اردو زبان کے نادر الاستعمال الفاظ

حسان خان

لائبریرین
لوتھ (loth) اسمِ مونث = کسی جاندار کا مردہ جسم، لاش

مرزا محمد رفیع سودا نے اپنے ایک مرثیے میں اس لفظ کا استعمال اس طرح کیا ہے:

"آپس میں پھر یہ بولے کہ مت لُوٹ پر مرو
لوتھوں سے بوترابیوں کی سر جدا کرو
نیزوں پہ اپنے اپنے انہیں جلد تم دھرو
مال و منال تھا جو کچھ ہم ایک جا کیا"

"بے سر رہیں جو لوتھیں دیا خاک و خوں میں ڈال
چاہا کہ اُن کو گھوڑوں سے کروا دیں پائمال
پہونچا جو ایک شیر تو ڈر اُن سے وہ شغال
اپنے خیالِ خام کو دل سے جدا کیا"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سلم (sullam) اسمِ مذکر = سیڑھی، زینہ، نردبان

رسائی میرے اوجِ فکر تک ہو گی نہ حاسد کو
غرور آگے مرے کرتا ہے کیا تحصیلِ سُلّم کا
(امام بخش ناسخ)
 

حسان خان

لائبریرین
تکاسل (takaasul): سستی، کاہلی

شیخ سعدی کی فارسی نظم 'کریما' کی اردو شرح بعنوانِ 'گوہرِ بے بہا' میں مولوی محمد انعام اللہ صاحب نے اس لفظ کا استعمال اس طرح کیا ہے:

"بابِ حرص کے بعد طاعت و عبادت کے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب تو نے حرص کی مذمت و برائی سن لی تو اس کو چھوڑ کر طاعت و عبادت میں مشغول و مصروف ہو، اور اس میں ہرگز تکاسل و تساہل اور سستی مت کر۔۔۔۔"
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کسل بھی عربی لفظ ہے جو احآدیث کی دعاؤں میں بمعنی سستی استعمال ہوا ہے۔ اسی سی تکاسل بنا ہے۔
اللھم انی اعو ذبک من العجز والکسل۔
 

حسان خان

لائبریرین
مینو (meenoo) = جنت، بہشت، فردوس

کوسوں ضیا ہے وادیِ مینو سرشت میں
گویا چمک رہے ہیں ستارے بہشت میں
(میر انیس)
وادیِ مینو سرشت = ایسی وادی جس کی فطرت بہشت جیسی ہو۔

گلشن خجل تھے وادیِ مینو اساس سے
جنگل تھا سب بسا ہوا پھولوں کی باس سے
(میر انیس)
وادیِ مینو اساس = وہ وادی جو بہشت کا ٹکرا معلوم ہوتی ہو، وہ وادی جس کی اساس بہشت پر یا بہشت جیسی ہو۔
 

محب اردو

محفلین
ماشاء اللہ بہت اچھا سلسلہ ہے ۔ اللہ اس کو جاری و ساری رکھے ۔
سلم (sullam) اسمِ مذکر = سیڑھی، زینہ، نردبان
رسائی میرے اوجِ فکر تک ہو گی نہ حاسد کو
غرور آگے مرے کرتا ہے کیا تحصیلِ سُلّم کا
(امام بخش ناسخ)
ذرا اس شعر کی آسان لفظوں میں تشریح کردی جائے تو بہتر رہے گا ۔
 

حسان خان

لائبریرین
ذرا اس شعر کی آسان لفظوں میں تشریح کردی جائے تو بہتر رہے گا ۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر مجھ سے جلنے والے شاعر کے پاس سیڑھی بھی آ جائے تب بھی وہ میری فکر کی بلندی تک پہنچ نہیں سکے گا، اس لیے اُس کا سیڑھی کے حصول پر غرور فضول ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
اصلِ کلام یہ ہے کہ اگر مجھ سے جلنے والے شاعر کے پاس سیڑھی بھی آ جائے تب بھی وہ میری فکر کی بلندی تک پہنچ نہیں سکے گا، اس لیے اُس کا سیڑھی کے حصول پر غرور فضول ہے۔
سلم سے محض سیڑھی ہی مراد نہیں ہے بلکہ جیساکہ شعر کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتاہے کہ سلم یہاں ایک معنی تو سیڑھی میں استعمال ہے لیکن شاعر کی اصل مراد یہ ہے کہ سلم منطق کی مشہور کتاب تھی جس کو اس دور کے علماء پڑھناپڑھاناقابل فخر خیال کرتے تھے۔اسی بناء پر شاعرناسخ نے نے یہاں "تحصیل سلم"کی بات کہی ہے۔ اگرچہ سیڑھی بھی مراد ہے لیکن ضمنی طورپر اورچونکہ ناسخ جس دور اورجس مزاج کے تھے اس میں ضلع جگت کا بہت خیال رکھاجاتاتھایہ شعربھی اسی کی مثال ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یل (yal) = پہلوان، دلاور، شجاع، مبارز، دلیر، قوی جنگجو

