اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۸

لکشمی بائی کی تعلیم محض حروف شناسی تک محدود تھی مگر تلک کی صحبت اور تعلیم و تربیت نے ان کے اندر ادب و شعر کا ذوق و شعور پیدا کیا اور ان کی جدائی کی تڑپ نے انھیں شاعرہ بنا دیا۔ ایک عرصے تک وہ اپنی شاعری کو سب سے چھپاتی رہیں لیکن ۱۹۰۷ میں جلگاؤں کے کوی سمیلن کے حاضرین کے نام انھوں نے اپنا منظوم پیغام روانہ کر کے سب کو چونکا دیا۔ اس کے بعد رسالہ "منو رنجن" کے دوالی نمبر میں ان کی ایک نظم پہلی بار شائع ہوئی اور ان کا نام مہاراشٹر کے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گیا۔ ان کی نظموں کا مجموعہ "بھری ہوئی گاگر" کے نام سے شائع ہوا۔ تلک نے "کرستاین" کے عنوان سے حضرت عیسٰی کی زندگی پر ایک "مہاکاویہ " ((رزمیہ)) شروع کیا تھا جس کے گیارہ ابواب وہ مکمل کر چکے تھے۔ ان کی موت کے بعد لکشمی بائی نے بارہویں باب سے پچہترویں باب تک اس رزمیے کی تکمیل کی۔ ایک کم پڑھی لکھی خاتون شاعرہ کے لیے یہ ایک غیر معمولی تخلیقی کاوش تھی۔ لیکن مراٹھی ادب میں لکشمی بائی کا نام اُن کی شاعری سے زیادہ ان کی خودنوشت سوانح عمر "سمرتی چتریں" ((یادوں کے نقوش)) کی وجہ سے امر ہو گیا ہے، جو ان کی موت کی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی مگر ان کے بیٹے دیودت نے اسے مکمل کیا۔

دراصل اس سوانح عمری کے لکھے جانے کا سبب ان کے بیٹے کی فرمائش ہی تھی۔ وہ اپنے والد ریورنڈ ناراین وامن تلک کی سوانح عمری لکھنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں اپنی والدہ سے ان کی کچھ یادیں تحریری شکل میں مہیا کر دینے کے طالب ہوئے تھے۔ چنانچہ ۱۹۲۴ میں لکشمی بائی نے "سمرتی چتریں" لکھنے کا آغاز کیا۔ پربھاکر شری پادکولھنکر نے اپنے رسالے "سنجیونی" میں اسے قسط وار شائع کرنا شروع کیا۔ ۱۹۳۴ میں اس کا پہلا حصہ کتابی صورت میں چھپا۔ ۱۹۳۵ میں دوسرا اور تیسرا اور ۱۹۳۶ میں ان کی موت کے بعد چوتھا حصہ شائع ہوا جسے ان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۹

کے بیٹے نے تکمیل کو پہنچایا اور لکشمی بائی کے انتقال ((۶ فروری ۱۹۳۶)) تک کے واقعات کو اس میں شائع کیا۔

اپنے شوہر کے حالات زندگی لکھنے کے ضمن میں لکشمی بائی نے اپنے بچپن سے لے کر بیوگی تک کے واقعات و حادثات اور اپنے گھرانے کے مختلف افراد کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ خود نوشت کا آغاز لکشمی بائی کے دادا واسو دیو بھگونت جو گلیکر کے ذکر سے ہوتا ہے جنھیں ۱۸۵۷ میں پھانسی دی گئی تھی۔ ۱۸۵۷ سے ۱۹۳۵ تک تقریباً ستر سال کے عرصے میں ہونے والی سماجی و تہذیبی تبدیلیوں اور لوگوں کے بدلتے ہوئے تصورات و رحجانات کا نقشہ لکشمی بائی نے کھینچا ہے۔ اپنے بیان کی شگفتگی اور تخیل کی رسائی سے انھوں نے ماضی کو زندہ و متحرک کر دیا ہے اگرچہ "سمرتی چتریں" میں انھوں نے اپنے شوہر کو مرکزی حیثیت دی ہے اور خود کو پس پشت رکھا ہے مگر واقعات و تاثرات کے حوالے سے ان کا وجود ہر جگہ متحرک محسوس ہوتا ہے اور یادوں کے نقوش کو زیادہ پرکشش بناتا ہے۔

ریورنڈ تلک کی شخصیت اور کردار کا مطالعہ بھی لکشمی بائی نے بڑی درد مندی، باریک بینی اور حقیقت پسندی سے پیش کیا ہے۔ ان کی سیرت کی تشکیل میں حصہ گیر ہونے والے واقعات و اشخاص کا جائزہ بڑی صفائی سے لیا ہے۔ ان کی معروضیت پڑھنے والے کو متاثر کرتی ہے۔

ریورنڈ تلک کے علاوہ اس کتاب میں ایسی متعدد اہم اور غیر اہم شخصیتوں کے قلمی خاکے ملتے ہیں جن سے تلک میاں بیوی کا تعلق رہا۔ یہ لوگ لکشمی بائی کی خلاقانہ تصویر کشی کے سبب مراٹھی ادب کے یادگار کردار ہو گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۰

لکشمی بائی کی زبان گھریلو، انداز بیان مبالغے سے عاری اور بول چال سے قریب ہے۔ ان کی حسِ مزاح اور مشاہدے کی باریکی اورمکالموں کے ساتھ ساتھ واقعات کو پیش کرنے کی صلاحیت کے سبب "سمرتی چتریں" ایک نہایت جاندار کتاب ہو گئی ہے اور مراٹھی کے تخلیقی ادب کا حصہ بن گئی ہے۔ یہ محض ایک سوانح عمری نہیں ادبی فن پارہ ہے۔

تماشا : تماشہ مہاراشٹر کا عوامی ناٹک ہے، جو نوٹنکی سے ملتی جلتی تمثیل ہے۔ اس میں رقص و موسیقی کے ساتھ اداکاری کو جوڑا گیا ہے۔ اس کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک "وگ" جس میں پلاٹ یا کہانی اور مکالموں کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اور دوسرا "باری" جس میں سنگیت اور رقص پر زور دیا جاتا ہے۔ رقص کے ساتھ عشقیہ گیت گائے جاتے ہیں جنھیں "لاونی" کہا جاتا ہے۔ ((ملاحظہ ہو نوشتہ لاونی))۔

