قیصرانی

لائبریرین
فعل کی تذکیر و تانیث آخری لفظ کے لحاظ سے ہو گی۔ جیسے آب و ہوا قلم دوات، آب و غذا، آب و گل، کشت و خون، تاخت تاراج، عنایت نامہ، سالار منزل، خلوت خانہ وغیرہ مگر جب سو لفظ مل کر ایک خاص معنون ہین آئین تو یہ لحاظ نہین رہتا جیسے گلشکر، مگر پیچ و تاب مستثنٰے ہے۔
(ج) جب دونون جز مذکر ہون تو مذکر اور دونون مونث ہون تو مونث آئیگا جیسے آب و رنگ۔ آب و دانہ، آب و نمک، گلقند۔ مذکر استعمال ہوتے ہین اور آبو تاب،جستجو، گفتگو مونث ہین۔ مگر شیر برنج مستثنٰے ہے۔ حالانکہ دونون جز مذکر ہین لیکن پھر بھی مونث ہے۔ غالباً اسکی وجہ یہ ہے کہ فرنی اور کھیر دونون مونث ہین لہذا شیر برنج بھی ان کا مترادف ہونے کی وجہ سے مونث ہی استعمال ہونے لگا۔ نیشکر جس کے دونون جز مونث ہین مذکر آتا ہے، اس لیے کہ کنے کا متراد ہے۔ چونکہ گناہ مذکر مستعمل ہے اس لیے نیشکر بھی مذکر بولا جانے لگا۔
31۔ جن الفاظ کے آخر مین بند، آب (سوائ مہتاب کے جس کے معنی ایک قسم کی آتشباری کے ہین) بان، وان، ستان، سار، زار ہوتا ہے وہ اکثر مذکر ہوتے ہین جیسے سینہ بند، پاسبان، گلاب، پیچوان، گلستان، بوستان، (باستثنائی نام کتب معروفہ) کوہسار، لالہ زار وغیرہ
32۔ بعض الفاظ ایسے بھی ہین جو بعض معنون مین مونث ہین اور بعض معنون مین مذکر جیسے دوپہر جب دن کے خاص وقت کیلیئے (جو بارہ بجے ہوتاہے) آتا ہے تو مونث ہے
جیسے دوپہر ڈہل گئی۔
بمعنے دو ساعت مذکر ہی جیسے مجھے انتظار کرتے کرتے دوپہر ہو گئے۔
گزر گزرنے کا حاصل مصدر ہے۔ جیسے میرا گذر وہان ہوا۔
بمعنے بسر اوقات مونث جیسی اس مین میسری گزر نہین ہو سکتی۔
تکرار بحث اور جھگڑے کے معنون ہین مونث، جیسے میری اس سے تکرار ہو گئی۔
کسی لفظ کی مکرر لانے کی معنون مین مذکر جیسے اس لفظ کا تکرار فصیح نہین۔
آب پانی کے معنون مین مذکر۔
صفائی یا چمک کے معنون مین مونث جیسے موتی کی آب۔
مد ضد جزر جیسے دریا کا مد۔
جب اس خط کے معنون مین ہو جو حساب مین یا عرضی ہر کھینچا جاتا ہے تو مونث ہے۔ نعض نے مذکر بھی لکھا ہے۔
نوکری یا حساب کے صیغے کے معنون مین مونث۔ جیسے روپیہ کون سی مد سے دیا جائے۔
الف ممووہ کا مد مذکر ہے،
ترک (عربی) بمعنے دست بردازی مذکر ہے۔
یعنے نشان جو یاداشت کے لیے کتاب مین رکھ دیا جاتا ہے مونث ہے۔
"ترک اک اک جزو کی دو دوپہر ملتی نہین" (اسیر)
غرض ضد طول مذکر۔ جیسے اس مکان کا عرض
بمعنی التماس مونث جیسئ میری یہ عرض ہے۔
کف جھاگ کے معنون مین مذکر۔
تلوے یا ہتھیلی کے معنون مین مختلف فیہ۔
تاک تاکنا سے اسم مونث ہے۔
انگور کی بیل مذکر ۔
آہنگ قصد کے معنون مین مذکر۔
آواز کے معنون مین مونث
تال تالاب کے معنون مین مونث
وزن موسیقی کے معنون مین مونث
نال بندوق کی نلی مونث
ناف کے معنون مین مختلف فیہ
گہاس وغیرہ کی ڈنڈی مونث
لکڑی یا پتھر کا کندا جو پہلوان اٹھاتے ہین مذکر۔
بیل ایک خاص پھل کے معنون مین مذکر
بیل باقی سب معنون مین مونث
مثل بمعنی مانند مذکر
کاغذات مقدمہ مونث

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
لگن بمعنی ظرف یعنے طاس شمع' مذکربمعنے لگاؤ مونثمغرب بمعنے مقام غروب مذکربمعنی وقت شام مونث
33، چند الفاظ ایسے ہین جھنین اہل زبان مذکر و مونث دونون طرھ بولتے ہین یا بعض الفاظ ایسے ہین کہ وہ ایک جگہ مونث بولے جاتے ہین۔ اور دوسری جگہ مذکر جیسےسانس۱ قلم فکر۲ غور طرز نقاب۳مرقد شکرقند کٹار درود فاتحہ کلککیف جھونک سیل سبحہ ہن گزندنشان حروف تہجی مین میم اور جیم زنار۴ متاع۵قامت گیند۶ مالا۷۱۲۔ اہل دہلی و لکھنو دونون کی یہان مختلف فیہ ہین یعنی مذکر و مونث دونون طرح استعمال ہوا ہئ۔۳مختلف فیہ۴مختلف فیہ۵اہل دہلی مونث اور اہل لکھنو مذکر بولتے ہین۶اہل لکنو مذکر بولتے ہین۷ایضاًاملا عام طور پر مذکر ہے مگر اہل لکھنو مین مختلف فیہ ہے۔ مالا اہل دہلی مونث بولنے ہین مگر اہل لکھنو مین مختلف فیہ ہے
(2) تعداداسم عام یا تو واحد ہو گا یا جمع۔ اسی کو تعداد کہتے ہین
1۔ جن واحد مذکر الفاظ کے آخر مین ا یا ہ ہے وہ جمع ہین یا ے مجہول سے بدل جاتے ہین مثلاًواحد جمع واحد جمع واحد جمعلڑکا لڑکے ڈبہ ڈبے حصہ حصے
2- واحد مذکر الفاظ کے آخر مین یہ علامے ہو تو ان کی صورت واحد جمع مین یکسان رہتی ہے۔ مثلاً ایک مرد آیا، چار مرد آئے۔ میرے پاس ایک لیمپ ہے، اس کے پاس کئی لیمپ ہین، ایک ہاتھی آیا، چار ہاتھی آئے، ایک لڈو کھایا، چار لڈو کھائے، لیکن سہوان اور روان مستثنٰےہین، جمع مین ن کے ماقبل ا (ے) سے بدل جاتا ہے۔ یعنے جمع دھوین اور روئین ہوتی ہے۔
3- جن مونچ واحد الفاظ کے آخری ہو انکی جمع مین ان بڑ ہا دیتے ہین جیسے لڑکی لڑکیان، گھوڑی گھوڑیان ، کرسی کرسیان،
4- جن مونث واحد الفاظ کے آخر مین یا ہو انکی جمع مین صرف ن بڑہا دیتے ہین جیسے گڑیا سے گڑیان، چڑیا سے چڑیان۔
5۔ جن مونث واحد الفاظ کے آخر مین ا ہوتا ہے جمع مین اسکے بعد مین (ئ ن ) بڑہا دیتے ہین، جیسے گھٹائین، مامائین، تمنائین۔
بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
۶۔ جن کے آخر میں مذکورہ بالا علامات مین سے کوئی نہیں ہوتی انکی جمع کے لیے صرف ین (ے ن) بڑہادیتے ہین جیسے مالنین۔ گاجرین، کتابین، بیگمین، باتین، لیکن، بَھون مستثنیٰ ہے اسکی جمع بھوین آتی ہے۔
۷۔ بعض اسما کی جمع نہین آتی مثلاً
(ا)۔ وہ مذکر الفاظ جن کے آخر ا یا ہ نہو۔ جس کا نمبر ۲ مین ذکر ہوچکا ہے(مگر جب انکے بعد کوئی حرف ربط آجاتا ہے تو جمع مین استعمال ہوتے ہین)
(ب) عموماً اسماے کیفیت کی جمع نہین آتی، جب تک کوئی خاص وجہ نہو یعنی کیفیات مختلف جمع نہون۔ درد، بخار وغیرہ
(ج) دہاتون کی جمع استعمال نہین ہوتی۔ جیسے چاندی، سونا، تانبا وغیرہ۔ اگر مختلف ممالک یا مختلف اقسام کی کوئی معدنی شے ہو تو البتہ جمع آئے گی۔ جیسے اس نے مختلف قسم کے سونے جمع کیے ہین۔
روپیہ پیسہ کی اگرچہ جمع آتی ہے گر جب اسکے معنی دولت کے ہوتے ہیں تو واحد ہی استعمال ہوتا ہے مگر معنے جمع کے ہوتے ہین۔ جیسے اس کے پاس بہت روپیہ پیسہ ہے یعنے مال دار ہے۔ صرف روپیہ (واحدمین)بھی ان معنون مین آتا ہے۔ جیسے اس کے پاس بہت روپیہ ہے۔
یون بھی روپیہ جمع کے معون مین دونون طرح استعمال ہوتا ہے مثلاً اس نے دوہزار روپیہ خرچ کیا یا اس نے دوہزار روپے خرچ کیے دونوں طرح صحیح ہے۔
۸۔ ابتک صرف ایک فاعلی صورت کا بیان تھا۔ لیکن جب فاعل یا مفعول یا اضافت کے حروف یا حرف ربط اسما کے بعد آتے ہیں تو واحد اور جمع کی صورت میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ لہذا اب اسکا مفصل ذکر کیا جاتا ہے۔
جن حروف کے آجانے سے تبدیلی ہوتی ہے وہ یہ ہین۔ کا، کی، کے، نے، کو، پر، پہ، سے، تک ، مین۔
یہ حروف کے آنے سے یہ تبدیلیان ہوتی ہین۔
(۱)جن واحد الفاظ کے آخر مین ا یا ہ ہوتی ہے۔ وہ ان حروف کے آجانے سے (ے) مجہول سے بدل جاتے ہین۔ جیسے لڑکے نے، گھوڑے کو، حقے مین۔
(ا) بعض ہندی الفاظ جن مین سے اکثر ٹٹ سما (خالص سنسکرت کے) اور بعض مڈبھوا(یعنی بگڑی ہوئی سنسکرتکے) ہین جیسے
راجا، گھٹا، سبہا، پوجا، بھاکا، (بھاشا) چٹا، بالا، بیچا، ستیلا، انگیا، بچھیا، انا، ماما، دوا، داتا وغیرہ۔
(ب) اسماء جو عزیزون اور رشتہ دارون کے معنون مین آتے ہیں جیسے چچا، ابا، دادا، نانا، خالا، پھوپا، ماتا، پتا وغیرہ۔
(ج) عربی سہ حرفی لفظ ریا، ربا، دعا، حیا، قبا، عبا، زنا، خلا، غنا، طلا، ہوا، دوا، بلا، صفا، غذا، ثنا، رجا، سزا، جزا، جلا، جفا، وفا وغیرہ۔
(د) عربی مصادر جنکے آخر ا ہوتا ہے وہ بھی مستثنےٰ ہین جیسے انشا، املا، استہزا، اخفا، تمنا، افزا، اقتضا، التجا وغیرہ۔
(ہ) ان مصادر سے ایسے عربی مفعول جنکے آخر مین الف ہے۔ عا، مقضا، منشا وغیرہ۔
(و) جن کے آخر مین الف مقصورہ ہے جیسی اعلیٰ، ادنیٰ، عقبیٰ وغٰیرہ۔
(ز) تمام اسماے خاص جیسے گنگا، ستھرا، خدا وغیرہ۔
(ح) فارسی کے سم فاعل دانا، بینا، شناسا وغیرہ۔
(ط) بعض دوسرے فارسی عربی اسماء جیسے دریا، صحرا، مسیحا، عنقا، کیمیا، طوبا، ثریا، مینا۔

