شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۴۵۸
لکشمی بائی کی تعلیم محض حروف شناسی تک محدود تھی مگر تلک کی صحبت اور تعلیم و تربیت نے ان کے اندر ادب و شعر کا ذوق و شعور پیدا کیا اور ان کی جدائی کی تڑپ نے انھیں شاعرہ بنا دیا۔ ایک عرصے تک وہ اپنی شاعری کو سب سے چھپاتی رہیں لیکن ۱۹۰۷ میں جلگاؤں کے کوی سمیلن کے حاضرین کے نام انھوں نے اپنا منظوم پیغام روانہ کر کے سب کو چونکا دیا۔ اس کے بعد رسالہ "منو رنجن" کے دوالی نمبر میں ان کی ایک نظم پہلی بار شائع ہوئی اور ان کا نام مہاراشٹر کے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گیا۔ ان کی نظموں کا مجموعہ "بھری ہوئی گاگر" کے نام سے شائع ہوا۔ تلک نے "کرستاین" کے عنوان سے حضرت عیسٰی کی زندگی پر ایک "مہاکاویہ " ((رزمیہ)) شروع کیا تھا جس کے گیارہ ابواب وہ مکمل کر چکے تھے۔ ان کی موت کے بعد لکشمی بائی نے بارہویں باب سے پچہترویں باب تک اس رزمیے کی تکمیل کی۔ ایک کم پڑھی لکھی خاتون شاعرہ کے لیے یہ ایک غیر معمولی تخلیقی کاوش تھی۔ لیکن مراٹھی ادب میں لکشمی بائی کا نام اُن کی شاعری سے زیادہ ان کی خودنوشت سوانح عمر "سمرتی چتریں" ((یادوں کے نقوش)) کی وجہ سے امر ہو گیا ہے، جو ان کی موت کی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی مگر ان کے بیٹے دیودت نے اسے مکمل کیا۔
دراصل اس سوانح عمری کے لکھے جانے کا سبب ان کے بیٹے کی فرمائش ہی تھی۔ وہ اپنے والد ریورنڈ ناراین وامن تلک کی سوانح عمری لکھنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں اپنی والدہ سے ان کی کچھ یادیں تحریری شکل میں مہیا کر دینے کے طالب ہوئے تھے۔ چنانچہ ۱۹۲۴ میں لکشمی بائی نے "سمرتی چتریں" لکھنے کا آغاز کیا۔ پربھاکر شری پادکولھنکر نے اپنے رسالے "سنجیونی" میں اسے قسط وار شائع کرنا شروع کیا۔ ۱۹۳۴ میں اس کا پہلا حصہ کتابی صورت میں چھپا۔ ۱۹۳۵ میں دوسرا اور تیسرا اور ۱۹۳۶ میں ان کی موت کے بعد چوتھا حصہ شائع ہوا جسے ان
لکشمی بائی کی تعلیم محض حروف شناسی تک محدود تھی مگر تلک کی صحبت اور تعلیم و تربیت نے ان کے اندر ادب و شعر کا ذوق و شعور پیدا کیا اور ان کی جدائی کی تڑپ نے انھیں شاعرہ بنا دیا۔ ایک عرصے تک وہ اپنی شاعری کو سب سے چھپاتی رہیں لیکن ۱۹۰۷ میں جلگاؤں کے کوی سمیلن کے حاضرین کے نام انھوں نے اپنا منظوم پیغام روانہ کر کے سب کو چونکا دیا۔ اس کے بعد رسالہ "منو رنجن" کے دوالی نمبر میں ان کی ایک نظم پہلی بار شائع ہوئی اور ان کا نام مہاراشٹر کے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گیا۔ ان کی نظموں کا مجموعہ "بھری ہوئی گاگر" کے نام سے شائع ہوا۔ تلک نے "کرستاین" کے عنوان سے حضرت عیسٰی کی زندگی پر ایک "مہاکاویہ " ((رزمیہ)) شروع کیا تھا جس کے گیارہ ابواب وہ مکمل کر چکے تھے۔ ان کی موت کے بعد لکشمی بائی نے بارہویں باب سے پچہترویں باب تک اس رزمیے کی تکمیل کی۔ ایک کم پڑھی لکھی خاتون شاعرہ کے لیے یہ ایک غیر معمولی تخلیقی کاوش تھی۔ لیکن مراٹھی ادب میں لکشمی بائی کا نام اُن کی شاعری سے زیادہ ان کی خودنوشت سوانح عمر "سمرتی چتریں" ((یادوں کے نقوش)) کی وجہ سے امر ہو گیا ہے، جو ان کی موت کی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی مگر ان کے بیٹے دیودت نے اسے مکمل کیا۔
دراصل اس سوانح عمری کے لکھے جانے کا سبب ان کے بیٹے کی فرمائش ہی تھی۔ وہ اپنے والد ریورنڈ ناراین وامن تلک کی سوانح عمری لکھنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں اپنی والدہ سے ان کی کچھ یادیں تحریری شکل میں مہیا کر دینے کے طالب ہوئے تھے۔ چنانچہ ۱۹۲۴ میں لکشمی بائی نے "سمرتی چتریں" لکھنے کا آغاز کیا۔ پربھاکر شری پادکولھنکر نے اپنے رسالے "سنجیونی" میں اسے قسط وار شائع کرنا شروع کیا۔ ۱۹۳۴ میں اس کا پہلا حصہ کتابی صورت میں چھپا۔ ۱۹۳۵ میں دوسرا اور تیسرا اور ۱۹۳۶ میں ان کی موت کے بعد چوتھا حصہ شائع ہوا جسے ان