ان ناٹک کی ابتدا گنپتی کی پوجا اور آرتی سے ہوتی ہے جس کے بعد ان سے ناٹک یا شو کی کامیابی کے لیے آشیرواد مانگا جاتا ہے۔ اس کے بعد سوتر دھار اور ودوشک جسے مراٹھی میں سونگاڈیا کہا جاتا ہے، نمودار ہوتے ہیں اور اس طرح باتیں کرتے ہیں جیسے بچھڑے ہوئے دوست ایک عرصے کے بعد مل رہے ہوں۔ دونوں میں چھیڑ چھاڑ اور لطیفہ گوئی کا سلسلہ چلتا ہے، پھر کسی نہ کسی طرح ناچ گانے کی محفل کا ذکر نکل آتا ہے اور دونوں "تماشا" دیکھنے جاتے ہیں۔ اسی وقت مردنگ اور کڑیاں بجا کر دونوں کی جگل بندی سے تماشائیوں پر ایک تاثر قائم کیا جاتا ہے اور پردے کے پیچھے سے تین چار لڑکیاں مہاراشٹری ڈھنگ سے باندھی گئی ساڑیوں کے پلو اٹھائے، ناظرین کی طرف پشت کیے نمودار ہوتی ہیں اور تھرکنے مٹکنے لگتی ہیں۔ ڈھولک یا مردنگ کے ساتھ رقص کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۱

اسی نام سے وہ مشہور ہے۔ امریکا کے شہر فلوریڈا میں پیدا ہوا۔ بچپن ہنی بل میں گزرا۔ باپ کے انتقال کے بعد یہیں وہ اپنے بھائی کے اخبار میں کام کرنے لگا۔ اس کے بعد مختلف شہروں میں گھومتا اور چھاپہ خانوں میں چھپائی کا کام کرتا رہا۔ ۱۸۵۷ میں اُس نے جنوبی امریکا کا رخ کیا تا کہ کچھ دولت کما سکے۔ لیکن راستہ میں وہ نیو آرلیز میں رک گیا اور دریائے مسی پسی میں چلنے والی کشتیوں کا پائلٹ بن گیا اور اسی سے اس نے اپنا نام مارک ٹوین رکھ لیا۔ اسی زمانہ میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور کشتی رانی رک گئی۔ اس نے اپنے بھائی کی مدد سے پھر دولت کی تلاش شروع کی اور جب ناکام ہوا تو لکھنے کا رخ کیا اور اخباروں میں لکھنے لگا۔ مزاحیہ کالم اور ہلکے پھلکے قصے کہانیاں لکھتا۔

مارک ٹوین کو سب سے پہلی شہرت اپنی ایک کہانی "کودنے والا مینڈک"

Jumping Frog

سے حاصل ہوئی۔ یہ مغربی مزاح نگاری کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ یہ پہلے ایک اخبار میں چھپی اور جب مارک ٹوین نے اپنی کہانیوں اور خاکوں کا پہلا مجموعہ شائع کیا تو اس کا نام بھی یہی رکھا۔ ۱۸۶۶ میں وہ جزیرہ ہوائی گیا۔ واپسی پر اس کے بارے میں اس نے لکچر دینے شروع کیے۔ ان میں بھی وہی فکاہت اور ظرافت ہوتی تھی۔ اسی انداز میں اس نے اپنے یوروپ کے سفر کے حالات لکھے جو "ایک بھولے نادان کا بیرونی سفر"

An Innocent Abroad

کے نام سے شائع ہوئے اور اس کی مقبولیت برابر بڑھتی گئی۔ اسی زمانہ میں اس کی دو تصنیفات جو بہت مشہور ہوئیں وہ ہیں، "ٹام سائر کی مہمات"

Adventures of Tom Sayer

اور "ہیکل بری فن کی مہمات"

Adventures of Huckleberry Finn

ان میں اس نے اپنے لڑکپن کی مہمات کو بیان کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۲

۱۸۷۰ میں مارک ٹوین نے اولیبوبا لینگڈن سے شادی کر لی اور ہارٹ فورڈ میں رہنے لگا۔ یہاں اس نے کئی ناول، کہانیاں اور خاکے لکھے۔ بچوں کی ایک کہانی "پرنس اینڈ دی پاپر"

Prince and the Pauper

لکھی۔ اس میں سادگی، افسانویت، حقیقت پسندی اور سماجی تنقید سب ہی کچھ ہے۔ اس کا مزاحیہ انداز ہمیشہ باقی رہا لیکن بعد کے دور میں اس کی تحریروں کی تہہ میں غم کی جھلک بھی ملتی ہے۔

مارک ٹوین مالی معاملات میں زیادہ ہوشیار نہیں تھا۔ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ طباعت و اشاعت کےکاموں میں لگایا جس سے نہ صرف نقصان ہوا بلکہ مقروض ہو گیا۔ اس کی دو لڑکیاں بچپن میں مر گئیں اور پھر ۱۹۰۴ میں بیوی انتقال کر گئی۔ ان غموں کا سایہ اس پر ہمیشہ رہا۔ اس کے آخری دور کی تصنیفات میں جو مایوسی کی جھلک ہے وہ ان ہی صدموں کا نتیجہ ہے۔

اس کی تصنیفات الگ بھی چھپتی رہی ہیں اور ان کے مجموعے بھی۔ اس کی سوانح عمریاں بھی شائع ہوئی ہیں۔

ٹیرینس

Terence, 195 B.C. – 159 B.C.

