ادیبوں کی (لکھنے کی) نرالی عادتیں۔ آپ کس طرح لکھتے ہیں؟

مومن فرحین

لائبریرین
جب تک ہاتھ میں قلم نہ ہو ذھن میں خیالات آتے ہی نہیں ۔۔۔ اور خیالات کو ترتیب تب تک نہیں ملتی جب تک قلم ہونٹوں تک کا سفر طے نہ کر لے ۔۔۔
تنہائی بہت ضروری ہے ۔ شام کا وقت موزوں ہے ۔
کرسی میز پر بیٹھ کر کبھی نہیں لکھ سکی ۔ ایک دفع کالج میں اچانک ایک سیمینار دینے کے لیے کہا گیا ۔ کلاس روم میں کافی دیر تک کوشش کی کچھ سجھائی نہ دیا پھر ہربل گارڈن (حدیقة الادویہ ) میں جا کر زمین پر بیٹھ کر لیکچر تیار کیا ۔ :heehee:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احمد بھائی ، بہت دلچسپ مضمون منتخب کیا آپ نے ۔ مشاہیر کے بارے میں اس طرح کے مضمون میں حوالہ جات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ بد قسمتی سے اس مضمون میں کسی بھی بات کا کوئی حوالہ موجود نہیں سو کسی بھی قسم کی تصدیق یا تردید مشکل ہے ۔ اردو اور انگریزی کے کچھ مشہور ادیبوں کے طریقۂ تحریر کے بارے میں پہلے بھی کئی باتیں نظر سے گزری ہیں ۔ منٹو کے بارے میں جو عادت اس مضمون میں بیان کی گئی ہے میں نے اس سے بہت مختلف بات کہیں پڑھی تھی ۔ اب خدا جانے کون سی بات درست ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہمارے ہاتھ کا خط نوجوانی کے دور میں پھر بھی قابل قبول تھا کہ وقت بہت ہوتا تھا اور ڈائری میں شاعری وغیرہ لکھتے رہتے تھے پر اب تو کافی خراب ہو گیا ہے معاملہ۔
معاملے کی خرابی کا عکسی ثبوت سب کے سامنے پیش کیا جائے ۔ اور پھر کیبورڈ کی مدد سے بتایا بھی جائے کہ مذکورہ دستاویز میں کیا لکھا ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ویسے تو میں نے بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جو لکھا ہے تقریباً سبھی کیبورڈ سے لکھا ہے۔میری عادت یہ ہے کہ زیادہ توجہ سے لکھنا ہو تو عام طور پر میں ایک دو وقتوں کھانا چھوڑ دیتا ہوں اور ان کی جگہ چائے کو دیتا ہوں۔ نیز میرا تجربہ ہے کہ نہار منہ ایک کپ تیز پتی کی چائے سے بڑھ کر خیالات کو مہمیز دینے والی اور کوئی شے نہیں۔
عبید بھائی ، اللّٰہ کا شکر ہے کہ آپ ناول نگار نہیں ہیں ورنہ تو فاقوں کی وجہ سے سوکھ کر کانٹا ہوجاتے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تقریباً ساری ہی نثر اور شاعری گوگل کیپ پر لکھی ہے۔ زیادہ تر بستر پر بیٹھے، لیٹے۔
تابش بھائی ، مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا کہ شعر و ادب آپ کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔
یعنی آپ بستر پر لیٹے لیٹے اخلاقی شاعری لکھ لکھ کر قوم کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں؟!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک دفع کالج میں اچانک ایک سیمینار دینے کے لیے کہا گیا ۔ کلاس روم میں کافی دیر تک کوشش کی کچھ سجھائی نہ دیا پھر ہربل گارڈن (حدیقة الادویہ ) میں جا کر زمین پر بیٹھ کر لیکچر تیار کیا ۔ :heehee:
زبردست، فرحین! حدیقۃ الادویہ کی ترکیب پڑھ کر بہت لطف آیا ۔
ویسے میں آخری جملہ جلدی میں یوں پڑھ گیاتھا : حدیقۃ الادویہ میں بیٹھ کر مکسچر تیار کیا ۔ :):):)
 

فہد اشرف

محفلین
پچھلے دنوں اختر الایمان کی کلیات دیکھ رہا تھا، پیش لفظ میں ان کی بیگم سلطانہ ایمان نے ان کے لکھنے کی دو عادتوں کا ذکر کیا ہے ایک یہ کہ نظم جس پنسل سے لکھنا شروع کرتے تھے اسی سے ختم کرتے تھے دوسرے یہ کہ لکھتے وقت سگریٹ نوشی کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جب تک ہونٹوں میں سگریٹ نہ دبا رہے اور اس کا دھواں آنکھوں میں نہیں جاتا رہے وہ نظم نہیں کہہ سکیں گے۔ سلطانہ ایمان آگے لکھتی ہیں کہ جب انہیں یہ احساس ہونے لگتا تھا کہ کسی چیز کی عادت پڑنے لگی ہے تو اسے ترک کرنے کی کوشش کرتے تھے چنانچہ جب انہیں احساس ہوا کہ شاعری ٹوٹکوں سے نہیں دل و دماغ اور احساس سے کی جاتی ہے تو انہوں نے سگریٹ نوشی بھی چھوڑ دی اور پنسل کی جگہ فاؤنٹین پین سے لکھنے لگے، یوں سلطانہ صاحبہ بھی پنسل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سنبھال کر رکھنےسے نجات پا گئیں۔
 