(۲) جہان یہ علامات یعنے (ا یا ہ) نہین ہوتی وہان کوئی تبدیلی نہین ہوتی جیسے شہر مین، مالی نے، لڑکی سے وغیرہ۔
لیکن دو ہندی لفظ دھوان اور روان ایسے ہین جنکی حالت سب سےس جدا ہے انکے بعد جب حروف ربط آتے ہین ن کے قبل کا الف یا ے مجہول سے بدل جاتا ہے جیسے وہوین۔ رومین سے۔
(۳) وہ عربھی الفاظ جنکے آخر مین ع یا ح ہو انکے ماقبل حرف کی حرکت زبر ہو تو پڑھنے مین زبر زیر سے بدل جاتا ہے ۔ جیسے مجمع مین، مطبع مین، مصرع مین۔
جمع کی حالت مین بھی جبکہ (صورت فاعلی ہو) زبر زیر سے بدل جاتا ہے۔ جیسے بہت سے مرقع رکھے ہین۔ یہان مطبع کثرت ہین۔
نیز وہ عربی الفاظ جنکے آخر ہ ز ا ید اور ماقبل ع مفتح ہو تو وہ ہ ے سے نہیں بدلتی مگر تلفظ میں حرف ماقبل ع کا زبر زیر ہوجاتا ہے جیسے جمعہ کے روز قلعہِ مین آؤ (بعض لوگ ے سے لکھتے ہین جیسے قلعے، جمعے)
(۴) جمع مذکر کرکے بعد حرف ربط کے آنے سے جمع مین و ن بڑہا دیتے ہین جیسے شہرن مین، مردون کے ساتھ۔
جمع مونث کا الف ن بھی و ن سے بدل جاتا ہے۔ لڑکیون نے دھونبون کو لیکن جن الفاظ کے آخر مین و ہوتی ہے انکی جمع مین و پر ہمزہ بڑہا کر ن زیادہ کردیتے ہین جیسے جو رؤن نے، گاؤن میں، کھڑاؤن مین۔
(۵) بعض الفاظ ایسے ہین جو ہمیشہ جمع مین استعمال ہوتے ہین مثلاً دستخط بہت اچھے ہین، معنے۔ اس لفظ کے معنے ہین یا یہ کن معنون مین آتا ہے۔
پت مین فعل جمع کے ساتھ آتا ہے جیسے قے مین پت نکلے۔
ختنےٰ کا لفظ واحد اور جمع دونون مین ہوتا ہے جیسے اسکے ختنے ہوگئے یا اسکا ختنہ ہوگیا۔ ایسے ہی اور بعض الفاظ ہین جس کا ذکر نحو مین ہوگا۔
(۶) اقسام غلہ کی واحد جمع مین بہت اختلاف ہے۔
بعض صرف واحد مین استعمال ہوتے ہین جیسے کہ گیہون بڑے ہین، یہ تل بہت اچھے ہین، ان تلون مین تیل نہین۔ آج کل جو بہت سستے ہین۔
بعض واحد جمع دونون مین آتے ہین جیسے چنا منھ لگا نہین چھٹتا، چنے کھایا کرو۔
(۷) بعض الفاظ ایسے ہین کہ ان کی جمع کی جمع استعمال ہوتی ہے جیسے اولیاؤن یا انبیاؤن سے دعا مانگنا، تمھیں شاید کبھی اشرافون کی صحبت نصیب نہین ہوئی۔ آج کل رحجاج اس طرف ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جمع الجمع نہ بنائی جائے اس قسم کے لفاظ عموماً عربی الفاظ ہوتے ہین اردو مین انکی دوبارہ جمع بنالی جاتی ہے۔
اشراف کا لفظ اردو مین واحد مستعمل ہے جیسے اخبار کا لفظ۔ اصول واحد اور جمع دونون مین استعمال ہوتا ہے مثلاً میرا یہ اصول ہے، کچھ زبانون کے اصول قریب قریب یکسان ہین۔
اسی طرح کائنات، واراوت (حادثہ کے معنون مین) کرامات، خیرات، صلوات، حاضرات، فتوح (بمعنی آمدنی بالائی) اوزار۔ (واحد و جمع) اخلاق (واحد و جمع دونون) القاب (واحد و جمع دونون) آفاق (نمعنے جہان) احوال، املاک، اسرار (واحد و جمع) مواد، عملہ، ارواح (واحد و جمع) رعایا، (واحد و جمع دونون طرح) اوقات (بمعنی حیثیت جیسے تیری کیا اوقات ہے) تحقیقات، صلوات، سکرات، حوالات، تعینات، اولاد، (واحد جمع) تراویح، تسلیمات، آداب (بمعنی سلام) اسبان (بمعنی سامان) معلومات، (واحد جمع) معلومات، (واحد و جمع) افواہ، معقولات، موجوادت اگرچہ جمع ہین مگر اردو مین واحد کے معنون مین مستعمل ہین۔

(۳)حالت
اسم کی چند حالتین ہوتی ہین، اور ہر اسم کے لیے ضرور ہے کہ وہ ذیل کی کسی نہ کسی حالت مین ہو۔
(۱) حالت فاعلی یعنے کام کرنے والے کی حالت۔ جیسے احمد نے روٹی کھائی۔ یہا کام کرنے والا یعنی روٹی کھانے والا احمد ہے لہذا احمد کی حالت فاعلی ہوگی۔
متعدی افعال کے ساتھ فاعل کی علامت نے ہوتی ہے، نے کے آنے اسماے عام کے واحد اور جمع کی صورت بدل جاتی ہے۔ لڑکے نے روٹی کھائی، لڑکون نے روٹی کھائی۔ مگر جہان کوئی خاص علامت تذکیر و تانیث کی نہین ہوتی وہان تبدیلی نہین ہوتی جیسے گھر جل گیا، گھر جل گیا۔
(۶) حالت مفعولی اسے کہتے ہین جس پر کام کا اثر پڑے جیسے اوپر کی مثال احمد نے روٹی کھائی مین کھانے ک اثر روٹی پر پڑتا ہے اس لیے روٹی کی حالت مفعولی مین ہے۔ مفعول کے ساتھ اکثر اوقات کو یا سے آتا ہے جیسے میں نے حامد کو خط لکھا، کلیم حامد سے لڑا، اسکی کئی قسمین ہین ان کا ذکر نحومین کیا جائے گا۔
(۳) حالت ظرفی مین جب اسماء کے ساتھ مین سے تک پر آتے ہین تو ان حروف کے آنے سے جو تبدیلیان اسماے ما قبل مین ہوتی ہین ان کا ذکر ہوچکا ہے۔
(۴) حالت اضافی جس مین کسی ایک اسم کو دوسرے کی نسبت دی جائے یعنے کسی اسم کا علاقہ یا تعلق کسی دوسرے اسم سے ظاہر کیا جائے۔ جیسے احمد کا گھوڑا، یہان گھوڑے کا تعلق احمد سے ظاہر کیا گیا ہے، اس لیے یہ مضاف کہلاتا ہے اور جس سے نسبت یا علاقہ ظاہر کیا جاتا ہے اسے مضاف الیہ کہتے ہین۔ یہان احمد مضاف الیہ ہے۔
حروف اضافت واحد مذکر مین کا جمع مذکر مین کے اور واحد اور جمع مونث مین کی آتے ہین۔ انکی تبدیلیاں پہلے بیان ہوچکی ہین۔
ف۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان تمام حروف کے آنے سے جو تبدیلیاں ہوتی ہین وہ صرف اسمائے عام مین ہوتی ہیں اسمائے خاص میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی جیسے جمنا کے کنارے ، متہرا کے پاس۔
(۵) حالت منادیٰ وہ جسے بلایا جائے جیسے اے لڑکے۔ اے آدمی، یااللہ۔
واحد مذکر مین اگر آخر الف ہے تو مجہول سے بدل جائے گا جیسے اے لڑکے اور جمع مین بجائے لڑکون کے صرف لڑکو رہ جائے گا، ن گرجاتا ہے جیسے اے لڑکو۔
واحد مونث مین کوئی تبدیلی نہیں ہوتی جیسے اے لڑکی جمع مین مذکر کی طرح نون گرجاتا ہے جیسے اے لڑکپو۔
جہاں کوئی علامت مذکر نہیں ہوتی وہاں واحد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جیسے اے جانور، البتہ جمع کی حالت یکسان ہے جیسے اے جانورو!۔

اسما کی تصغیر و تکبیر
تصغٰیر
کے معنے ہین چھوٹا کرنے کے بعض اوقات الفاظ مین کسی قدر تغیر کرکے یا بعض حروف کے اضافہ سے اسما کی تصغیر بنالیتے ہین۔
(۱) کبھی تصغیر محبت کے لیے بنائی جاتی ہے۔ مثلاً بھائی سے بھیا، بہن سے بہنا۔
(۲) کبھی تصغیر حقارت کے لیے جیسے مرد سے مردوا، جورو سے جوروا۔
(۳) کبھی چھوٹائی کے لیے جیسے شیشہ سے شیشی۔
اردو ،ہم اسماء کی تصغیر کئی طرح آتی ہے۔
(ا) الفاظ کے آخر مین ا یا و ا بڑہادینے سے جیسے جورو سے جوروا۔ مرد سے مردوا، بھائی سے بھیا۔ لونڈی سے لونڈیا۔​
بشکریہ فہیم​
 

