‘
عرض کیا: ’’بہار صاحب، اوہ ڈھائی قلندراں دے ناں وی دس دیو!‘‘
فرمایا: ’’اک تسیں او، اِک ایہ پاشا راز ہوریں نیں ۔۔ تے، ادھا مینوں سمجھ لئو۔‘‘
میں نے فی البدیہہ کہا: ’’تے پھر ڈھائی نہ نا کہو جی بہار صاحب! سوا دو کہو!‘‘
۔۔ بہار صاحب نے بھی دوسرے احباب کے ساتھ بہت بلند قہقہہ لگایا۔
بہت خوب آسی صاحب!
 

جاسمن

لائبریرین
اسلام آباد سے راولپنڈی (ایک ویگن میں) جا رہا تھا۔ بارانی یونیورسٹی سٹاپ پر پہلو میں ایک سیٹ خالی ہوئی۔ بہار صاحب کو ویگن میں سوار ہوتے دیکھا، تو اُن کو اپنے پاس بلا لیا۔ بیٹھے تو اُن کے ہاتھ میں ماہنامہ ’’حماقت‘‘ کے کچھ پرچے تھے۔ میں استفسار کرنے ہی والا تھا کہ انہوں نے ایک پرچہ مجھے دیا اور کہنے لگے: ’’یار، ایہ اِک نواں کم شروع کیتا اے‘‘۔ میں ہس کے آکھیا: ’’مینوں تہاڈے توں ایہو ای توقع سی!‘‘۔
بولے: ’’بڑا شرارتی ایں یار، صدر جا کے تینوں چاہ پیاواں گا!‘‘۔
بہت حاضر جواب ہیں آپ آسی صاحب!
 

جاسمن

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔ اقرار نہیں کرے گا۔

یہ ٹھیک ہے کہ یعقوب کی قسمت میں آس کے دامن سے لپٹے رہنا ہی لکھا ہے لیکن وہ تو اپنی شخصیت کے حسن کے اعتبار سے یوسف ہے اور ماحول کے اعتبار سے پوسفِ بے کارواں۔ آج میں نے اس کے بے مثال حسن کی ایک جھلک اپنی انگلیاں کاٹ کر آپ کو دکھا دی ہے۔ اب انگلیاں کاٹنے کی باری آپ کی ہے۔
********************​
’’خاکی خاکے‘‘ از سلمان باسط۔ مطبوعہ 1999 ’’استعارہ‘‘ اسلام آباد​
صفحات 101 تا 104 بہ عنوان ’’عروضیا‘‘​
بہت ہی خوبصورت ۔۔بہت خوبصورت خاکہ۔
 

جاسمن

لائبریرین
مشاعرے میں ایک نوجوان شاعر نے اپنی غزل میں فراق گورکھپوری کا ایک شعر ٹانک دیا۔مشاعرہ ان ہی کی زیرِ صدارت تھا۔ وہ ختم ہؤا تو اُنہوں نے شاعر سے باز پُرس کی۔
"خیال سے خیال ٹکرا گیا۔" نوجوان شاعر نے تجاہل عارفانہ سے جواب دیا۔
فراق گورکھپوری تحمل مزاجی کے باوجود غصے سے بولے۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بائیسکل ہوائی جہاز سے ٹکرا جائے؟"
 

جاسمن

لائبریرین
ایک روز منٹو صاحب بڑی تیزی سےریڈیو سٹیشن کی عمارت میں داخل ہو رہے تھےکہ وہاں برآمدے میں مڈ گارڈوں کے بغیر ایک بائیسکل دیکھ کر لمحہ بھر کے لئے رُک گئے اور پھر دوسرے ہی لمحے اُن کی بڑی بڑی آنکھوں میں مسکراہٹ کی ایک چمک دوڑ گئی اور وہ چیخ کر کہنے لگے۔
"راشد ساحب! راشد صاحب ! ذرا باہر تشریف لائیے۔"
شور سُن کر ن م راشد کے علاوہ کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور ریڈیو سٹیشن کے دوسرے کارکن بھی اُن کے ارد گرد جمع ہو گئے۔
" راشد صاحب آپ دیکھ رہے ہیں اسے؟" منٹو نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
'یہ بغیر مڈ گارڈوں کی سائیکل ،خدا کی قسم! سائیکل نہین بلکہ حقیقت میں آپ کی کوئی نظم ہے۔"
 