سید عمران

محفلین
ماشاءاللہ خاصا متوازن اور سلجھا ہوا کومبی نیشن ہے؛ ورنہ بہت سے ادباء کو تخیل کی بلند پروازی اور اسپِ قلم کو ایڑ لگانے کے لیے سگریٹ کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے۔
😀😀😀
خبردار ہمارا اشارہ محمد وارث بھائی کی جانب نہیں ہے۔ کوئی غلط فہمی پھیلانے کی کوشش نہ کرے۔😀
یعنی ہم آپ کا اشارہ ٹھیک سمجھے!!!
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی ، بہت دلچسپ مضمون منتخب کیا آپ نے ۔ مشاہیر کے بارے میں اس طرح کے مضمون میں حوالہ جات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ بد قسمتی سے اس مضمون میں کسی بھی بات کا کوئی حوالہ موجود نہیں سو کسی بھی قسم کی تصدیق یا تردید مشکل ہے ۔
یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن ہمارے ہاں حوالوں کا اہتمام بہت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔


اردو اور انگریزی کے کچھ مشہور ادیبوں کے طریقۂ تحریر کے بارے میں پہلے بھی کئی باتیں نظر سے گزری ہیں ۔
کچھ یاد ہو تو لکھیے۔

منٹو کے بارے میں جو عادت اس مضمون میں بیان کی گئی ہے میں نے اس سے بہت مختلف بات کہیں پڑھی تھی ۔ اب خدا جانے کون سی بات درست ہے ۔

کیا کھانے پینے کی عادتوں کا ذکر مقصود ہے؟ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
معاملے کی خرابی کا عکسی ثبوت سب کے سامنے پیش کیا جائے ۔ اور پھر کیبورڈ کی مدد سے بتایا بھی جائے کہ مذکورہ دستاویز میں کیا لکھا ہے ۔

تقریباً سب کے سب محفلین ہی انتہائی درجے کی جمالیاتی حس رکھنے والے ہیں۔ معاملے کی خرابی کا عکسی ثبوت اُن کی طبع نازک پر بہت زیادہ بار کا سبب بن سکتا ہے۔ :)

یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
تابش بھائی ، مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا کہ شعر و ادب آپ کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔
یعنی آپ بستر پر لیٹے لیٹے اخلاقی شاعری لکھ لکھ کر قوم کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں؟!

قوم کو بیدار کرنے کے لئے آپ کو تحمل مزاجی کی بہت ضرورت ہوتی ہے سو بہتر ہے کہ اُنہیں جگانے سے پیشتر آپ بھرپور نیند لے لیں۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
پچھلے دنوں اختر الایمان کی کلیات دیکھ رہا تھا، پیش لفظ میں ان کی بیگم سلطانہ ایمان نے ان کے لکھنے کی دو عادتوں کا ذکر کیا ہے ایک یہ کہ نظم جس پنسل سے لکھنا شروع کرتے تھے اسی سے ختم کرتے تھے دوسرے یہ کہ لکھتے وقت سگریٹ نوشی کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جب تک ہونٹوں میں سگریٹ نہ دبا رہے اور اس کا دھواں آنکھوں میں نہیں جاتا رہے وہ نظم نہیں کہہ سکیں گے۔
اکثر لوگ ارتکازِ توجہ کے لئے ہیپنا ٹزم کے بجائے سگریٹ سے کام چلاتے ہیں۔ :)
سلطانہ ایمان آگے لکھتی ہیں کہ جب انہیں یہ احساس ہونے لگتا تھا کہ کسی چیز کی عادت پڑنے لگی ہے تو اسے ترک کرنے کی کوشش کرتے تھے
یہ بڑی اہم بات ہے۔ ہم میں سے بیشتر کو جب یہ احساس ہوتا ہے تو وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اب یہ عادت نہیں چھوٹ سکتی۔ :)

چنانچہ جب انہیں احساس ہوا کہ شاعری ٹوٹکوں سے نہیں دل و دماغ اور احساس سے کی جاتی ہے تو انہوں نے سگریٹ نوشی بھی چھوڑ دی اور پنسل کی جگہ فاؤنٹین پین سے لکھنے لگے
اسکے بعد شاعری پر کیا فرق پڑا؟ :)

یوں سلطانہ صاحبہ بھی پنسل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سنبھال کر رکھنےسے نجات پا گئیں۔

یقیناً سگریٹ اور پینسل ترک کرنے میں سلطانہ صاحبہ کی تحریک شامل رہی ہوگی۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ خاصا متوازن اور سلجھا ہوا کومبی نیشن ہے؛ ورنہ بہت سے ادباء کو تخیل کی بلند پروازی اور اسپِ قلم کو ایڑ لگانے کے لیے سگریٹ کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے۔
😀😀😀
خبردار ہمارا اشارہ محمد وارث بھائی کی جانب نہیں ہے۔ کوئی غلط فہمی پھیلانے کی کوشش نہ کرے۔😀

چلیے اسی بہانے وارث بھائی اس دھاگے تک آ گئے۔ :)
 
Top