قیصرانی

لائبریرین
(۲) بعض اوقات مذکر کو مونث بنانے سے مثلاً شیشہ سے شیشی، ٹوکرا سے ٹوکری۔​
(۳) بعض اوقات مختلف علامات ڑا، ڑی، لی، لا، یا وغیرہ بڑہادینے سے اور الفاظ مین کسی قدر تبدیلی کرنے سے جیسے آنکھ سے انکھڑی، گھٹے سے گھڑی، مکھ سے مکھڑ، پلنگ سے پلنگڑی، جی سے جیوڑا، کونڈے سے کونڈالی، ناند سے نندولا، کھاٹ سے کھٹولا، سانپ سے سنپولا یا سپولیا، کگ (کوّا) سے کگیلا، چور سے چوٹٹا، آم سے انبیا۔​
بعض اوقات محض حقارت کے لیے روپیہ کو روپلی بولتے ہیں۔ سودا نے ایک جگہ شاعر کو حقارت سے شاعرلا کہا ہے۔​
بعض اقات اسم خاص کو تصغیر ہین مثلاً باغچہ، مروک، مشکیزہ۔​
تصغیر کی ضد تکبیر ہے جسکے معنی ہین بڑا کرنا یا بڑہانا۔ بعض اسمون کو عظمت کے لیے کسی قدر تغیر سے بڑایا بھاری بھرکم کرکے دکھاتے ہین۔ جیسے مخدوم سے مخادیم جمع ہے، لیکن بعض اوقات کسی شخص کو تحقیر سے (جون بڑا بنتا ہے) مخادیم کہتے ہین جیسے بڑا مخادیم بنا بیٹھا ہے۔ اسی طرح موٹے سے موٹلا، پگڑی سے پگڑ، گٹھری سے گٹھر، بات سے بتنگڑ۔​
کبھی شہ (شاہ) کا لفظ شروع مین لگاکر بناتے ہین۔ جیشے شہیتر، شہباز، شاہ بلوت، شاہراہ۔ شہپر (یہ فارسی ترکیب ہے)۔​
۲۔صفت
الفاظ صفت وہ ہین جو کسی اسم کی حالت یا کیفیت و کمیت ظاہر کرین۔​
صفت ہمیشہ اسم کی حالت کو محدود کر دیتی ہے۔ مثلاً بیکار لوگ، جاہل آدمی، شریر لڑکا۔​
اس کی کئی قسمیں ہیں۔​
۱۔ صفت ذاتی​
۲۔ صفت نسبتی​
۳۔ صفت عدوی​
۴۔ صفت مقداری​
۵۔ صفت ضمیری​
۱۔ صفت ذاتی
وہ ہے جس سے کسی چیز کی حالت اندورنی یا بیرونی ظاہر ہو جیسے ہلکا، فھوس، سبز۔​
(۱) بعض اوقات یہ صفات دوسرے اسماء یا افعال سے بھی بنائی جاتی ہین۔​
مثلاً لڑاک (لڑنے سے) ڈہلوان (ڈہال سے) کھلاڑی (کھیل سے) بلی (بل سے) جیوٹ، لاج ونت ہنسوڑ، بھاگوان (جی، لاج، ہنسی اور بھاگ سے)۔​
(۲) بعض اوقات بلکہ اکثر دو الفاظ سے مرکب آتی ہے مثلاً ہنس مکھ، من چلا، منہ پھٹ وغیرہ۔​
(۳) بعض فارسی علامتین عربی ہندی الفاظ کے ساتھ آکر صفت کاک کام دیتی ہین جیسے سعادت مند، ناشکرا، بے فکرا، سمجھدار، بے چین، بے بس وغیرہ۔​
(۴) فارسی عربی صفات ذاتی بھی اردو میں بکثرت سے سمتعمل ہین جیسے دانا، احمق، بینا، شریف، نفیس، خوب وغیرہ۔​
(۵) صفات ذاتی کے تین مدارج ہین۔​
درجہ اول جسمین ایک شے کو دوسری پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ حرف سے ظاہر ہوتی ہے جیسے کپڑا اس سے اچھا ہے۔​
درجہ سوم جسمین کسی شئے کو اس قسم کے سب اشیا سے ترجیح دی جاتی ہے۔ جیسے ان کپڑون میں یہ سب سے اچھا ہے۔ جماعت مین یہ لڑکا سے ہوشیار ہے۔ بعض اوقات صفات مین زور یا مبالغہ پیدا کرنے کے لیے بعض الفاظ بڑہادیے جاتے ہیں وہ الفاظ یہ ہیں۔​
بہت۔ جیسے بہت اچھا، بہت ہی اچھا، تمہارا بھائی اس لڑکے بہت ہی بڑا ہے۔​
کہیں۔ یہ بھی درجہ دوم مین صفت کے بڑہانے کے لیے آتا ہے جیسے یہ اس سے کہین بہتر ہے ۔ یہ اس سے بدر جہا بہتر ہے۔​
زیادہ۔ صرف درجہ دوم مین استعمال ہوتا ہے جیسے یہ زیادہ اچھا ہے۔​
بڑا۔ بڑا لمبا سانپ، بڑا گہرا تالاب۔​
نہایت، یہ حرف فارسی عربی الفاظ کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے نہایت عمدہ، نہایت نفیس بعض اوقات ایک کا لفظ بھی مبالغہ پیدا کرتا ہے جیسے ایک چھٹا ہوا، ایک بدذات ہے۔​
یہ جو چشم پُر آب ہین دونون​
ایک خانہ خراب ہین دونون​
لیکن اس کا استعمال ہمیشہ ذم کے موقع پر ہوتا ہے۔ زور کے واسطے بھی بڑہادیتے ہین۔​
اسی طرح اعلٰی، اعلٰی درجہ، اول نمبر، اول درجہ، پرلے درجہ کے الفاظ بھی یہی کام دیتے ہین۔ جیسے اسمین یہ اعلٰی صفت ہے، اعلٰی درجہ کی حنبس، اول نمبر کا احمق، پرلے درجہ کا بیوقوف۔ امین اعلٰی اور اعلٰی درجہ کا لفظ اسم کے ساتھ آتا ہے یا ئی صفات کے ساتھ۔​
۶۔ سا کا لفظ بھی صفات کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے، اس سے مشابہت پائی جاتی ہے، مگر ساتھ ہی صفت مین کمی کا اظہار ہوتا ہےجیسے لال سا کپڑا، کالا سا رنگ، وہ تو مجھے بیوقوف سا معلوم ہوتا ہے۔​
بعض اوقات سا اڑا کر نہایت پاکیزہ مبالغہ ظاہر کیا جاتا ہے جیسے ہلکا پھول، میٹھا شہد اگرچہ اسکی ترکیب یہ ہوگی کہ پھول سا ہلکا یا شہد سا میٹھا لیکن اسکے معنی زیادہ بہت ہلکے اور بہت میٹھے کے لیے جاتے ہین چناچہ اس قسم کی ترکیبی صفات ذیل مین دیجاتی ہین۔ ہلکا پھول، میٹھا شہد، لال انگارہ، لال بھبھوکا، کالا بھجنگ، کھٹا چوک، کھٹا چونا، کڑوا زہر، کڑوا نیم۔ کڑوا کریلا۔ سوکھا کھڑنک، پھیکا پانی، موٹا پھّپس لنبا اونٹ، سوکھا کانٹا، دبلا قاق، سید ہاتک، سید ہاتیر، سفید جھک، گرم آگ، ٹھنڈا برف، ٹھنڈا اولا، اندھیرا گھپ، نیلا کانچ، بھرا پتھر، اند ہاٹپم، میلا چیکٹ، بڈھا پھوس۔​
سا کا استعمال صفت کی زیادتہ کے لیے اسی طرح بھی آتا ہے جیسے بہت سا آٹا، بڑا سا گھر۔​
سا ان معنون مین سنسکرت کی علامت شس سے نکلا ہے جسکے معنی گنا کے ہین اور جہان سا کے معنی مشابہت کے ہین وہ سنسکرت کے لفظ سما سے ہے، برج مین یہ سان ہوا اور ہندی اور اردو مین سا ہوگیا۔​
منفی صفات ذاتی​
اردو مین چند حروف یا الفاظ ہندی کے ایسے ہین جنکے لگانے سے صفات ذاتی مین نفی کے معنی پیدا ہوجاتے ہین۔ جیسے​
ا جیسے اٹل امر (نہ مرنے والا)​
ان جیسے انجان اَن مل​
نِر جیسے نرمل نراس​
بے جیسے بےدہڑک نے سرا نے جوڈ​
ک جیسے کُراہ کڈھب​
بن جیسے بن سرا بن جتی (زمین)​
نِ جیسے نڈر​
فارسی عربی کے الفاظ کے ساتھ فارسی عربی کی علامات استعمال ہوتی ہیں مثلاً نالائق، نابینا (فارسی علامت) غیر ممکن (عربی علامت) بے وقوف (فارسی علامات)۔​
۲۔صفات نسبتی
صفات نسبتی وہ ہین جن مین کسی دوسری شے سے لگاؤ یا نسبت ظاہر ہو، مثلاً ہندی عربی وغیرہ۔​
۱۔ عموماً یہ لگاؤ اسما کے آخر مین یا ے معروف کے بڑہانے سے ظاہ رہوتا ہے۔ جیسے فارسی، ترکی، ہندوستانی، آبی، پیازی وغیرہ۔​
۲۔ جب کسی اسم کے آخر مین ی یا ہ یا ا ہوتا ہے یہ ی یا ہ یا ا کو واؤ سے بدل کر ی بڑہادیتے ہین جیسے دہلی سے دہلوی، سندیلہ سے سندیلوی، موسیٰ سے موسوی، عیسیٰ سے عیسوی۔​
۳۔ بعض اوقات ہ کو حذف کردیتے ہین۔ جیسے مکہ سے مکی، مدینہ سے مدنی۔​
نوٹ: صفات نسبتی جب بغیر اسم کے آتی ہین تو بجائے خود اسم ہونگی جیسے بنگالی بڑے ذہین ہوتے ہین۔​
۴۔ بعض اوقات ا نہ بڑہانے سے نسبت ظاہر کرتے ہین جیسے غلامانہ، عاقلانہ، جاہلانہ، مردانہ (یہ فارسی ترکیب ہے)۔​
۵۔ ہندی مین بھی چند علامتین ہین جنکے اسم کے آخر مین آنے صفت نسبتی بن جاتی ہے۔​
ر ا یا لا (ہندی مین ر اور ل کا بدل عام طور پر ہوتا ہے) جیسے سنہرا، روپہلا، چچیرا۔​
وان جیسے گیہوان،​
ار جیسے گنوار (گاؤن سے)۔​
لا یا الا جیسے سانولا، رنگیلا، مٹیالا، اکیلا، منجھلا، پھچلا، گلا۔​
والا جیسے کلکتہ والا تاجر۔​
کا جیسے قیامت کا، غضب کا۔​
سا جیسے چاند سا۔​
۳۔صفت عدوی
جس سے تعداد کسی اسم کی معلوم ہو۔​
۱۔ تعدار دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک جب ٹھیک عدد کسی شے کا معلوم ہو جیسے پانچ آدمی، چھ گھوڑے، ا سے تعداد معین کہتے ہین۔​
دوسرے جب ٹھیک ٹھیک تعداد کسی شے کی نہ معلوم ہو جیسے چند لوگ، بعض شخص، سے تعداد غیر معین کہتے یہن۔​
۲۔ تعداد غیر معین کےل یے اکثر یہ الفاظ مستعمل ہوتے ہین۔​
بشکریہ فہیم​
 