جاسمن

لائبریرین
ایک پروفیسر صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان سے جب کوئی سوال پوچھا جاتا تو وه اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے، جب تک کہ پوری تفصیل اور تسلی سے جواب نہ دے دیں ، بلکہ بعض اوقات تو سوال پوچھنے والا تنگ آ کر اس وقت کو کوستا جب اس نے ان سے سوال کیا تھا.
ایک صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب ایک لائبریری میں بیٹھے تھے کہ میرے ذہن میں ایک سوال آیا ، جو میں نے غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا. میں نے دریافت کیا کہ حضرت یہ بتائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟
پروفیسر صاحب اس وقت کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھے، میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی، ایک لمحے کو کچھ سوچا ، پھر مسکرا کر گویا ہوئے، " میاں! بلبل مذکر ہے"
میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن ہو گیا.

اس واقعے کے کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی. گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے تھے، میں نے دروازه کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب موصوف کھڑے ہیں. میں نے پوچھا کہ پروفیسر صاحب خیریت تو ہے، آپ میرے غریب خانے پر اس وقت؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے، " میاں اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث ؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر ہے، لیکن آج ہی مرزا غالب کا ایک مصرع نظر سے گزرا

بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

غالب کا شمار چونکہ اہل زبان اور مستند شعراء میں ہوتا ہے ، لہذا اس مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے.

میں نے ان کے خلوص و محبت کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وه بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تک تشریف لائے.

ابھی چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، میں گہری نیند میں تھا ، دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ، دروازه کھولا تو پروفیسر صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے. میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا. پروفیسر صاحب فرمانے لگے، "میاں، کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے، لیکن آج صبح جب میں کلیات اقبال کا مطالعہ کر رہا تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

علامہ اقبال چونکہ شاعر_ مشرق ہیں. ان سے زیادہ مستند کس کی رائے ہو سکتی ہے، لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ اب بلبل کو مذکر ہی سمجھیے. میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کے جانے کے بعد خدا کا بھی شکر ادا کیا کہ چلو اب اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی، لیکن میرے ایسے نصیب کہاں!

ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ ایک شام جبکہ میں ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک ہوئی . دروازے پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں. ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک عدد گدھا بھی کھڑا تھا جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوئی تھیں. اس روز پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی. میں نے حیرت سے دریافت کیا، " پروفیسر صاحب یہ کیا معاملہ ہے؟ وه اسی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا ہوئے، " میاں ، آپ کے سوال پر میں نے بہت تحقیق کی ہے اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا. اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی ہیں ، ان کے مطابق بلبل مذکر ہے جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث ہے، اب فیصلہ آپ خود کر لیجیئے کہ آپ کس رائے سے اتفاق کریں گے. مجھے اجازت دیجئے، ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے."

ان کے رخصت ہوتے ہی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئنده پروفیسر صاحب سے کوئی سوال نہ پوچھوں گا ۔

ماخوذ از احساس
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک پروفیسر صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان سے جب کوئی سوال پوچھا جاتا تو وه اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے، جب تک کہ پوری تفصیل اور تسلی سے جواب نہ دے دیں ، بلکہ بعض اوقات تو سوال پوچھنے والا تنگ آ کر اس وقت کو کوستا جب اس نے ان سے سوال کیا تھا.
ایک صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب ایک لائبریری میں بیٹھے تھے کہ میرے ذہن میں ایک سوال آیا ، جو میں نے غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا. میں نے دریافت کیا کہ حضرت یہ بتائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟
پروفیسر صاحب اس وقت کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھے، میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی، ایک لمحے کو کچھ سوچا ، پھر مسکرا کر گویا ہوئے، " میاں! بلبل مذکر ہے"
میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن ہو گیا.

اس واقعے کے کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی. گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے تھے، میں نے دروازه کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب موصوف کھڑے ہیں. میں نے پوچھا کہ پروفیسر صاحب خیریت تو ہے، آپ میرے غریب خانے پر اس وقت؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے، " میاں اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث ؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر ہے، لیکن آج ہی مرزا غالب کا ایک مصرع نظر سے گزرا

بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

غالب کا شمار چونکہ اہل زبان اور مستند شعراء میں ہوتا ہے ، لہذا اس مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے.