ٹیرینس لاطینی زبان کا مشہور تمثیل نگار تھا۔ اس کے طربیہ ڈرامہ

Comedy

میں بڑی فن کارانہ پختگی پائی جاتی ہے۔ اس نے اپنے ڈرامے نسبتاً زیادہ روشن خیال اور تعلیم یافتہ ناظرین کے لیے لکھے۔ یہ ڈرامے دوسری صدی قبل مسیح کے پہلے نصف میں لکھے گئے۔

ٹیسی ٹس ((۱۱۷ – ۵۵))

Tacitus

ٹیسی ٹس لاطینی نثر نگار اور مؤرخ ہے جس کی مشہور تصانیف ہسٹریز

Histories

اور اینلز

Annals

ہیں جن میں نہ صرف کردار نگاری کا کمال ملتا ہے بلکہ واقعات کو غیر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۳

جذباتی اور بے تعصبی سے پیس کرنے کا انداز بھی ہے۔ اس کا شمار بجا طور پر یوروپ کے عظیم مورخین میں ہوتا ہے۔

اسی دور کی لاطینی نثر بڑی جاندار اور فصیح ہے اور اس کے بہترین نمائندوں لیوی، کینٹی لین اور پلی نی کے ساتھ ٹیسی ٹس کا بھی نام آتا ہے۔ لیکن اس کا میدان تاریخ نویسی ہے۔ اس کی کتاب "اینلز" تاریخ نویسی کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔

ٹیگور، رابندر ناتھ ((۱۹۴۱ - ۱۸۶۱))

Tagore, Rabindranath

بنگالی شاعر اور ناول نگار رابندر ناتھ ٹیگور ۷ مئی ۱۸۶۱ میں بمقام کولکتہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو اپنی شان و شوکت، روشن خیالی اور تہذیب و شائستگی کے لیے مشہور تھا۔ ان کے والد مہارشی دیویندر ناتھ ٹیگور فلسفی، ریاضی داں، مشرقی علوم کے عالم اور مذہبی ذہن کے بزرگ تھے۔ ٹیگور ان کی چودہویں اولاد تھے اور سب سے چھوٹے تھے۔ روایتی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی۔ ابتدائی چند سال کولکتہ کے ایک اسکول میں پڑھتے رہے پھر تعلم کے لیے لندن گئے لیکن کوئی ڈیڑھ سال بعد ڈگری لیے بغیر لوٹ آئے اور اپنے طور پر پڑھنے لکھنے اور اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے میں مصروف ہو گئے۔

عہد جوانی میں رابندر ناتھ کو خاندانی جائداد کی نگرانی کے لیے شہر کولکتہ سے سو میل دور بنگال کے ایک دیہات کی فرحت بخش فضا میں رہنا پڑا، جہاں ٹیگور کا آبائی گھر تھا۔ اسی زمانے میں وہ دیہات، دیہاتی زندگی، فطرت کے مظاہر اور عوام سے قریب آئے۔ اس طرح ان کی شاعری اور سماجی شعور دونوں کا افق وسیع ہوا۔ ۱۹۰۲ میں ٹیگور نے یہاں شانتی نکیتن کے نام سے ایک نئے ڈھنگ کے مدرسہ کی بنیاد رکھی جس نے ۱۹۲۱ میں "آل انڈیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۴

یونیورسٹی وشو بھارتی نکیتن" کی شکل اختیار کی۔ آج بھی یہ یونیورسٹی نہ صرف کل ہند بلکہ بین الاقوامی کلچر کا مرکز ہے۔

۱۹۱۵ میں حکومت ہند کی طرف سے "سر" کا خطاب دیا گیا۔ ٹیگور نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں کم و بیش پوری متمدن دنیا کا دورہ کیا۔ ہندوستان کی کئی جامعات اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ ۱۹۳۴ کے بعد تندرستی خراب ہو گئی۔ ۷ اگست ۱۹۴۱ کو بمقام کولکتہ انتقال ہوا۔

ابتدائی شاعری میں انھوں نے چکرورتی اور ودیاپتی کی تقلید کی ہے۔ بالخصوص ویشنو شعرا کے تصوف آمیز گیتوں سے جو ہندو مسلم مشترکہ مذہبی خیالات کا نتیجہ ہیں ٹیگور کی شاعری کو نئی راہ ملی۔ ٹیگور تصوف سے جس حد تک متاثر تھے اتنے ہی وہ جمال پرست بھی تھے۔ اس جمال پرستی پر ایک طرف سنسکرت کا اثر ہے تو دوسری طرف انگلستان کے رومانی عہد کے شعرا کے حسن تخیل کا بھی اثر ہے۔ رومانی فلسفہ کے ٹیگور کی شاعری میں کائنات و فطرت کی سادہ کاری کی عکاسی کا عنصر ایسا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ٹیگور کی ادبی تہذیبی اور تخلیقی سرگرمیاں پندرہ سال کی عمر سے شروع ہو کر بغیر کسی وقفہ کے آخری لمحوں تک جاری رہیں۔ ان کی زبردست قوت تخلیق اور طبیعت کی جولانی کبھی ختم نہ ہوئی۔ انھوں نے ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی۔ شاعری کے علاوہ ناول، افسانے، انشائیہ، سماجی اور تمثیلی ناٹک، فلسفیانہ موضوع پر مقالے، تحقیق و تنقید، مکاتیب اور سوانح وغیرہ میں اپنی ذہانت و فطانت کے نقوش مرتسم کیے۔ لیکن شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے وہ زیادہ نمایاں ہوئے۔ بنیادی طور پر ٹیگور شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے حصہ میں وہ خالصتاً رومانی اور جمالیاتی شاعر ہیں۔ دوسرے حصہ میں وہ مکمل طور پر شاعر حیات نظر آتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۵

ہیں۔ جمالیاتی شاعری کے لیے انھوں نے زبان کو بھی رومانی پیکر میں ڈھالا۔ بنگلہ شاعری کو عالمی ادب میں عظیم شاعری کا ہم پلہ بنانے کا سہرا ٹیگور ہی کے سر ہے۔ انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار نہ صرف بنگالی بلکہ انگریزی میں بھی کیا جس نے گیتانجلی کو مغربی ادب کا ایک جزو بنا دیا۔ یہ شاعری جامد و ساکن نہیں بلکہ خیالات کے ٹھہراؤ میں بھی خوابیدہ طوفان کا احساس ہوتا ہے۔