قیصرانی

لائبریرین
کئی، چند، بعض، سب، کل، بہت، بہت سے، تھوڑا، تھوڑے، کم، کچھ۔​
۳۔ تعداد معین کی تین قسمین ہین۔​
ایک تعداد معمولی جیسے دو، تین، چار وغیرہ کل اعداد۔​
تعداد معین کی دوسری قسم تعداد ترتیبی ہے، جس سے ترتیب کسی شئے کی معلوم ہوتی ہے۔ جیسے ساتون پانچوان وغیرہ۔ اسکے بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ تعداد معین کے آگے وان لگادیتے ہین۔ لیکن پہلے چار عدد اور چھ کا ہندسہ اس قاعدے سے مستثنےٰ ہے۔ انکی تعداد ترتیبی یہ ہے۔​
پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا، چھٹا۔​
بعض اوقات اعداد کے آگے دن کا اظہار کلیت کے لیے بڑہا دیا جاتا ہے۔ جیسے پانچون، تنیون، چھئون جاتے رہے، چارون موجود ہین، دونون املئے دونون مین لفظ دون بجاےکے استعمال ہوا ہے اسکے آگے دن بڑھا گیا ہے بعض اوقات مزید تاکید کے لیے اسے دہرادیتے ہین۔ جیسے دونون کے دونون چلے گئے ساتون کے ساتون موجود ہین۔​
فارسی مین عدد کے آخر مین میم بڑہا دیتے ہین جیسے یکم دوم سوم چہارم وغیرہ۔​
تیسری قسم تعداد معین اضافی ہے، جس مین کسی عدد کا ایک یا یاک سے زائد بار دہرانا پایا جائے۔ اردو مین کئی طرح مستعمل ہے۔​
۱۔ عدد کے آگے بڑ ہانے سےجیسے دگنا، تگنا، چوگنا وغیرہ۔ گنا یا گونہ (فارسی) دراصل سنسکرت کے لفظ گون آ سے ہے، جس کے معنی قسم کے ہین۔​
۲۔ چند (فارسی) کے بڑہانے سے جیسے دوچند، سہ چند، دو چند وغیرہ۔​
۳۔ ہرا بڑہانے سے جیسے کہرا، دوہرا، تہرا، چوہرا۔​
ہرا درحقیقت ہارا کا مخفف ہے جو سنسکرت کے لفظ دارا سے بنا ہے۔​
بعض اوقات تعداد مین کے آگے ایک کا لفظ بڑہادینے سے تعداد غیر معین ہوجاتی ہے جیسے پچاس ایک آدھی بیٹھے تھے جیس کے معنی ہونگے یقیناً کم و بیش پچاس۔ اسی طرح بیس ایک دو ایک وغیرہ وغیرہ دس، بیس، پچاس، سیکڑہ، ہزار، لاکھ، کروڑ جمع کی حالت مین تعداد غیر معین کے معنون مین آتے ہین۔ اور اس کثرت کا اظہار ہوتا ہے مجھے دسون کام ہیں، اس مکان مین بیسون کمرے ہین، ہرروز سیکڑون آدمیون سے ملنا پڑتا ہے، ہزارون آدمی جمع تھے، لاکھون روپیہ صرف ہوگا۔​
اسی طرح ان کی فارسی جمع صدہا، ہزارہا، لکھوکھا، کڑوڑہا بھی اسی طور اور۔​
۴۔ صفت مقداری
جس سے مقدار یا جسامت کسی شئے کی معلوم ہوتی ہے۔​
مقدار دو قسم کی ہے۔ ایک معین دوسری غیر معین۔​
غیرمعین۔ جیسے بہت تھوڑا، کچھ زیادہ۔​
یہ الفاظ تعداد اور مقدار دونون کے لیے آتے ہین۔ موقع استعمال سے امتیاز ہوسکتا ہے کہ صفات تعدادی ہین یا مقداری۔ مثلاً بہت سے آدمی بیٹھے ہین (تعدادی) بہت سا گڑ رکھا تھا (مقداری)۔​
انکے علاوہ کتنا (کس قدر) جتنا، اتنا، بھی صفات مقداری کے لیے آتے ہین۔​
جیسے دیکھو کتنا پانی چڑھ آیا۔ جتنا کھانا کھاسکو کھاؤ، اتنا پانی مت پیو۔ اتنا بڑا کیڑا، کبھی (یہ، اور، وہ) ان معنون مین استعمال ہوتے ہین جیسے یہ بڑا بچھو تکیے کے نیچے سے نکلا، اب کی برسات کا وہ زور ہے کہ خدا کی پناہ، یہ ڈھیر کتابون کا پڑا ہے۔​
نوٹ: یہ کا لفط اکثر کسی دوسری صفت کے ساتھ آتا ہے مگر وہ تنہا۔​
۵۔ صفات ضمیری
وہ ضمائر جو صفت کا کام دیتی ہیں مثلاً وہ، یہ، کون، کونسا، جو، کیا۔​
وہ عورت آئی تھی۔ یہ کام مجھ سے نہین ہوسکتا۔ کون شخص ایسا کہتا ہے۔ جو کام تم سے نہیں ہوسکتا اسے ہاتھ کیون لگاتے ہیں۔ کیا چیز گرپڑی۔​
یہ الفاظ جب تنہا آتے ہین تو ضمیر ہین اور جب کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوتے ہین تو صفات ہین۔​
ف۔ صفات ذاتی و نسبتی جب اسم کے ساتھ ہین تو اسم کی صفت ہوتے ہین اور جب تنہا آتے ہین تو اسم کا کام دیتے ہین مثلاً اچھا آدمی یہان اچھا صفت ہے۔ چاہیے اچھون کو جتنا چاہیے، یہان وہی لفظ اسم کا کام دیتا ہے۔ یہ بنگالی لڑکا بڑا ذہین ہے۔ (صفت) بنگالی بڑے ذہین ہوتے ہین (اسم)​
صفت کی تذکیر و تانیث​
اردو مین صفات کی تزکیر و تانیث اکثر ہندی الفاظ مین ہوتی ہے اور وہ بھی بعض بعض حالتون مین۔ جب مذکر کے آکر مین الف ہوتا ہے تو یہ الف بئاے معروف سے بدل جاتا ہے، اسی طرح جمع مین الف یائے جھول بدل جاتا ہے مگر جمع مؤنث مین کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔​
واحد مزکر۔۔۔۔۔جمع مذکر۔۔۔۔۔واحدمؤنث۔۔۔۔۔۔جمع مؤنث​
اچھا مرد۔۔۔۔۔۔اچھے۔۔۔۔۔۔اچھی عورت۔۔۔۔۔۔ اچھی عورتین​
بعض اوقات فارسی صفات مین ہی جو اردو میں بکثرت مستعمل ہیں اور جنے آخر ہ یا ا ہوتا ہے یہی تبدیلی واقع ہوتی ہے جیسے دیوانہ مرد، دیوانے مرد، دیوانی عورت، دیوانی عورتین، اسی طرح جدا اور جدی۔​
صفات خدذی باترتیب مین مذکر کا آن مؤنث مین ے معروف اور ن سے بدل جاتا ہے جیسے پانچون مرد، پانچوین عورت۔ لیکن جب مذکر کے بعد حرف ربط آجاتا ہے تو ا یا ی مجہول سے بدل جات اہے جیسے پانچوین مرد نے کہا مگر مونث کی حالت یکسان رہتی ہے۔​
صفات کی تصغیر​
بعض اوقات صفات کی تصغیر بھی آتی ہے لمبے سے لنبوا لنبوترا، چھوٹے سے چھٹکا، موٹے مٹکا۔​
۳۔ ضمیر
وہ الفاظ جو بجائے اسم کے استعمال کیے جاتے ہین ضمیر کہلاتے ہین جیسے وہ نہیں آیا۔ مین آج نہیں جاؤنگا۔ ضمیر سے فائدہ یہ ہے کہ بار بار انھین اسماء کو جو گزر چکے نہین آیا۔ مین آج نہیں جاؤنگا، ضمیر سے فائدہ یہ ہے کہ بار بار انھین اسماء کو جو گزر چکے ہین دہرانا نہین پڑتا۔ اور زبان مین الفاظ کے دہرانے سے جو بدنمائی پیدا ہوجاتی ہے وہ نہیں ہونے پاتی۔​
ضمائر کی قسمین​
(۱) شخصی (۲) موصولہ (۳) استفہامیہ (۴) اشارہ (۵) تنکیر۔​
(۱) ضمیر شخصی وہ ہین جو اشخاص کے لیے استعمال کی جاتی ہین۔ اسکی تین صورتین ہین۔​
ایک وہ جو بات کرتا ہے۔ اسے متکلم کہتے ہین۔​
دوسرا وہ جس سے بات کی جاتی ہے۔ اسے مخاطب کہتے ہین۔​
تیسرا وہ جس کی نسبت ذکر کیا جاتا ہے۔ اسے غائب کہتے ہین۔​
ضمائر کی تو یہ حالتین ہوتی ہین ایک فاعلی دوسری مفعولی تیسری اضافی۔​
ہر ایک کی تفصیل ذیل مین دی جاتی ہے۔​
ضمائر متکلم​
واحد جمع​
حالت فاعلی مین ہم​
حالت مفعولی مجھے یا مجھ کو ہمیں یا ہم کو​
حالت اضافی میرا یا ہمارا​
ضمائر مخاطب​
واحد جمع​
حالت فاعلی تو تم​
حالت مفعولی تجھے یا تھجھ کو تمہین یا تم کو​
حالت اضافی تیرا تمہارا​
بشکریہ فہیم​
 