میں نے ان کے خلوص و محبت کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وه بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تک تشریف لائے.

ابھی چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، میں گہری نیند میں تھا ، دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ، دروازه کھولا تو پروفیسر صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے. میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا. پروفیسر صاحب فرمانے لگے، "میاں، کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے، لیکن آج صبح جب میں کلیات اقبال کا مطالعہ کر رہا تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

علامہ اقبال چونکہ شاعر_ مشرق ہیں. ان سے زیادہ مستند کس کی رائے ہو سکتی ہے، لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ اب بلبل کو مذکر ہی سمجھیے. میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کے جانے کے بعد خدا کا بھی شکر ادا کیا کہ چلو اب اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی، لیکن میرے ایسے نصیب کہاں!

ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ ایک شام جبکہ میں ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک ہوئی . دروازے پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں. ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک عدد گدھا بھی کھڑا تھا جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوئی تھیں. اس روز پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی. میں نے حیرت سے دریافت کیا، " پروفیسر صاحب یہ کیا معاملہ ہے؟ وه اسی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا ہوئے، " میاں ، آپ کے سوال پر میں نے بہت تحقیق کی ہے اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا. اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی ہیں ، ان کے مطابق بلبل مذکر ہے جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث ہے، اب فیصلہ آپ خود کر لیجیئے کہ آپ کس رائے سے اتفاق کریں گے. مجھے اجازت دیجئے، ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے."

ان کے رخصت ہوتے ہی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئنده پروفیسر صاحب سے کوئی سوال نہ پوچھوں گا ۔

ماخوذ از احساس

گدھے پر کتابیں خوب لادی ہیں موصوف نے۔ :)
 

عرفان سعید

محفلین
ایک پروفیسر صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان سے جب کوئی سوال پوچھا جاتا تو وه اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے، جب تک کہ پوری تفصیل اور تسلی سے جواب نہ دے دیں ، بلکہ بعض اوقات تو سوال پوچھنے والا تنگ آ کر اس وقت کو کوستا جب اس نے ان سے سوال کیا تھا.
ایک صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب ایک لائبریری میں بیٹھے تھے کہ میرے ذہن میں ایک سوال آیا ، جو میں نے غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا. میں نے دریافت کیا کہ حضرت یہ بتائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟
پروفیسر صاحب اس وقت کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھے، میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی، ایک لمحے کو کچھ سوچا ، پھر مسکرا کر گویا ہوئے، " میاں! بلبل مذکر ہے"
میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن ہو گیا.

اس واقعے کے کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی. گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے تھے، میں نے دروازه کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب موصوف کھڑے ہیں. میں نے پوچھا کہ پروفیسر صاحب خیریت تو ہے، آپ میرے غریب خانے پر اس وقت؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے، " میاں اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث ؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر ہے، لیکن آج ہی مرزا غالب کا ایک مصرع نظر سے گزرا

بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

غالب کا شمار چونکہ اہل زبان اور مستند شعراء میں ہوتا ہے ، لہذا اس مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے.

میں نے ان کے خلوص و محبت کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وه بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تک تشریف لائے.

ابھی چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، میں گہری نیند میں تھا ، دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ، دروازه کھولا تو پروفیسر صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے. میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا. پروفیسر صاحب فرمانے لگے، "میاں، کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے، لیکن آج صبح جب میں کلیات اقبال کا مطالعہ کر رہا تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

علامہ اقبال چونکہ شاعر_ مشرق ہیں. ان سے زیادہ مستند کس کی رائے ہو سکتی ہے، لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ اب بلبل کو مذکر ہی سمجھیے. میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کے جانے کے بعد خدا کا بھی شکر ادا کیا کہ چلو اب اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی، لیکن میرے ایسے نصیب کہاں!

ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ ایک شام جبکہ میں ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک ہوئی . دروازے پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں. ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک عدد گدھا بھی کھڑا تھا جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوئی تھیں. اس روز پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی. میں نے حیرت سے دریافت کیا، " پروفیسر صاحب یہ کیا معاملہ ہے؟ وه اسی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا ہوئے، " میاں ، آپ کے سوال پر میں نے بہت تحقیق کی ہے اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا. اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی ہیں ، ان کے مطابق بلبل مذکر ہے جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث ہے، اب فیصلہ آپ خود کر لیجیئے کہ آپ کس رائے سے اتفاق کریں گے. مجھے اجازت دیجئے، ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے."

ان کے رخصت ہوتے ہی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئنده پروفیسر صاحب سے کوئی سوال نہ پوچھوں گا ۔

ماخوذ از احساس
یہ پڑھ کر تو میں بلبلا اٹھا!
 

شمشاد خان

محفلین
ٹہنی پے کسی شجر کی تنہا کے پس منظر میں

جگنو بولا لوفر پنچھی ادھی رات کو شاخ پے بیٹھا ہے
کھر جا کر توں سوں مر لے کہ رات یہ اتنی تتی کوئی نئیں

بلبل بولا کھٹیا کیڑے تجھ کو جُگتیں سوجھ رہی ہیں
تیری دُم پر یو پی ایس ہے ساڈے کھر میں بتی کوئی نئیں
(خالد مسعود)
 
ایک پروفیسر صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان سے جب کوئی سوال پوچھا جاتا تو وه اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے، جب تک کہ پوری تفصیل اور تسلی سے جواب نہ دے دیں ، بلکہ بعض اوقات تو سوال پوچھنے والا تنگ آ کر اس وقت کو کوستا جب اس نے ان سے سوال کیا تھا.
ایک صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب ایک لائبریری میں بیٹھے تھے کہ میرے ذہن میں ایک سوال آیا ، جو میں نے غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا. میں نے دریافت کیا کہ حضرت یہ بتائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟
پروفیسر صاحب اس وقت کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھے، میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی، ایک لمحے کو کچھ سوچا ، پھر مسکرا کر گویا ہوئے، " میاں! بلبل مذکر ہے"
میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن ہو گیا.

اس واقعے کے کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی. گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے تھے، میں نے دروازه کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب موصوف کھڑے ہیں. میں نے پوچھا کہ پروفیسر صاحب خیریت تو ہے، آپ میرے غریب خانے پر اس وقت؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے، " میاں اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث ؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر ہے، لیکن آج ہی مرزا غالب کا ایک مصرع نظر سے گزرا

بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

غالب کا شمار چونکہ اہل زبان اور مستند شعراء میں ہوتا ہے ، لہذا اس مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے.

میں نے ان کے خلوص و محبت کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وه بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تک تشریف لائے.

ابھی چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، میں گہری نیند میں تھا ، دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ، دروازه کھولا تو پروفیسر صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے. میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا. پروفیسر صاحب فرمانے لگے، "میاں، کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے، لیکن آج صبح جب میں کلیات اقبال کا مطالعہ کر رہا تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

علامہ اقبال چونکہ شاعر_ مشرق ہیں. ان سے زیادہ مستند کس کی رائے ہو سکتی ہے، لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ اب بلبل کو مذکر ہی سمجھیے. میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کے جانے کے بعد خدا کا بھی شکر ادا کیا کہ چلو اب اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی، لیکن میرے ایسے نصیب کہاں!

ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ ایک شام جبکہ میں ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک ہوئی . دروازے پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں. ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک عدد گدھا بھی کھڑا تھا جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوئی تھیں. اس روز پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی. میں نے حیرت سے دریافت کیا، " پروفیسر صاحب یہ کیا معاملہ ہے؟ وه اسی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا ہوئے، " میاں ، آپ کے سوال پر میں نے بہت تحقیق کی ہے اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا. اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی ہیں ، ان کے مطابق بلبل مذکر ہے جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث ہے، اب فیصلہ آپ خود کر لیجیئے کہ آپ کس رائے سے اتفاق کریں گے. مجھے اجازت دیجئے، ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے."

ان کے رخصت ہوتے ہی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئنده پروفیسر صاحب سے کوئی سوال نہ پوچھوں گا ۔

ماخوذ از احساس

کیا نتیجہ نکلا کہ بلبل مذکر ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔:):):)
 
Top