نامعلوم مصنف کی مثنوی 'رستم نامہ' میں یہ فارسی الاصل لفظ یوں استعمال ہوا ہے:

"ہوا غم زدہ وہ یلِ نوجواں
کہ رستم کا ہرگز نہ پایا نشاں"

"وہ میں ہوں دلاور یلِ نامجو
کہ دیوِ سپیدِ سیہ کار کو
کیا کشتہ اک دم میں ہنگامِ جنگ
نہ جانبر ہوئے مجھ سے شیر و پلنگ"

"یہ کہہ کر وہ دونوں یلِ نامدار
لگے کرنے کشتی کے فن آشکار"
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
ایک اصطلاح استعمال ہوتے دیکھی تھی
رستم پیل تن
کیا یہ فیل سے نکلا ہے یا اس کی وجہ تسمیہ کچھ اور ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
پَے سِپَر = پامال، پاؤں سے روندا ہوا

خفتہ خاکِ پے سپر میں ہے شرار اپنا تو کیا
عارضی محمل ہے یہ مشتِ غبار اپنا تو کیا
(علامہ اقبال)

ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے
مری خاکِ پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ
(علامہ اقبال)

کیے پے سپر جس نے ساتوں سمندر
وہ ڈوبا دہانے میں گنگا کے آ کر
(خواجہ الطاف حسین حالی)
 

حسان خان

لائبریرین
معتدبہ [mo'tad(d)-bih] = وافر، بسیار، فراواں، کثیر، تعداد یا مقدار میں زیادہ، بے شمار

"اس سے قبل اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو نثر کا دکن میں معتدبہ اور شمالی ہند میں مختصر سا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا۔ لیکن اس وقت تک جو کچھ لکھا گیا تھا وہ ایسا نہ تھا کہ کسی زبان کو دنیا کی تہذیب یافتہ اور شایستہ زبانوں کے ہمسر بنا سکے۔"
(اردو کے اسالیبِ بیان، ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
معتدبہ [mo'tad(d)-bah] = وافر، بسیار، فراواں، کثیر، تعداد یا مقدار میں زیادہ، بے شمار
"اس سے قبل اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو نثر کا دکن میں معتدبہ اور شمالی ہند میں مختصر سا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا۔ لیکن اس وقت تک جو کچھ لکھا گیا تھا وہ ایسا نہ تھا کہ کسی زبان کو دنیا کی تہذیب یافتہ اور شایستہ زبانوں کے ہمسر بنا سکے۔"
(اردو کے اسالیبِ بیان، ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور)
برادر حسان خان ۔۔۔معتد بہ کو نادر الاستعمال الفاظ میں شمار کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔یہ اصطلاح تو معتد بہ علمی ،فکری اور ادبی مضامین و موضوعات میں معتد بہ مقدار میں مستعمل دیکھی جاسکتی ہے۔:)
 
لوتھ (loth) اسمِ مونث = کسی جاندار کا مردہ جسم، لاش

مرزا محمد رفیع سودا نے اپنے ایک مرثیے میں اس لفظ کا استعمال اس طرح کیا ہے:

"آپس میں پھر یہ بولے کہ مت لُوٹ پر مرو
لوتھوں سے بوترابیوں کی سر جدا کرو
نیزوں پہ اپنے اپنے انہیں جلد تم دھرو
مال و منال تھا جو کچھ ہم ایک جا کیا"

"بے سر رہیں جو لوتھیں دیا خاک و خوں میں ڈال
چاہا کہ اُن کو گھوڑوں سے کروا دیں پائمال
پہونچا جو ایک شیر تو ڈر اُن سے وہ شغال
اپنے خیالِ خام کو دل سے جدا کیا"
لوتھ، میری مادری زبان ہندکو میں اب بھی استعمالِ عام ہے ، اور لفظ لوتھڑا بھی اسی سے نکلا ہے شاید لوتھ کا صغیر
 
آخری تدوین:
Top