ٹیگور کی ابتدائی شاعری کے مجموعے "سندھیا گیت" اور "مانسی" ہیں جن کی اشاعت کے بعد ہی ٹیگور کو ایک نئی ہئت کے شاعر کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے کچھ غنائی ڈرامے اور تاریخی ناول لکھے۔ پھر ان کی شاہکار تصنیف گیتانجلی ((نغمہ)) منظر عام پر آئی۔ ٹیگور کی شاعری میں تصوف کی جو شبیہ جلوہ گر ہے، گیتانجلی میں وہ شبیہ بہت نمایاں ہے۔ یہ بنگالی میں لکھی گئی اور ۱۹۱۰ میں شائع ہوئی پھر جب اس کا انگریزی ترجمہ لندن کی انڈیا سوسائٹی نے پہلی بار شائع کیا تو اس کی شہرت لندن کے ادبی حلقوں میں پھیل گئی۔ ۱۹۱۳ میں گیتانجلی کو ادب کا نوبل انعام ملا۔ پھر اور بہت سی تخلیقات یکے بعد دیگرے منظر عام پر آئیں۔ نظموں کے علاوہ ٹیگور نے گیت بھی لکھے جو رومانی بھی ہیں اور قومی بھی۔ ان گیتوں کی تعداد دو ہزار تک پہنچتی ہے۔ نظموں اور گیتوں کے قابل ذکر مجموعے "نے ودیا"، "پربھات سنگیت"، "سنجیونی"، "پرباشنی"، "سونار تری"، "کلپنا"، کھنی کا" اور "آکاش پردیپ" وغیرہ ہیں۔

نثر نگاری میں بھی وہ امتیازی مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے مختلف موضوعات مثلاً مذہب، فلسفہ، حسن و عشق، تنقید، سوانح اور طنز و مزاح پر قلم اٹھایا۔ ان میں سر فہرست مختصر افسانے ہیں جن کی تعداد تقریباً ایک سو ہے۔ ٹیگور کی غنائی شاعری کی طرح ان کے تاٹر سے بھرپور کہانیاں آج تک بنگالی زبان کا اہم حصہ ہیں۔ گہری حقیقت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۶

پسندی، دلکش قومی تخیل، جذبات اور مبالغہ سے گریز، انسانیت کا وسیع تصور، ناانصافی اور ظلم سے بیزاری ان افسانوں کا تار و پود ہیں۔ افسانوں کے کچھ مجموعوں کے نام "گلپ کچھ"، "گلپ واسک"، "پالا کاتا" اور "تین سکھی" ہیں۔ ۱۹۱۰ میں "گورا" لکھ کر ٹیگور نے اپنی ناول نگاری کا سکہ بھی بٹھا دیا۔ ان کی جن ناولوں نے بنگالی فکشن کی روایت کو مستحکم کیا نا میں "بہو رانی"، "راج رشی"، "چوکھیربالی"، "نوکا ڈوبی" اور "جوگا جوگ" نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ افسانوں اور ناولوں کے ساتھ ٹیگور نے رمشیاتی اور علامتی ڈرامہ نگاری بھی کی اور ایسے ڈرامے پیش کیے جو سنگیت اور ناٹیہ کی تاریخ میں بہت اہم ہیں۔ نثری ڈراموں اور غنائی تمثیلوں میں قابل ذکر "وسرجن"، "والمیکی پریتبھا"، "نلنی"، روپ رتن"، "چنڈالکا"، "کال مر گیا" اور "راجا رانی" ہیں۔

""پنگ بھوت" ((پانچ عناصر)) ٹیگور کے ادبی و جمالیاتی تنقید پر مشتمل اعلٰی پایہ کی تصنیف ہے۔ متفرق تحریریں ان کے علاوہ ہین، مثلاً بنگلہ زبان کی صوتیات کے بنیادی مسائل پر بھی قلم اٹھایا۔ اس سلسلے کی دو اہم کتابیں "شبد تتوا" ((علم الفاظ)) اور "بنگلہ بھاشا پر یچئی" ((مقدمہ بنگلہ زبان)) ہیں۔ "جیون سریتی" ((یادیں)) خود نوشت سوانح حیات ہے۔ ٹیگور نے اپنی زندگی میں بے شمار خطوط لکھے۔ ان خطوط کے مجموعے جو شائع ہو چکے ہیں بنگالی ادب میں خوشگوار اضافہ ہیں۔

ٹیگور کی شخصیت کا ایک اور قابل ذکر پہلو ان کی مصوری ہے۔ انھوں نے مصوری کی باقاعدہ تربیت نہیں پائی تھی لیکن ۶۰ سال کی عمر میں وہ انوکھے اسٹائل کے مصور بن گئے۔ ان کے برش نے مصوری اور نقاشی کو ایک نئی زبان اور لہجہ عطا کیا۔ وہ ایک اعلٰی درجہ کے موسیقار بھی تھے۔ ان کی بنائی ہوئی دھنیں بنگال کا مقبول سنگیت بن گئیں جسے "رویندرا سنگیت" کہا جاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۷

ٹینی سن، الفریڈ ((۱۸۹۲ – ۱۸۰۹))

Tennyson, Alfred

ٹینی سن مشہور انگریزی شاعر ہے۔ کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔ ابھی پندرہ سال کا تھا کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ گھر کی مالی حالت اچھی نہین تھی۔ ساری ذمہ داری اسی کو اٹھانی پری۔

ٹینی سن کو لڑکپن سے شاعری کا شوق تھا۔ ابھی چودہ ((۱۴)) سال کا تھا کہ ایک ڈرامہ لکھا اور ۱۸ سال کی عمر میں "دو بھائیوں کی نطمیں" نامی کتاب شائع کی۔ اس میں ٹینی سن کے علاوہ اس کے دو بھائیوں فریڈرک اور چارلس کی بھی نظمیں تھیں۔ کیمبرج میں اس نے ایک نظم "ٹمبکٹو" لکھی جس پر اسے انعام ملا۔ یہیں اس کی ہیلم

Hallam

کے ساتھ نہایت گہری دوستی ہو گئی۔ اسی زمانہ میں اس نے اپنی نظموں کا ایک اور مجموعہ شائع کرایا جس میں اس کی مشہور نظمیں "دی لوٹس ایٹرز"

The Lotus Eaters

"لیڈی آف شارلوٹ" اور "اے ڈریم آف فئیر وومن"

A Dream of Fair Woman

شامل ہیں۔

۱۸۳۳ میں ہیلم کا انتقال ہو گیا جس کا ٹینی سن کو گہرا صدمہ ہوا۔ اسے جدید مادیت پرستی اور سائنٹفک خیالات اور سماج پر شبہ ہونے لگا اور اب اسے ایک پائیدار عقیدہ کی تلاش شروع ہوئی۔ اسی زمانہ میں اس نے "یولے سس"، "آرتھر کی موت" اور "بریک بریک بیرک"

Break, Break, Break

جیسی نظمیں لکھیں۔ اس نئے مجموعہ کو بہت پسند کیا گیا۔ اس کی شاعرانہ عظمت مسلمہ ہو گئی اور سرکار سے اسے دو سو پونڈ کی پنشن مقرر ہو گئی۔ ۱۸۵۰ میں اس نے ایک نظم "یاد میں"