قیصرانی

لائبریرین
ضمائر غائب​
واحد جمع​
حالت فاعلی وہ وہ​
حالت مفعولی اسے یا اسکو انکو یا انھین​
حالت اضافی اسکا انکا​
اردو ضمائر مین تذکیروثانیث کا کوئی فرق نہین ہوتا۔​
ضماتر غائب مین واحد جمع دونون کے لیے وہ آتا ہے (و پرانی اردو ہے) اور اسمین اشخاص اور اشیا کا امتیاز نہین ہوتا۔​
وہ جب کے بعد حروف ربط آتے ہین تو۔​
واحد جمع​
حالت فاعلی مین اس نے انھون نے​
حالت مفعولی مین اسکو یا اسے انکو​
حالت اضافی مین اس کا انکا​
تو یا تونے بے تکلفی اور محبت کے لیے آتا ہے جیسے مان بچے سے، گرو چیلے سے باتین کرتا ہے یا مخاطب کی کم حیثیتی کو ظاہر کرتا ہے جیسے آقا نوکر سے باتین کرتے وقت استعمال کرتا ہے۔ بعض اوقات بہت سے بے تکلف دوست بھی تو کہہ کر باتین کرتے ہین۔​
نظم مین اکثر تو لکھتے ہیں۔ یہانتک کہ بڑے بڑے لوگون اور بادشاہون کو بھی اسیطرح خطاب کیا جاتا ہے۔​
دعا مانگتے وقت خدا سے بھی تو سے خطاب کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانون کی توحید کا اثر ہے جو اردو سے ہندی زبانون مین پہنچا ہے۔ دوسرے مواقع پر واحد مخاطب کے لیے تم ہی استعمال کرتے ہین۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ تم بھی اکثر نوکرون اور چھوٹے لوگوں سے خطاب کرتے وقت بولا جاتا ہے۔ ورنہ اکثر اور عموماً واحد مخاطب اور جمع مخاطب دونون کے لیے آپ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔​
آپ تعظیماً واحد غائب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے اگر لوگ طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے تھے مگر آپ کو کبھی ملال نہوتا یا جب کوئی شخص کسی دوسرے سے ملاتا ہے تو تعظیماً کہتا ہے کہ آپ فلان شہر کے رئیس ہین۔ آپ شاعر بھی ہین وغیرہ وغیرہ۔​
ہم ضمیر متکلم جمع میں استعمال ہوتا ہے لیکن بڑے لوگ بجائے واحد متکلم کے بھی استعمال کرتے ہین جیسے ہم نے جو حکم دیا تھا اسکی تعمیل کیون نہیں کی گئی۔ نظم میں یہ تخصیص نہین وہان اکثر واحد متکلم کے لیے آتا ہے جیسے۔​
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالین گے​
بے نیازی تری عادت ہی سہی​
کبھی متکلم عمومیت کے خیال سے ہم استعمال کرتا ہے جیسے ایک روز ہمین یہ سب کچھ چھوڑنا پڑیگا۔ ترقی کیسی ہماری حالت ہی اس قابل نہین۔​
کبھی متکلم اپنے لیے ہم کا استعمال کرتا ہے۔ جیسے یہ چند روزہ صحبت غنیمت ہے ورنہ پھر ہم کہا تم کہا۔ ہماری قسمت ہی بری ہے جو کام کیا بگڑگیا۔ وہ بڑے ضدی ہین۔ کسی کی کیون ماننے لگے آخر ہمیں کو دینا پڑا۔​
بعض اوقات یار اور یارون کا لفظ واحد متکلم کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے یار تو گوشئہ تنہائی مین رہتے ہین کہین آئین نہ جائین، یارون سے بچ کر جائے گا کہاں، یارون کا لفظ واحد متکلم اور جمع متکلم دونون کے لیے آتا ہے۔ مگر عموماً بے تکلفی کے موقع پر استعمال ہوتا ہے۔​
جب کسی جمل ہمین کوئی اسم یا ضمیر فاعل مین ہو اور وہی مفعول بھی واقع ہو تو بجائے ضمیر مفعولی کے آپ کو، اپنے تئین، اپنے آپ مین سے کوئی ایک استعمال کرتے ہین جیسے احمد آپ کو دور کھینچتا ہے۔ یا اپنے تئین بڑا آدمی سمجھتا ہے۔ یا اپنے فاضل خیال کرتا ہے۔​
اسی طرح جب کوئی اسم یا ضمیر اضافی کے اپنا، اپنی، یا اپنے حسب موقع استعمال ہونے۔ جیسے احمد اپنی حرکت سے باز نہیں آتا، تم اپنا کام کرو، مجھے اپنے کام سے فرصت نہین۔ وہ خود تو چلے گئے مگر اپنا کام مجھ پر چھوڑ گئے۔ یہ اسی حالت مین ہے جب کہ فائل ہین تو اپنے ضمیر نہین آئے گی۔ بلکہ جس ضمیر کا موقع ہوگا اسی کی اضافی ضمیر لکھی جائے گی۔ جیسے وہ تو چلے گئے مگر ان کا کام مجھ پر آن پڑا۔ یہاں چلے گئے کے فاعل وہ ہین اور آپڑا کا فاعل انکا کام ہے۔ یاتو جیسے تم چلے گئے مگر تمہارا کام انھون نے مجھے سونپ دیا، یہان چلے گئے کا فاعل تم ہے اور سونپ دیا کا فائل انھون نے اپنے ضمیر صرف فاعل کی نسبت مفعولی اور اضافی حالت مین استعمال ہوتی ہے۔​
اپنا اپنی اور اپنے مضاف کے لحاظ سے حسب ترتیب واحد مذکر و مونث اور جمع مذکر کے لیے آتے ہین۔ اگر حروف ربط مین سے کوئی مضاف کے بعد آجاتا ہے تو اپنا بدل کر اپنے ہوجاتا ہے۔ جیسے وہ اپنے کام سے غافل ہے۔ وہ اپنے ہوش میں نہین۔​
دراصل ایسے فقرون میں اصل ضمیرین اپنا، اپنے، اپنی سے بدل گئی ہین۔ مثلاً مجھے اپنے کامون سے فرصت نہین۔ اصل مین تھا۔ مجھے میرے کامون سے فرصت نہین۔ آپ اور اپنا دوسرے ضمائر کے ساتھ تاکید کے لیے بھی آتا ہے۔ مثلاً حالت فاعلی مین مین آپ گیا تھا۔ آپ آئے تھے۔ ہم آپ آئے تھے۔ تم آپ گئے تھے حالت اضافی مین میرا اپنا کام تھا۔ یہ انکا باغ ہے۔​
میرا اپنا جدا معاملہ ہے​
اور لین دین سے کیا کام (غالب)​
فارسی کا لفظ خود بھی (جس کے معنی آپ یا اپنے کے ہین) انھین معنون مین آتا ہے جیسے انھون نے خود فرمایا۔ خود بعض حالتون مین زیادہ فصیح ہے، اور خوصاً حالت مفعول مین خود استعمال کیا جاتا ہے آپ نہیں آسکتا جیسے مین نے خود اسے دیا یہان خود کا تعلق اسے سے ہے۔ اگرچہ ابہام پایا جاتا ہے کہ خود کا تعلق مین نے سے بھی ہے۔ لہذا اسکے دفع کے لیے ایسے موقعون پر استعمال کی یہ صورت ہونی چاہیے کہ جس لفظ سے اسکا تعلق ہو اسکے اول استعمال کیا جائے مثلاً اگر یہان خود کا تعلق مین نے ظاہر کرنا مقصود ہو تو یون کہا جائے خود مین نے اسے دیا۔ مگر حالت اضافی مین خود کا کہنا فصیح نہین ہے، ایسے موقع پر اپنا زیادہ فصیح ہے۔​
۲۔ضمیر موصولہ​
وہ ہے جو کسی اسم کا پتہ یا حالت بیان کرے، اور ساتھ ہی دو جملون کو ملانے کا کام دے جیسا وہ کتاب جو کل چوری ہوگئی تھی مل گئی، آپ دوست جو چیچک روہین مجھے ملے تھے، پہلے جملے مین جو کتاب کا اور دوسرے مین جو دوست کا پتہ دیتا ہے۔ ضمیر موصولہ صرف جو ہے جس کی مختلف حالتین یہ ہیں۔​
واحد جمع​
حالت فاعلی جو (حرف نے کے ساتھ) جس نے جو اور(نے کے ساتھ) جنھون نے​
حالت مفعولی می جس کو یا جسے جن کو یا جنھین​
حالت اضافی می (مذکر) جسکا جن کا​
(مونث) جسکی جن کی​
جن کو، جنھین، جنھون نے، جن کا۔ اگر جمع ہین مگر تعظیماً واحد کے لیے بھی آتے ہیں۔​
جس اسم کے لیے یہ ضمیر آتی ہے اسے مرجع کہتے ہین۔​
ضمیر موصولہ ہمیشہ ایک جملہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسرا جملہ اسکے جواب مین ہوتا ہے مثلاً وہ کتاب جو کل خردی تھی جاتی رہی، اس مین دوجملہ ہین ایک جو کل خریدی تھی صلئہ (ضمیر) ہے۔​
اسی طرح وہ لوگ جو کل آئے تھے آج چلے گئے۔​
یہ حالت فاعلی مین واحد اور جمع دونوں مین یکسان استعمال ہوتا ہے، مگر جب​
بشکریہ فہیم​
 

