بھئی اس دھاگے پر لگڑ بگڑ کا ذکر نہ کیا جائے آمد میں خلل پڑتا ہے۔
لیجئے ایک آٹھ سال پرانا شعریاد آ گیا۔
محبت میں شراکت کے ہم نہیں ہیں قائل
جو ہوں آپ تو کوئی اور روشن خیال ڈھونڈئیے
ادھر سیدنا مشرف کے دور میں روشن خیالی کی اصطلاح بھی نئی نئی اڑائی اور اٹھائی جا رہی تھی بس اسی واسطے ہم نے شعر میں رگڑ دی۔
یہ ہم نے جب ارشاد فرمایا تو سن شریف پندرہ برس کا تھا اور مقام بہاولپور۔ وہاں ہماری عدیلہ آنٹی بھی تھیں ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی تھی سو ان کو جو غزل سنائی تو کہنے لگیں یہ شعر مجھے بہت پسند آیا اور ہم کو پوری غزل نقل کر کے دینا پڑی۔ اب یہ غزل ہمارے پاس تو ہرگز نہیں لیکن شاید ان کے ہاں ہو۔ انٹر کے زمانے میں ہمارے حساب کے دستے۔۔۔ ریاضی کی مساوات کے علاوہ ہماری ادھوری غزلوں سے بھر رہتے تھے۔۔۔ کیا دور تھا۔۔۔ سرخ بال پوائنٹ سے لکھے کئی اشعار۔۔ سب دست برد زمانہ کا شکار ہو گئے۔۔۔
میں بھی کبھی دہکتا آتش فشاں تھا۔۔۔ سرد کر دیا فکر فردا نے مجھے۔۔۔
تمہاری طرح انمول تھا۔۔۔
اب فقط سنگ راہ ہوں ۔۔۔
ٹھوکروں پہ زمانے کی محو راہ ہوں ۔۔۔
عاری از مال و سپاہ ہوں۔۔۔
نہ واسطے عبرت مرکز نگاہ ہوں۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
بعد کو معلوم ہوا کہ غزل میں اور جتنی معروضات تھیں، سب نظرانداز ہوگئیں اس شعر پر عمل کر لیا گیا
لہذا ہم متنبہ کرتے ہیں کہ بھول کر بھی ایسی بات ان معاملات میں نہ کی جائے کیا پتہ فریق ثانی فقط اشارہ ابرو کا منتظر ہو