In Memoriam

لکھی۔ یہ ایک قسم کا نوحہ ہے جس میں ٹینی سن نے ہیلم کی وفات کے بعد کے اپنے تمام شکوک و شبہات کو پیش کیا ہے اور لافانیت پر اپنے یقین کا اظہار کیا ہے۔ اسی سال اسے درباری شاعر کا خطاب ملا اور اس نے "ایمیلی سیل ووڈ"

Emily
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۸

Sellwood

سے شادی کی۔ بحیثیت درباری شاعر اس نے کئی نظمیں مثلاً "ڈیوک آف ولنگٹن" اور "آئیڈلس آف دی کنگ"

Idylls of the King

وغیرہ لکھیں۔ اس نے کئی منظوم ڈرامے اور "اینک آرڈن"

Enoch Ardin

بھی لکھا۔ اس کے اپنے عہد میں ٹینی سن کی اتنی قدر نہین ہوئی لیکن بعد میں وہ ایک عظیم شاعر اور اپنے عہد کا سچا نمائندہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس کی تصنیفات کے کئی اچھے اڈیشن نکلے ہیں۔ اس کے بیٹے اور پوتے نے اس کی سوانح عمریاں بھی لکھی ہیں۔

ثاقب لکھنوی، ذاکر حسین قزلباش ((۱۹۴۶ – ۱۸۶۹)) : ثاقب کے اجداد نے ترک وطن کرنے کے بعد ہندوستان میں بمقام اکبر آباد سکونت اختیار کر لی تھی۔ یہیں ثاقب کی ولادت ہوئی۔ فارسی اور عربی کا درس بھوپال میں لیا جہاں ان کے والد بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ پھر سینٹ جانس کالج آگرہ میں تعلیم کی تکمیل کی۔ زندگی کا آغاز تجارت سے کیا جس میں خسارہ ہوا۔ پھر کولکتہ میں سفیر ایران کے پرائیویٹ سکریٹری بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد ریاست محمود آباد میں میر منشی مقرر ہوئے۔ راجہ محمود آباد کے درباری شاعر قرار دیے گئے۔

بیس سال کی عمر سے ثاقب نے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ چھپن سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ دیوان شائع ہو چکا ہے۔

جارج پیش شور میرٹھی : دیکھیے شور، جارج پیس ((پیش))

جام جم : رکن الدین اوحدی کی فارسی مثنوی ہے جس میں پچاس ہزار اشعار ہیں۔ وہ ابو حامد اوحد الدین کرمانی کا مرید تھا۔ جام جم میں اس نے سلطان ابو سعید ((۱۳۱۶ – ۱۳۳۵)) کی مدح کی ہے اور مثنوی کو اس کے وزیر غیاث الدین محمد کے نام معنون کیا ہے۔ یہ ۱۳۳۲ میں لکھی گئی۔ یہ مثنوی اجتماعی اور تربیتی مسائل اور عبرت انگیز
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۹

مضامین پر مشتمل ہے۔ آخرت میں مرشد کی صفات، سالک کے مقامات اور عارفانہ اصطلاحات کا ذکر دل نشیں انداز میں کیا ہے۔

جام جم بحر خفیف یعنی حدیقہ کی بحر میں ہے لیکن یہ مثنوی حدیقہ سے زیادہ فصیح اور سلیس ہے۔ غزل میں بھی ان کا طرز منفرد ہے۔ تقریباً ۷۶ ہزار اشعار کا ایک دیوان ہے۔ ان کی غزلیں سلاست اور صفائی میں بے مثال ہیں۔

جامع اللغات : یہ لغت غلام سرور لاہوری نے ۱۸۹۰ میں دو جلدوں میں شائع کی۔ باعتبار حروف تہجی اس میں ۳۳ ابواب، اور ہر باب میں پانچ فصلیں ہیں۔ لغات کی ترتیب الف بائی

Alphabetical

ہے، لیکن فصول کی ترتیب آخری حرف کے اعتبار سے ہے۔

جامع عباسی : شیخ محمد بن حسین عاملی ملقب بہ بہاء الدین معروف بہ شیخ بہائی کی فارسی تصنیف ہے۔ وہ شاہ عباس کے دربار کے بزرگ علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔ انھوں نے ((۸۸)) کتابیں لکھیں۔ جامع عباسی کا موضوع شیعی احکام فقہ ہے۔ اس کی شرح علامہ محمد ابن خاتون نے حیدر آباد دکن میں لکھی تھی۔

جامعہ عثمانیہ : دیکھیے عثمانیہ یونیورسٹی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی : ۱۹۲۰ میں اس ادارے کی بنیاد پڑی۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں خلافت اور عدم تعاون کی تحریک نے زور پکڑا تو بعض مسلم قائدین نے اپنے تعلیمی اداروں کو حکومت کی امداد سے چلانا مناسب نہیں سمجھا۔ مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ کالج کو بھی سرکاری امداد سے آزاد کرنا چاہا۔ ارباب کالن کے خیالات مختلف تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بیشتر مسلم طلبا سرکاری ملازمت چاہتے ہیں اور علی گڑھ کالج ان کی امیدوں کا مرکز
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۰

ہے۔ یہ ادارہ بغیر سرکاری امداد کے نہیں چل سکتا۔ کچھ لوگ جو مولانا محمد علی کے مرید تھے، اپنے ہم نواؤں کو لے کر الگ ہو گئے۔ ۱۹۲۵ میں جامعہ کو دہلی منتقل کیا گیا اور اس ادارے کو قوی رہنماؤں کی ہمدردیاں حاصل ہو گئیں۔ حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری جیسے حضرات اس کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ جامعہ کو بنانے میں اس کے اساتذہ کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ ان میں ڈاکٹر ذاکر حسین سر فہرست ہیں۔ ان کے رفقا پروفیسر محمد مجیب اور ڈاکٹر عابد حسین کی خدمات بھی اہم ہیں۔ ان حضرات نے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کی تھی۔ بہت معمولی تنخواہ پر جامعہ میں کام کرتے رہے۔ انھوں نے سادہ زندگی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اپنے نصاب تعلیم میں انھوں نے صنعت و حرفت کو بھی شامل کیا تاکہ طلبا جامعہ سے باہر نکلیں تو کسی کے محتاج ہوئے بغیر اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔

اقامتی ادارہ ہونے کی وجہ سے جامعہ کا ماحول علمی ہے۔ یہاں ایک مکتبہ بھی قائم ہے جو اردو دنیا میں مکگتہ جامعہ کے نام سے معروف ہے۔ بے شمار کتابیں شائع کی ہیں۔ یہاں سے دوسری زبانوں کے ترجمے، بچوں کا ادب اور مختلف علوم و ادبیات سے متعلق کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ایک معیاری ماہنامہ "جامعہ" ۱۹۲۳ سے اب تک برابر نکل رہا ہے۔ اس کا اپنا پریس ہے اور دکانوں کی شاخیں دہلی کے علاوہ علی گڑھ اور ممبئی میں قائم ہیں۔ جامعہ کو اب مرکزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔

جامی، مولانا نور الدین عبد الرحمن ((۱۴۹۲ – ۱۴۱۴)) : ملا نور الدین عبد الرحم جامی صوبہ خراساں کے ایک قصبہ خرجرد میں پیدا ہوئے جو ولایت جام میں واقع ہے۔ والد کا نام نظام الدین دشتی اور دادا کا شمس الدین دشتی تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام محمد شیبانی سے ملتا ہے جو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے خاص تلامذہ میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۱

تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ ہرات اور پھر سمرقند جہاں علم و ادب کی تحصیل کی اور دینی علوم، ادب اور تاریخ میں کمال حاصل کیا۔ تصوف کا درس سعد الدین محمد کاشغری سے لیا جن کا سلسلہ تین واسطوں سے حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند سے ملتا ہے۔ اپنے مرشد کے وصال کے بعد مسند ارشاد پر بیٹھے۔ حج بیت اللہ کے لیے گئے اور دمشق سے ہوتے ہوئے تبریز گئے اور پھر ہرات پہنچے۔ ابو الغازی سلطان حسین بالیقرا نے ۱۴۶۷ میں سلطان ابو سعید تیموری کو شکست دے کر ہرات پر قبصہ کر لیا۔ وہ ادب نواز اور ادیبوں کا سرپرست تھا۔ اس کی وزیر علی شیر نوائی جامی کے معتقدین میں تھا۔ وہ خود ادب اور شاعر تھا۔ اس کی کتاب "خمسۃ المتحیرین" مستند سمجھی جاتی ہے۔ جامی نے بادشاہوں کی بھی تعریف کی جو مبالغہ سے پاک ہے۔ وہ ایک صوفی صافی اور اپنے دور کے بہت بڑے عالم تھے۔ تصوف کے مجامین میں انھوں نے قدما کی پیروی کی ہے۔ انھوں نے سات مثنویاں لکھیں جو "ہفت اورنگ" کے نام سے مشہور ہیں۔ مثنویاں لکھتے وقت انھوں نے نظامی کو پیش نظر رکھا ہے۔ "ہفت اورنگ" میں پہلی مثنوی سلسلۃ الذہب ہے۔ اس میں دینی، اخلاقی اور فلسفیانہ مسائل ہیں۔ اسلامی عقائد اور اصول ہیں اور بعض قرآنی آیات کی تفسیر ہے۔ یہ مثنوی سلطان حسین بایقرا کے نام معنون کی ہے۔ یہ نظامی کی مثنوی ہفت پیکر کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ دوسری مثنوی "سلامان و ابسال" ۱۴۸۰ ہے۔ یہ ایک عاشقانہ قصہ ہے جس میں صوفیانہ مطالب بیان کیے ہیں۔ اس کو "اوزون بن آق قویونلو" کے بیٹھے یعقوب بیگ سے منسوب کیا ہے۔ تیسری مثنوی "تحفۃ الاحرار" نظامی کی "مخزن الاسرار" کے جواب میں ۱۴۸۱ میں لکھی گئی۔ یہ مثنوی سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگ خواجہ ناصر الدین عبید اللہ المقلب بہ "خواجہ احرار" کی مدح میں لکھی اور تصوف و عرفان کے کئی مسائل پر بحث کی ہے۔ چوتھی مثنوی انھیں مسائل پر " سبحۃ الابرار" لکھی۔ یہ سلطان حسین بایقرا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۲

کے نام معنون کی ہے۔ اس میں لطیف حکایتیں اور نادر تمثیلیں ہیں۔ اس میں عطار اور مولانا روم کا اتباع کیا ہے۔ "یوسف زلیخا" پانچویں مثنوی ہے۔ جو نظامی کی "خسرو شیریں" کے جواب میں لکھی ہے۔ اس نے بہت زیادہ شہرت پائی اور ہندوستان میں درس میں شامل رہی ہے۔ اس کا انتساب بھی سلطان حسین کے نام ہے۔ چھٹی مثنوی "لیلی مجنوں" ہے۔ یہ نظامی کی مثنوی "لیلی مجنوں" کے جواب میں ہے۔ یہ چار مہینے میں لکھی گئی۔ اس مین ۳۷۶۰ اشعار ہیں۔ آخری مثنوی "خرد نامہ اسکندری"، نظامی کے "سکندر نامہ" کا جواب ہے اور سلطان حسین ہی کے نام اس کا انتساب ہے۔ اس میں شاعر نے اپنے صاحبزادہ کو جہاں نصیحتیں کی ہیں وہ حصہ نہایت بلند پایہ ہے۔

جامی نے نثر میں بھی کئی کتابیں لکھی ہیں جو مذہبی، لسانی اور تاریخی موضوعات پر ہیں۔ "نقد الفصوص فی شرح نقش الفصوص" محی الدین ابن عربی کی کتاب "فصوص الحکم" کی شرح اور تفسیر ہے۔ نقش الفصوص فصوص الحکم کا خلاصہ ہے۔ یہ ۱۴۵۸ میں لکھی گئی۔

"نفحات الانس"، یہ ایک مشہور تذکرہ ہے۔ جو علما، فضلا اور اولیاء کرام کے حالات پر مشتمل ہے۔ یہ دراصل "طبقات الصوفیہ. مصنف محمد بن حسین سلمی نیشاپوری ((م ۱۰۸۸) کی عربی کتاب کا ادبی فارسی میں ترجمہ ہے جس میں جامی کے دور تک کے صوفیائے کرام کے ھالات کا اضافہ کیا گیا ہے۔