قیصرانی

لائبریرین
فاعل کے ساتھ نے ہو تو واحد میں جو بدل کر جس ہو جاتا ہے مثلاً جس نے ایسا کیا برا کیا۔ وہ لوگ جنہوں نے قصور کیا تھا معاف کر دیئے گئے۔​
کبھی کبھی جو کے جواب میں فقرہ ثانی میں سو آتا ہے جو ہو سو ہو۔ جو چڑھے گا سو گرے گا۔ جون بھی ہندی ضمیر موصولہ ہے مگر اردو میں سا کے ساتھ مل کر آتا ہے جیسے ان میں سے جون سا چاہو لے لو۔ جمع میں جون سے اور واحد و جمع مونث میں جون سے استعمال ہوتا ہے۔ بعض اوقات صفت بھی ہوتا ہے جیسے جون سی کتاب چاہو لے لو۔​
کبھی کہ بطور ضمیر موصولہ کے استعمال ہوتا ہے جیسے​
میں کہ آشوب جہاں سے تھا ستم دیدہ بہت​
امن کو سمجھا غنیمت دل غم دیدہ بہت (آزاد)​
جو اور جن بہ تکرار بھی آتے ہیں، جس سے اگرچہ حالت جمع ظاہر ہوتی ہے مگر اطلاق اس کا فرداً فرداً ہوتا ہے۔ مثلاً جو جو پسند ہو لے لو۔ جن جن کے پاس گیا انہوں نے یہی جواب دیا۔​
ضمائر استفہامیہ​
جو سوال پوچھنے کے لئے آئی ہیں، دو ہیں۔​
کون اور کیا۔ کون اکثر جان داروں کے لئے آتا ہے۔ کیا اکثر بے جان کے لئے۔​
جیسے کون کہتا ہے، کیا چاہیئے۔​
کون کی مختلف حالتیں یہ ہیں​
واحد جمع​
حالت فاعلی۔ کون اور (نے کے ساتھ) کس نے کون (نے کے ساتھ) کنھوں نے​
حالت مفعولی کسے یا کس کو کن کو یا کنھیں​
حالت اضافی کس کا کن کا​
جیسے کون کہتا ہے، کس نے کہا، کس کے پاس ہے، کس کو دیا؟​
کبھی صفت کا کام بھی دیتی ہے، جیسے کس استاد سے پڑھتے ہو؟​
کن ۔ اب صورت فاعلی میں کبھی ضمیر کی بجائے نہیں آتا ہے بلکہ اسم کے ساتھ آتا ہے جیسے کن لوگوں نے کہا؟​
کس کس، کن کن اور کیا کیا بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے کس کس کو روؤں، کن کن سے کہوں، کیا کیا کروں؟​
کون کون بھی بولتے ہیں۔ جیسے وہاں کون کون تھے؟​
ان فقروں میں فعل کئی اشخاص یا اشیا پر فرداً فرداً واقع ہوتا ہے اور جمع کا ہونا بتاتا ہے۔​
کون سا (کون سی، کون سے) بھی بجائے ضمیر مستعمل ہے۔ کون اور کون سا میں فرق اتنا ہے کہ کون سا میں ذرا خصوصیت پائی جاتی ہے، اور یہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ کئی چیزوں میں سے کسی ایک کا انتخاب مقصود ہو۔ مثلاً ان میں سے کون سی چاہیئے؟ یہاں کون نہیں کہیں گے۔ کون اشخاص اور اشیا دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، کون سا بطور صفت بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کون سے آدمی نے کہا؟ کون آدمی ہے، اور کون سا آدمی ہے؟ یہاں دونوں بطور صفت مستعمل ہوئے ہیں مگر کون سا میں وہی خصوصیت پائی جاتی ہے۔​
کون سا کبھی بطور صفت اور کبھی متعلق صفت استعمال ہوتا ہے جیسے اس میں آپ کا کون سا خرچ ہوگا۔ وہ کون سا بڑا عالم ہے؟ یہاں متعلق صفت ہے۔ اسی طرح میرا ایسا کون سا کام ہے جو وہاں جاؤں (صفت)​
میکدہ کون سا ہے ایس دور تجھ میں ہمت بھی اے خضر کچھ ہے (عارف)​
یہاں متعلق صفت ہے۔ پھر تم کون سے مرض کی دوا ہو؟ یہاں صفت ہے۔​
گر کہا تم گلے سے مل جاؤ مل گیا زہر کون سا اس میں (داغ)​
کاہے (کو) بھی کیا کی ایک صورت ہے جس کے معنی کیوں اور کس لئے کے ہیں اور عموماً متعلق فعل واقع ہوتا ہے۔​
ضمیر اشارہ
جو بطور اشارہ استعمال ہوتی ہے۔ وہ بعید کے لئے اور یہ قریب کے لئے۔ ضمائر اشارہ اور ضمائر غائب شخصی ایک ہی ہیں۔ لیکن جب بطور اشارہ استعمال ہوتی ہیں تو انہیں ضمائر اشارہ کہتے ہیں۔ جیسے وہ لو گے یا یہ حروف ربط کے آنے سے وہ اُس سے اور یہ اِس سے بدل جاتا ہے اور جمع میں اُن اور اِن ہو جاتا ہے۔​
دین و فقر تھے بھی کچھ چیز اب دھرا کیا ہے اُس میں اور اِس میں​
ضمائر تنکیر​
وہ ہیں جو غیر معین اشخاص یا اشیاء کے لئے آئیں​
ضمائر تنکیر دو ہیں۔ کوئی اور کچھ​
کوئی اشخاص کے لئے اور کچھ اشیاء کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کوئی ہے؟ کوئی نہیں بولتا۔ کچھ ہے یا نہیں؟ کچھ تو کہو۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟​
حرف ربط کے آنے سے کوئی کی صورت کسی ہو جاتی ہے جیسے کسی کے پاس نہیں۔ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری​
کبھی ضمائر موصولہ سے مل کر مرکب بھی آئی ہیں۔ جیسے جس کسی سے کہتا ہوں وہ الٹا مجھی کو نادم کرتا ہے۔ جو کچھ کہو بجا ہے۔​
جب بہ ضمائر تکرار کے ساتھ کوئی کوئی اور کچھ کچھ استعمال ہوتی ہیں تو اس میں خاص زور پایا جاتا ہے مگر معنے قلت کے آتے ہیں۔ جیسے اب بھی کوئی کوئی نظر پڑ جاتا ہے۔ اگرچہ نایاب ہے مگر کسی کسی کے پاس اب بھی مل جاتی ہے۔ ابھی کچھ کچھ درد باقی ہے۔ نفی کے ساتھ بھی بہ تکرار آتا ہے۔ جیسے ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ کوئی نہ کوئی مل ہی رہے گا۔​
عربی کے الفاظ بعض اور بعضے بھی ضمیر تنکیر کا کام دیتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے۔ بعض یہ کہتے ہیں۔ بعض تکرار کے ساتھ بھی آتا ہے جیسے بعض بعض ایسے بھی ہیں اسی طرح فلاں کُل اور چند بھی بطور ضمیر تنکیری کے استعمال ہوتے ہیں۔​
ضمائر تنکیری دوسرے ضمائر کے ساتھ مل کر مرکب بھی آتی ہیں جیسے جو کوئی، جس کسی، کوئی اور، ہر کوئی، جو کچھ، اور کچھ، سب کچھ۔​
صفات ضمیری​
یہ وہ صفات ہیں جن میں کم و بیش ضمیر کی خاصیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ الفاظ جو اس صفت میں داخل ہیں یا تو صفات ہوتے ہیں یا ضمیر۔ اسم کے ساتھ آنے سے صفات ہو جاتے ہیں اور بغیر اسم کے ضمیر۔​
ان میں سے ایک تو وہ ہیں جو ضمیری مادوں کے آتے تا، تنا اور سا بڑھا کر بنائے گئے ہیں۔ اور باقی دوسرے الفاظ ہیں۔ ضمیری مادے ہندی میں پانچ ہیں (۱) یا याاور ایई (۲) وا वॉ اور او ओ (۳) جا जा اور جی जी (۴) سا सा اور نی नी (۵) کا का اور کیकी۔​
ان صفات کی دو قسمیں ہیں ایک صفات ذاتی دوسرے صفات مقداری۔​
صفات مقداری صفات ذاتی​
اتنا (اتا) ایسا​
اُتنا (اُتا) ویسا​
جتنا (جتا) جیسا​
کتنا (کتا) کیسا​
 

