شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۴۳۸
نے ۱۶۸۳ میں لکھا تھا جو کمیاب ہے۔ ایک اور تذکرہ جو اسی نام سے ملتا ہے، میر علاء الدولہ اشرف علی خاں نے ۱۷۶۴ میں لکھا ہے۔ اسی تذکرہ کی تاریخی اور ادبی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
تراب، شاہ ((زمانہ تقریباً ۱۷۹۹ – ۱۷۴۵ )) : نواب علی نام تراب تخلص، معروف بہ شاہ تراب لقب گنج الاسرار۔ ترنمول ضلع ارکاٹ ((چینئی)) کے رہنے والے تھے۔ والد کا نام عبد اللطیف خاں تھا۔ صوفی خاندان سے ہونے کے باعث حصول علم میں مصروف ہو گئے۔ رمل، نجوم، ہیئت اور فلسفہ میں بھی دستگاہ رکھتے تھے۔ رمل میں ان کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ مرشد کی تلاش میں بیجاپور پہنچے اور بادشاہ حسینی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پیر بادشاہ حسینی علی پیر کے فرزند تھے۔ جو امین الدین علی اعلٰی شاہ کے پوتے تھے۔ انھیں رمل اور نجوم میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ تراب رمل میں انھی کے شاگرد ہوئے۔
"مناچے شکوک" کے مطالعہ کا ان پر گہرا اثر پڑا۔ انھوں نے اسی اثر کی ترجمانی اپنی تصنیف "من سمجھاون" میں کی ہے۔ ان کی کئی تصانیف ہیں : ((۱)) گیان سروپ، ((۲)) ظہور کلی ((۱۷۵۷))، ((۳)) من سمجھاون ((۱۷۵۷))، ((۴)) گلزار وحدت ((۱۷۵۹))، ((۵)) گنج الاسرار ((۱۷۶۵))، ((۶)) مثنوی مہ جبیں و ملا ((۱۷۶۸))، ((۷)) آئینہ کثرت ((۱۷۷۳))۔ ان کی تصانیف میں "من سمجھاون" کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔
ترکیب بند اور ترجیع بند : ترکیب بند غزل کے طور پر ایک یا زیادہ مطلعوں کے ساتھ چند شعر لکھ کر ایک مطلع بطور گرہ کے لگاتے جائیں، اور بعد کے بندوں میں جو اشعار ہوں وہ پہلے بند کے اشعار ہی کے وزن پر کہے جائیں اور اس کا التزام رکھا جائے کہ ہر بند کا مطلع مکتلف ہو۔ اگر مندرجہ بالا ایک ہی گرہ یا مطلع کی تکرار ہو تو اس کو
نے ۱۶۸۳ میں لکھا تھا جو کمیاب ہے۔ ایک اور تذکرہ جو اسی نام سے ملتا ہے، میر علاء الدولہ اشرف علی خاں نے ۱۷۶۴ میں لکھا ہے۔ اسی تذکرہ کی تاریخی اور ادبی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
تراب، شاہ ((زمانہ تقریباً ۱۷۹۹ – ۱۷۴۵ )) : نواب علی نام تراب تخلص، معروف بہ شاہ تراب لقب گنج الاسرار۔ ترنمول ضلع ارکاٹ ((چینئی)) کے رہنے والے تھے۔ والد کا نام عبد اللطیف خاں تھا۔ صوفی خاندان سے ہونے کے باعث حصول علم میں مصروف ہو گئے۔ رمل، نجوم، ہیئت اور فلسفہ میں بھی دستگاہ رکھتے تھے۔ رمل میں ان کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ مرشد کی تلاش میں بیجاپور پہنچے اور بادشاہ حسینی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پیر بادشاہ حسینی علی پیر کے فرزند تھے۔ جو امین الدین علی اعلٰی شاہ کے پوتے تھے۔ انھیں رمل اور نجوم میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ تراب رمل میں انھی کے شاگرد ہوئے۔
"مناچے شکوک" کے مطالعہ کا ان پر گہرا اثر پڑا۔ انھوں نے اسی اثر کی ترجمانی اپنی تصنیف "من سمجھاون" میں کی ہے۔ ان کی کئی تصانیف ہیں : ((۱)) گیان سروپ، ((۲)) ظہور کلی ((۱۷۵۷))، ((۳)) من سمجھاون ((۱۷۵۷))، ((۴)) گلزار وحدت ((۱۷۵۹))، ((۵)) گنج الاسرار ((۱۷۶۵))، ((۶)) مثنوی مہ جبیں و ملا ((۱۷۶۸))، ((۷)) آئینہ کثرت ((۱۷۷۳))۔ ان کی تصانیف میں "من سمجھاون" کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔
ترکیب بند اور ترجیع بند : ترکیب بند غزل کے طور پر ایک یا زیادہ مطلعوں کے ساتھ چند شعر لکھ کر ایک مطلع بطور گرہ کے لگاتے جائیں، اور بعد کے بندوں میں جو اشعار ہوں وہ پہلے بند کے اشعار ہی کے وزن پر کہے جائیں اور اس کا التزام رکھا جائے کہ ہر بند کا مطلع مکتلف ہو۔ اگر مندرجہ بالا ایک ہی گرہ یا مطلع کی تکرار ہو تو اس کو