لوائح۔ یہ تصوف کے موضوع پر مقالات اور رباعیات پر مشتمل ہے۔ لوامع۔ ابن فارس کے خمریہ قصیدہ کی شرح ہے۔ شواہد النبوت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی مدح میں ہے۔ اشعتہ اللمعات، فخر الدین عراقی ((م۔ ۱۲۸۹) کی تصنیف لمعات کی تشریح ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۳

بہارستان۔ گلستان کی انداز پر لکھی گئی ہے۔ مختصر حکایتیں اور ظریف نکات ہیں۔ شعرا کا ذکر ہے۔ جامی نے یہ کتاب اپنے لڑکے یوسف ضیاء الدین کے لیے لکھی۔ یہ گلستاں سے مرتبہ میں پست ہے۔

ان کے علاوہ جامی نے مذہبی، ادبی اور علمی مسائل پر کئی رسائی لکھے مثلاً چہل حدیث، مناسک حج، رسالہ تہلیلیہ، رسالہ در علم قوافی، رسالہ موسیقی، تجنیس الحظ، منشات، فوائد الضیاء فی الکافیہ شرح ((شرح ملا جامی)) وغیرہ۔ بعض تذکرہ نگار ان کی تصانیف کی تعداد ننانوے بتاتے ہیں اور بعض "جامی" کے اعداد کے لحاظ سے چون ((۵۴))۔

تذکرہ نگاروں نے ان کا نام نہایت احترام سے لیا ہے۔ وہ تصوف و عرفان میں ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں نے نہ صرف ایران اور ہندوستان کے ادب کو متاثر کیا بلکہ ترکی ادب بھی متاثر ہوا۔

جامی نے ۱۴۹۲ میں ہرات میں انتقال کیا۔

ومن دخلہ کافاً آمناً : مادہ تاریخ وفات ہے۔

جان جاناں، مرزا مظہر ((۱۶۹۹ – ۱۷۸۱)) : شمس الدین نام، جان جاناں عرف، مظہر تخلص تھا۔ رہنے والے اکبر آباد کے تھے، لیکن دلی میں آ کر بس گئے تھے۔ والد دربار عالمگیری میں منصب دار تھے۔ مظہر صوفی منش تھے۔ خانقاہوں میں زندگی بسر کی اور ایسی بزرگی و فضیلت حاصل کی کہ سینکڑوں لوگ ان کے مرید ہو گئے۔ درویش کامل اور صاحب دل تھے۔ حدیث و فقہ اور شعر میں مہارت رکھتے تھے۔ جو لطافت و نزاکت مزاج میں تھی وہی ان کے شعروں میں جھلکتی ہے۔ مظہر عاشق مزاج تھے۔ کلام میں عاشقانہ مضامین عجیب تڑپ دکھاتے ہیں۔ آخر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۴

میں اردو میں غزل گوئی ترک کر دی تھی پھر بھی اشعار کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ جو سودا اور میر کی زبان ہے وہی ان کی ہے۔ ابتدائی کلام میں فارسیت زیادہ ہے۔

علم و فضل اور شعر و شاعری کے ساتھ آپ کا اخلاق، شگفتہ دلی اور لطافت مزاجی مشہور تھی۔ آپ کی تہذیب و متانت، قناعت اور پابندی وضع ضرب المثل تھی۔ استغنا کا یہ عالم تھا کہ ساری عمر کسی بادشاہ یا وزیر کے سامنے سر نیاز خم نہیں کیا۔ سچ یہ ہے کہ انھوں نے نازک مزاجی اور موزونیت کے ساتھ درویشی کا پایہ بھی بلند رکھا۔ ان کے کلام زبان اردو کی تاریخ ارتقا میں ایک خاص درجہ اور خصوصیت رکھتا ہے۔ آپ نے نہ صرف زبان کو صاف کیا بلکہ اس میں فارسی کی بھی نئی نئی ترکیبیں اور خیال داخل کیے۔ قدیم طرز ایہام گوئی کو ترک کیا۔ الفاظ کے تراش و حسن پر ان کی نظر زیادہ رہتی ہے۔ مذاق شعری و اصلاح سخن زبان کے اعتبار سے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ سارا کلام جذبات اور تاثیر کے ساتھ تصوف کے واردات قلبی سے بھی مالا مال ہے۔

تصنیفات میں صرف ایک ناتمام دیوان اردو کا ہے۔ پورا دیوان کہیں نہیں ملتا۔ ایک دیوان فارسی کا بھی ہے جو ایک ہزار ابیات پر مشتمل ہے۔

جان ڈاس پاسو ((۱۹۶۱ – ۱۸۹۸))

John Dos Paaos

شکاگو میں پیدا ہوئے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور ہسپانیہ میں تعمیر کاری کا مطالعہ کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں ایمبو لینس یونٹ اور میڈیکل کور کے ممبر کی حیثیت سے شرکت کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ درجن ناولوں کے مصنف تھے۔ صحافتی مضامین اور سیاسی موضوعات پر بھی متعدد کتابیں ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۵

جان گلکرسٹ، ڈاکٹر ((۱۸۴۱ – ۱۷۵۹)) : جان گلکرسٹ اڈنبرا میں پیدا ہوئے۔ وہیں تعلیم کی تکمیل کی۔ ۱۷۸۳ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت میں بحیثیت میڈیکل ڈاکٹر داخل ہوئے۔ بہت جلد اپنے ذاتی شوق سے اردو، سنسکرت، فارسی اور دیگر مشرقی زبانوں سے واقفیت حاصل کر لی۔ گلکرسٹ کا ابتدا ہی سے یہ خیال تھا کہ ملک میں کسی دیسی زبان بالخصوص اردو کو فارسی کی جگہ ملنا چاہیے۔ ۱۸۰۰ میں جب فورٹ ولیم کالج قائم ہوا تو جان گلکرسٹ ہندوستانی پروفیسر کے عہدہ پر متعین ہوئے۔ ۱۸۰۴ میں علالت کی وجہ سے مستعفی ہو کر وطن کو واپس چلے گئے۔ جہاں اڈنبرا یونیورسٹی نے ہندوستانی زبانوں کی خدمت کے صلہ میں ایل۔ ایل۔ ڈی۔ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔

ڈاکٹر گلکرسٹ کو کوششوں سے اردو سرکاری زبان بننے کے لائق ہوئی۔ گلکرسٹ کی تصانیت کی تعداد 12 سے زیادہ ہے جن میں سے قابل ذکر یہ ہیں : انگریزی ہندوستانی لغت، مشرقی زبان داں، ہندوستانی زبان کی قواعد، لغت اور قواعد کا ضمیمہ، ہندوستانی زبان کا مختصر مقدمہ، اتالیق ہندوستانی، مشرقی قصے اور ہندی داستاں وغیرہ۔

جانسن، سیمویل ((۱۷۸۴ – ۱۷۰۹)) :

Johnson, Samuel

انگریزی کا مشہور ادیب ایک جلد ساز کے غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ غربت اور خرابی صحت کا اس کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔ ۱۷۲۸ میں وہ تعلم کے لیے آکسفورڈ گیا لیکن ایک سال بعد تعلیم چھوڑنی پڑی، اس لیے کہ پیسہ نہیں تھا۔ ۱۷۳۵ میں اپنے سے بیس سال بڑی ایک بیوہ سے شادی کی اور ایک خانگی اسکول شروع کیا لیکن وہ بھی نہ چل سکا۔ ۱۷۳۷ میں وہ لندن گیا اور وہاں اسے ایک رسالہ میں نوکری مل گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۶

جانسن ایک خبطی قسم کا انسان تھا۔ صورت سے وحشت ٹپکتی تھی۔ عادت اور برتاؤ بھی ایسا ہی تھا البتہ باتوں میں اس سے کوئی سبقت نہیں لے جا سکتا تھا۔ ادبی ذوق میں وہ کسی کی نہیں مانتا تھا۔ اس میدان میں وہ ڈکٹیٹر تھا۔ جانس اپنے رسالہ کے لیے مضامین، نظمیں، سوانح عمریاں اور پارلیمنٹ کی روداد لکھا کرتا تھا۔

شروع میں اس نے اپنی نظمیں ایک فرضی نام سے شائع کیں اور مشہور شاعر پوپ نے ان کی بہت تعریف کی۔ بعد میں اس کی نظموں اور مضامین کے مجموعے بھی شائع ہوئے اور اس نے برطانیہ کی ادبی زندگی میں اہم مقام حاصل کر لیا۔

اپنی تصنیفات سے جانسن اپنا معاشی مسئلہ کبھی حل نہ کر سکا۔ چنانچہ ۱۷۶۲ میں حکومت نے اس کے لیے پنشن مقرر کی دی۔ ۱۷۶۳ میں اس کی ملاقات باسول سے ہوئی جس نے بعد میں اس کی معرکتہ الآرا سوانح عمری لکھی۔ اس کے ساتھ مل کر اس نے ۱۷۶۵ میں شیکسپیئر کے ڈراموں کا مجموعہ مرتب کر کے شائع کیا۔ اس نے اس کا خود اپنا لکھا ہوا طویل مقدمہ اور تنقیدی نوٹ شامل ہیں۔ اس کا آخری بڑا کارنامہ شاعروں کی زندگی ہے۔ یہ دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس میں جانسن کی سوانح نگاری اور ادبی تنقید کی صلاحتیں خوب ابھر کر آئی ہیں۔

جاں نثار اختر : دیکھیے اختر، جاں نثار۔

جاہ، محمد حسین ((۱۸۹۹)) : انیسویں صدی کے اواخر میں تین بڑے داستان گو لکھنؤ میں جمع ہو گئے تھے۔ جاہ کا نام ان میں سر فہرست رکھا جا سکتا ہے۔ بقیہ دو کے نام ہیں احمد حسین قمر اور شیخ تصدق حسین۔ محمد حسین جاہ غالباً ان میں سب سے نو عمر تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۷

جاہ کے بارے میں ہمیں بہت کم معلومات ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ منشی فدا علی کے شاگرد تھے۔ لیکن خود جاہ کی داستان "طلسم فصاحت" سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ احمد حسین قمر کے شاگرد رہے ہوں گے۔ اسی "طلسم فصاحت" کی بنا پر جاہ کو غالباً شہرت ملی اور منشی نولکشور نے انھیں "طلسم ہوش ربا" لکھنے پر متعین کیا۔ جاہ نے اس داستان کی اول چار جلدیں لکھیں۔ یہ بالترتیب ۱۸۸۳، ۱۸۸۴، ۱۸۸۸/۱۸۸۹ اور ۱۸۹۰ میں شائع ہوئیں۔ جلد چہارم کی تحریر یا اشاعت کے دوران جاہ اور منشی نول کشور میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ لہٰذا اس جلد کی اشاعت کے بعد جاہ نے منشی موصوف کی ملازمت ترک کر کے منشی گلاب سنگھ لاہوری کی شاغ لکھنؤ میں ملازمت کر لی۔ وہاں انھوں نے "طلسم ہوش ربا" کے کچھ اجزا لکھے، جو شاید شائع بھی ہوئے، لیکن اب نایاب ہیں۔ اس کے علاوہ جاہ نے کیا لکھا، کچھ معلوم نہیں۔

جاہ کا اسلوب فارسی آمیز، نفیس اور علمی ہے۔ وہ رزم، بزم، طلسم اور عیاری چاروں میں یدطولٰی رکھتے ہیں۔ ان کا تخیل بہت توانگر ہے اور انوکھے طلسموں، کرداروں اور عیاریوں کی تخلیق کے وہ بے نظیر ماہر ہیں۔ ان کی حس مزاح اور مختلف محاوروں، روزمروں پر ان کی دسترس ان کے بیانیہ کو مزید لطف اور تنوع عطا کرتی ہیں۔طلسموں کے بیان میں انھوں نے بعض ایسی چیزیں بھی لکھی ہیں جو آج لکھی جائیں تو سائنس فکشن کہلائیں۔

"طلسم ہوش ربا" کو جو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس میں جاہ کی انشا پردازی، نثر کے حسن، اور ابداع کو بھی دخل ہے۔ "طلسم ہوش ربا" کی جلد سوم کو ان کا، بلکہ اردو داستان کا شاہکار کہا جا سکتا ہے۔ حالانکہ انھوں نے بیان کیا ہے کہ یہ جلد انھوں نے تقریباً قلم برداشتہ لکھی اور دورانِ تحریر انھیں بیٹے کی علالت اور موت کا غم بھی اٹھانا پڑا۔
 
Top