قیصرانی

لائبریرین
ان کے علاوہ دوسرے الفاظ یہ ہیں​
ایک، دوسرا، دو نون، اور، بہت، بعض، بعضے، غیر، سب، ہر، فلاں (فلانا)، کئی، کے، چند، کُل​
ایک دراصل صفت عددی ہے۔ جب ضمیر ہوتا ہے تو اس کے جواب میں دوسرا آتا ہے۔ جیسے ایک کہتا ہے، دوسرا یہ کہتا ہے۔ کبھی جواب میں دوسرے کی بجائے ایک ہی استعمال ہوتا ہے جیسے ایک آتا ہے ایک جاتا ہے۔ کبھی ایک اور دوسرا مل کر آتے ہیں اور تعلق باہمی ظاہر کرتے ہیں جیسے ایک دوسرے سے محبت کرو۔​
ہر کبھی اکیلا اور بطور اسم استعمال نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ ایک یا کوئی کے ساتھ مل کر آتا ہے۔ جیسے ہر ایک، ہر کوئی۔​
اور۔ جیسے مجھے اور دو۔ بطور صفت جیسے یہ اور بات ہے۔​
ہت کی ایک صورت بہتیرا ہے، جس سے کثرت ظاہر ہوتی ہے اور اکثر تمیز فعل واقع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سا بھی مستعمل ہے۔​
کئی اور کے ضمیر اور صفت دونوں طرح مستعمل ہیں۔ کئی کے ساتھ ایک بھی مل کر آٹا ہے جیسے کئی ایک اور اسی طرح کتنے ایک بھی مستعمل ہے۔ کے چاہیئں؟(ضمیر) کے آدمی ہیں؟ (صفت)​
ضمائر کے ماخذ​
اردو کی تمام ضمیریں ہندی ہیں جو سنسکرت اور پراکرت سے ماخوذ ہیں۔ ان کی اصل کا پتہ لگانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ لہٰذا مختصر طور پر یہاں بحث کی جاتی ہے۔​
میں۔ سنسکرت میں ضمیر واحد متکلم میا پراکرت مے ہے اردو افعال متعدی میں جو میں کے ساتھ نے استعمال ہوتا ہے وہ زائد ہے، کیونکہ میں میں جو ں ہے وہ درحقیقت نے کا ہے۔ مرور زمانہ کی وجہ سے یہ بات فراموش ہو گئی اور ڈبل نے کا استعمال ہونے لگا۔ چنانچہ مارواڑی، قدیم بیسواڑی اور دیگر پرانی ہندی اور دکنی میں میں بغیر نے کے استعمال ہوتا ہے، اور پنجابی میں بھی یہی ہے، مرہٹی میں می آتا ہے۔ تُو سنسکرت کے واحد صورت فاعلی توم سے ہے۔ ہندی کی بعض زبانوں (مثلاً مارواڑی اور قدیم بسواڑی) نیز پرانی اردو میں توں اور تیں استعمال ہوتا ہے۔​
مجھ او تجھ پراکرت کی اضافی حالت مجھا اور تجھا سے پیدا ہوئے ہیں جو بجائے مہہ اور توہ کے ہیں۔ مہا اور توہا عوام کی پراکرت میں استعمال ہوتا تھا۔ پراکرت صورت مجھا اور بجھا کے آگے ہی کے اضافہ کرنے سے مجھا ہی تجھا ہی ہوا ہے اور اس سے مجھے تجھے بنے۔ میرا تیرا اس طرح بنے کے قدیم اضافی صورت مہا کے آگے کیرا کیرو بجائے کیرا کو (سنسکرت کرتا) بڑھا دیا گیا بعض مذہبی قواعد نویسوں نے عوام کی پراکرت کی صورت اضافی مہا کیرو بتائی ہے جس سے میر ابنا ہے۔ چنانچہ مارواڑی اور بسواڑی میں مہانرو مہانلو مستعمل ہے۔ پراکرت کا کاف اڑ گیا ہے اس کے بعد میرو یا میرا اور تیرا بن گیا۔​
ہم پراکرت کی جمع متکلم صورت فاعلی مہے سے بنا ہے، یہ صورت مارواڑی زبان میں اب تک قائم ہے۔ بنگالی آمی گجراتی امے مرہٹی امہی۔ ہندی میں آخر کی ہ شروع میں جا لگی ہے اور ہم ہو گیا۔ مفعولی صورت ہمیں بھی اسی سے بنی ہے۔ کیونکہ اس کی پراکرت صورت امہائین ہے اور اسی طرح تمہیں تمہائیں سے بن گیا۔ ہمارا تمہارا کی اصل یہ ہے کہ امہا اور تمہا کے آگے پراکرت علامت کراکاہ بڑھا دی گئی ہے۔ اس سے امہاکراکو اور تمہاکراکو بنا۔ اس سے برج کا ہمارو اور تمہارو ہوا اور اس سے ہندی ہمارا تمہارا۔​
ضمائر اشارہ قریب یہ سنسکرت کے لفظ اشہ سے نکلا ہے ہندی کی مختلف شاخوں میں یہ لفظ ذر ا ذرا فرق سے موجود ہے۔ مثلاً یاہ، یہ، یہو، آہ، ایہ ہے۔ لیکن یہ سب صورتیں اشہ سے نکلی ہیں اور ان سب میں ہ موجود ہے۔ لیکن ایک دوسری صورت یو اور یا ہے جو پورب میں مستعمل ہے۔ یہ غالباً پراکرت اماہ یا امو سے نکلی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جس طرح اشارہ قریب کی صورتیں اشہ اور اماہ سے نکلی ہیں اسی طرح اشارہ بعید وہ اُشہ اور اُماہ سے نکلا ہوگا۔​
جو، سو اور کون سنسکرت کے ضمائر یاہ، ساہ اور کاہ سے نکلے ہیں کون کی اصل یہ معلوم ہوتی ہے کہ استفہامیہ کو کے آگے اونا (سنسکرت پونا) بڑھایا گیا ہے اس سے کوادنا پھر کوان اور کون بنا۔ اسی طرح جون پر قیاس کر لینا چاہیئے۔​
سنسکرت کی واحد اضافی حالت یسیا تھی پراکرت جسا یا جسا ہوئی۔ آخری حرف علت گر گیااور جس کی صورت قائم ہو گئی۔​
سنسکرت کا کوپی پراکرت میں کوبی ہوا اور اسی سے ہندی کوئی نکلا۔ کایا کی تمام ضمائر تنکیر اور ضمائر استفہامیہ کا اصل مادہ ہے۔ اسی سے کسی بنا ہے۔ سنسکرت میں اضافی حالت کسیاپی تھی اس سے کسی بنا۔​
کیا کہا سے نکلا ہے پراکرت میں علامت کا اضافہ کی گئی تو اس کی صورت کا ہیکا ہوئی۔ کا گر گیا۔​
سنسکرت کے کشچت سے کچھک اور اس سے کچھ بنا۔​
آپ (بمعنی خود) کی اصل سنسکرت کا لفظ آئمن ہے۔​
آپ نے اوراپنا پراکرت کی صورت آتمنگا سے ماخوذ ہے۔​
آپس کی نسبت یہ خیال ہے کہ وہ پراکرت کی صورت اضافی آپسا سے بنا ہے۔​
آپ (تعظیمی) بھی آتمن سے ماخوذ ہے جو بعض ہندی بولیوں میں آپن اور آپو ہوا اور وہاں سے آپ بنا۔​
۴۔ فعل​
فعل وہ ہے کہ جس سے کسی شے کا ہونا یا کرنا ظاہر ہوتا ہے جیسے تماشا شروع ہوتا ہے جیسے تماشا شروع ہوا، اس نے خط لکھا ریل چلی۔​
فعل کی بلحاظ معنوں کے تین قسمین ہیں۔​
۱۔ لازم​
۲۔ متعدی​
۳۔ ناقص​
۴۔ معدولہ​
فعل لازم وہ ہے جس میں کسی کام کا کرنا پایا جائے۔ مگر اس کا اثر صرف کام کرنے والے یعنی فائل تک رہے اور بس۔ جیسے احمد آیا۔ پیپھا بولا۔​
فعل متعدی وہ ہے جس کا اثر فاعل سے گذر کر مفعول تک پہنچے (مفعول یعنی جس پر فعل واقع ہو) جیسے احمد نے خط لکھا۔ یہاں لکھا فعل ہے، احمد اس کا فاعل اور خط (جس پر لکھنے کا فعل واقع ہوا ہے) مفعول ہے۔​
فعل ناقص وہ ہے جو کسی پر اثر نہ ڈالے بلکہ کسی اثر کو ثابت کرے جیسے احمد بیمار ہے۔ اس جملے میں نہ کوئی فائل ہے اور نہ مفعول کیونکہ نہ تو کوئی کام کرنے اولا ہے اور نہ کسی پر کام واقع ہوتا ہے، بلکہ فعل (ہے) بیماری کے اثر کو احمد پر ثابت کرتا ہے۔ لہٰذا اس جملے میں احمد اسم ہے اور بیمار اس کی خبر ہے۔ افعال ناقص اکثر یہ آٹے ہیں۔ ہونا، بننا، نکلنا، رہنا، پڑنا، لگنا، نظر آنا، دکھائی دینا۔ ان میں ہونا تو ہمیشہ فعل ناقص کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن باقی افعال کبھی لازم ہوتےہ یں اور کبھی ناقص، مگر نظر آنا اور دکھائی دینا ہمیشہ ناقص ہوتے ہیں۔ علاوہ ان کے ہو جانا، بن جانا، معلوم ہونا بھی افعال ناقص کا کام دیتے ہیں جیسے وہ مکار معلوم ہوتا ہے، وہ پاگل ہو گیا​
مثالیں​
وہ چالاک ہے احمد بے خبر تھا (ہونا فعل ناقص)​
وہ جاہل ہی رہا (ناقص) وہ شہر میں رہتا ہے (لازم)​
وہ بڑا بیوقوف نکلا (ناقص) وہ دروازے سے نکلا (لازم)​
وہ امیر بن گیا = مکان بن گیا =​
وہ بیمار نظر آتا ہے =​
وہ ہوشیار دکھائی دیتا ہے =​
وہ بھلا لگتا ہے = مجھے پتھر لگا =​
وہ بیمار پڑا = میں وہاں پڑا رہا =​
 

قیصرانی

لائبریرین
فعل معدولہ نہ تو لازم ہے اورنہ متعدی، وہ صرف ہونا ظاہر کرتا ہے نہ کہ کرنا، اور اس کا میلان مجہول کی طرف ہوتا ہے۔ فعل کی یہ سب سے سادہ اور ابتدائی قسم ہے جیسے پٹنا، کھلنا، بجنا، بکنا، گھٹنا، کٹنا وغیرہ وغیرہ افعال معدولہ ہیں۔ مثلاً دروازہ کھلا، مال بکا، احمد پٹا۔ اس میں کسی قدر مجہول کی شان پائی جاتی ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔ یہ افعال درحقیقت نہ تو متعدی ہیں اور نہ لازم کیونکہ فاعل کا فعل ثابت نہیں۔ اردو قواعد نویسوں نے فعل کی اس قسم کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ اردو میں کثرت سے اس قسم کے افعال پائے جاتے ہیں۔​
لوازم فعل​
۱۔ طور​
۲۔ صورت​
۳۔ زمانہ​
۱۔ طور​
طور فعل وہ حالت ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کام خود فاعل سے صادر ہوا یا کام کا اثر کسی پر واقع ہوا۔​
جب فائل کے کام کا اثر کسی دوسری شئے یا شخص پر واقع ہو تو اسے طور معروف کہتے ہیں، جیسےا حمد نے نوکر کو مارا۔ یہاں فاعل کے کام کا اثر نوکر پر واقع ہوتا ہے، مگر جب صرف وہ شئے یا شخص معلوم ہو جس پر اثر واقع ہوا ہے اور فاعل معلوم نہ ہو تو اسے طور مجہول کہتے ہیں جیسے اسے خط سنایا گیا۔ یہاں سنانے کا فعل (کام) اس پر واقع ہوا، چونکہ فاعل نامعلوم ہوتاہے اس لئے اسے مجہول کہتے ہیں۔ مجہول کے معنے نامعلوم کے ہیں۔ فعل مجہول قائم مقام فاعل کہلاتا ہے۔ وہ شہر سے نکلوا دیا گای، اسے سمجھا دیا گیا۔ یہاں وہ اور اسے مفعل قائم مقام فاعل ہیں۔​
۲۔ صورت​
ہر فعل کی کوئی نہ کوئی صورت ہوتی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فعل (کام) کس ڈھنگ سے ہوا۔​
فعل کی پانچ صورتیں ہیں۔​
۱۔ خبریہ​
۲۔ شرطیہ​
۳۔ احتمالی​
۴۔ امریہ​
۵۔ مصدریہ​
۱۔ صورت خبر یہ وہ ہے جو کسی فعل کے وقوع کی خبر دے یا کسی امر کے متعلق استفسار کرے جیسے حامد گر پڑا۔ آپ پانی پئیں گے؟​
۲۔ شرطیہ صورت فعل کی وہ ہے جس میں شرط یا تمنا پائی جائے، خواہ حرف شرط ہو یا نہ ہو، جیسے اگر شام کو آپ آجائیں تو میں بھی آپ کے ہمراہ چلوں۔ وہ آتے تو میں بھی چلتا۔ اس میں بعض اوقات توقع اور خواہش کا بھی اظہار ہوتا ہے جیسے وہ آتا تو خوب ہوتا، یہ مکان مجھے مل جاتا تو اچھا ہوتا۔​
۳۔ صورت احتمالی جس میں احتمال یا شک پایا جائے جیسے اسی نے لکھا ہوگا۔ ممکن ہے کہ وہ نہ گیا ہو۔ شاید وہ آ جائے۔​
۴۔ صورت امر یہ جس میں حکم یا التجا پائی جائے جیسے پانی لاؤ۔ تشریف لائیے۔​
۵۔ صورت مصدریہ جس میں کام کا ہونا بلا تعین وقت کے ہو اس کے آخر میں ہمیشہ نا ہوتا ہے جیسےہونا، کرنا، کھانا۔​
مصدر کی آخری علامت نا گرا دینے سے اصل مادہ فعل باقی رہ جاتا ہے اسی سے مختلف افعال بنتے ہیں مثلاً ہو۔ کر۔ کہا وغیرہ۔​
۳۔ زمانہ​
فعل کے لئے زمانے کا ہونا ضرور ہے۔ زمانے تین ہیں۔ گذشتہ، جسے ماضی کہتے ہیں۔ موجودہ، جسے حال کہتے ہیں۔ اور آئیندہ جس کا نام مستقبل ہے۔ ہر فعل یا کام کا تعلق بہ لحاظ زمانے کے ان تینوں میں سے کسی کے ساتھ ضرور ہوگا۔​
مادہ۔ مصدر کی علامت نا گرا دینے سے فعل کا مادہ رہ جاتا ہے، اور اسی سے تمام باقاعدہ افعال بنتے ہیں۔ مثلاً ملنا کا مادہ مل ہے ،اور چلنا کا چل۔ ہندی فعل کا مادہ صورت میں امر مخاطب کے مشابہ ہوتا ہے۔​
حالیہ ناتمام و تمام۔ فعل کے مادے سے حالیہ ناتمام و تمام بنتے ہیں۔​
۱۔ حالیہ ناتمام۔ مادے کے آخر میں تا بڑھانے سے بنا ہے۔​
۲۔ حالیہ تمام۔ مادے کے آخر میں ا بڑھاے سے بنتا ہے۔​
ذیل کی مثالوں سے پوری کیفیت معلوم ہوگی۔​
مصدر مادہ حالیہ ناتمام حالیہ تمام​
ٹلنا ٹل ٹلتا ٹلا​
ڈرنا ڈر ڈرتا ڈرا​
گھلنا گھل گھلتا گھلا​
لیکن جہاں مادے کی آخر میں آ، ای، اُو ہوگا، وہاں یا بڑھانا پڑے گا۔ جیسے کھا سے کھایا، پی سے پیا، کھو سے کھویا۔​
یہ بھی خیال رہے کہ جب آخر میں ی معروف ہے، تو حالیہ تمام کے اول اس کےی صورت صرف زیر کی رہ جاتی ہے، جیسے پی سے پیا۔​
مونث اور جمع کی صورت میں تبدیلی عام قاعدے کے مطابق ہوتی ہے۔ جیسے​
مذکر واحد مذکر جمع مونث واحد مونث جمع​
لاتا ہے لاتا لاتے لاتی لاتیں​
= لایا لائے لائی لائیں​
سہ حرفی مادوں میں دوسرے حروف کی حرکت ساکن ہو جاتی ہے۔ جیسے نکل سے نکلا، پھسل سے پھسلا وغیرہ۔​
البتہ چہہ مفصلہ ذیل مصادر میں حالیہ خلاف مادہ افعال آتا ہے۔​
ہونا، مرنا، کرنا، دینا، لینا، جانا۔​
تیسری صورت حالیہ معطوفہ کی ہے جو مادے کے آخر کے یا کر لگانے سے بنتا ہے۔ جیسے کھا کر، جا کر، مل کے، سن کے۔​
جب حالیہ کے ساتھ ہوا آتا ہے تو مفعول کے معنی دیتا ہے۔ جیسے کھویا ہوا، روتا ہوا وغیرہ۔​
اب بلحاظ زمانہ افعال کی مختلف اقسام کا ذکر کیا جاتا ہے۔​
ماضی​
افعال ماضی کے اقسام یہ ہیں۔ ماضی مطلق، ناتمام، تمام، شرطیہ (تمنائی) احتمالی۔​
ماضی مطلق وہ ہےجس سے محض ایک فعل کے گذشتہ زمانے میں واقع ہونے کی خبر ملے اور بس۔ جیسے احمد گیا، موہن بھاگا۔​
ماضی مطلق اس طرح بنتی ہے کہ مادہ فعل کے آخر ٍ بڑھا دیا جاتا ہے جیسے بھاگ سے بھاگا۔ لیکن اگر مادہ فعل کے آخر میں الف یا واؤ ہو تو بجائے ا کے یا بڑھا دیتے ہیں مثلاً رو سے رویا، کھانے سے کھایا۔ ہوا مستثنٰی ہے۔ لے اور دے کا زیر مجہول لیا اور دیا میں معروف ہو جاتا ہے۔​
جا سے گیا، کر سے کیا اور مر سے موا، بے قاعدہ ہیں۔ لیکن موا اب نہیں بولتے اس کی بجائے مرا آتا ہے موا صرف صفت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ادھ موا، موئی مٹی۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
ماضی ناتمام یہ ظاہر کرتی ہے کہ گذشتہ زمانے میں کام جاری تھا جیسے وہ کھا رہا تھا، یا کھاتا تھا۔ آخری حالت سے عادت ظاہر ہوتی ہے، جس کے ظاہر کرنے کی دو اور صورتیں بھی ہیں جیسے کھایا کرتا تھا، کھاتا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ ماضی ناتمام ایک اور طرح بھی ظاہر کی جاتی ہےمثلاً کہتا رہا، کھاتا رہا، تکتا رہا۔ اکثر یہ صورت فعل کے متواتر جاری رہنے کو ظاہر کرتی تھی یا کسی ایسی حالت کو بتاتی تھی جبکہ دو کام برابر ہو رہے ہوں مثلاً میں ہر چند منع کرتا تھا مگر وہ بکتا رہا، بارش ہوتی رہی اور وہ نہاتا رہا۔ سوائے ان صورتوں کے ماضی ناتمام کے ظاہر کرنے کی ایک اور صورت بھی ہے۔ جیسے پکارا گیا، بکا کیا، سنا کیا، معناً اس کی حالت بھی گذشتہ صورت کی سی ہے۔​
بعض اوقات آخری علامت بھی حذف ہو جاتی ہے جیسے اس میں لڑائی کی کیا بات تھی، وہ اپنا کام کرتا تھا تم اپنا کام کرتے (یعنی کرتے رہتے)۔ میری عاد تھی کہ پہلے کھانا کھاتا پھر پڑھنے جاتا (یعنی کھاتا تھا اور جاتا تھا)، جب کبھی وہ آتے ہزاروں باتیں سنا جاتے (آتے تھے اور سنا جاتے تھے)۔​
ماضی ناتمام جس سے فعل کا زمانہ گذشتہ میں ختم ہو جانا پایا جاتا ہے حالیکہ تمام کے بعد تھا بڑھانے سے بنتی ہے۔ جیسے میں دلی گیا تھا۔اس کی دوسری صورت چکا تھا بڑھانے سے بھی پیدا ہوتی ہے اس میں زیادہ زور ہوتا ہے اور اکثر اسی وقت استعمال ہوتی ہے جبکہ اس سے پیشتر ایک اور کام ہو چکا ہو جیسے وہ میرے پاس آنے سے پہلے نکل چکا تھا، میں جا کر کیا کرتا، اس کا کام پہلے ہی ہو چکا تھا۔​
ماضی احتمالی (یا شکیہ) جس میں احتمال یا شک پایا جائے۔​
حالیہ تمام کے بعد ہوگا بڑھانے سے بنتی ہے جیسے آیا ہوگا، لایا ہوگا۔ کبھی گا حذف ہو جاتا ہے جیسے وہ آیا ہو اور تم نہ ملے ہو۔​
پہلی صورت میں احتمال قوی ہوتا ہے اور دوسری صورت میں ضعیف جیسے وہ ضرور آیا ہوگا۔ ممکن ہے وہ آیا ہو۔​
ماضی شرطیہ (یا تمنائی) جس میں شرط یا تمنا پائی جائے۔​
مادہ فعل کے بعد تا بڑھانے سے بنانے سے بنتی ہے جیسے آتا، جاتا، کرتا۔ بعض اوقات ماضی شرطیہ سے بھی احتمال کے معنی پیدا ہوتے ہیں جیسے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بن بلائے آ جاتا۔ میرا خیال ہے کہ وہ آ جاتا۔​
کبھی یہ زمانہ گذشتہ میں محض وقوع فعل کو ظاہر کرتی ہے جیسے تمہیں کیا وہ اپنا کام کرتا یا نہ کرتا۔ اول میں تمہارے پاس آتا پھر وہاں جاتا یہ کیونکر ممکن تھا۔​
فعل حال​
فعل حال سے زمانہ موجود کا اظہار ہوتا ہے۔​
اس کی چھ قسمیں ہیں۔​
۱۔ سب سے اول وہ سادہ اور قدیم حال مطلق ہے جس کی صورت سے اب تک اس کی اصل ظاہر ہے، مگر موجودہ حالت میں صاف صاف زمانہ حال کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ زمانہ حال کے ساتھ اس میں کئی قسم کے معانی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اردو قواعد نویسوں نے مضارع کے نام سے اسے ایک الگ فعل قرار دیا ہے اور ماضی حال اور مستقبل تینوں زمانوں سے باہر کر دیا ہے حالانکہ ہر فعل کے لئے ضرور ہے کہ وہ ان تینوں میں سے کسی ایک زمانے کے اندر ہو۔ بعض انگریز قواعد نویسوں نے اسے مستقبل کے تحت میں لکھا ہے۔لیکن یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ درحقیقت یہ حال ہے اور اب بھی اس میں حال کے معنی پائے جاتے ہیں اور اس لئے میں اسے حال ہی کے تحت میں رکھنا پسند کرتا ہوں اگرچہ نام اس کا مضارع ہی مناسب ہو گا۔​
مادہ فعل کے آخریا ے مجہول بڑھانےس ے مضارع بنتا ہے جیسے کھا سے کھالے، لا سے لائے۔ جمع میں کھائیں مخاطب میں لاؤ اور لائیں متکلم میں لاؤں اور لائیں۔​
سنسکرت میں چلت تھا، پراکرت میں چلہ ہوا، اس سے چلی اور چلی سے چلے بنا، جو مضارع کی موجودہ صورت ہے۔ یہی قدیم حال مطلق تھا اور اس سے چلے ہے ہوا جو کچھ عرصہ قبل حال مطلق تھا اور اب بھی کہیں کہیں بول چال میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی سے موجودہ حال مطلق چلتا ہے بنا ہے یعنی اس کے تغیرات کی صورت یہ ہوئی۔ جاوے، جاوے ہے، جائے ہے، جاوت ہے، اور جات ہے، اور جاتا ہے۔ جاتا ہے موجودہ فصحیح حال مطلق ہے۔ باقی صورتیں مختلف حصس ملک میں مستعمل ہیں مگر فصحیح نہیں سمجھی جائیں مگر موجودہ حال مطلق انہیں سے ترش ترشا کریں گیا ہے۔ زبان میں افعال اور دیگر جزائے کلام کے متعلق اول اول تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن مرور زمانے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن مرور زمانے کے بعد بعض صورتیں باقی رہ جاتی ہیں اور وہ خاص خاص حالتوں میں استعمال ہونے لگتی ہیں۔ اصل ماہیت پر غور نہ کرنے سے دھوکا ہو جاتا ہے۔​
حالیہ شرطیہ عموماً مضارع سے ظاہر کیا جاتا ہے جیسے وہ قبول کر لے تو زہے عزت، مینہ برسے تو کھیت پنپے۔ بعض حالتوں میں شرط دو طرح سے ظاہر ہو سکتی ہے، ایک حال مطلق سے۔ دوسرے مضارع سے جیسے​
۱۔مینہ برستا ہے تو کھیت پنپتا ہے​
۲۔ مینہ برسے تو کھیت پنپے​
درحقیقت پہلی صورت ایک واقع ہے جو شرطیہ صورت میں ظاہر کیا گیا ہے دوسری صورت اصلی شرطیہ حالت ہے جس میں امید اور توقع یا تمنا پائی جاتی ہے۔​
مضارع کبھی حیرت و استعجاب اور افسوس کے اظہار کے لئے بھی آتا ہے جیسے​
وہ ائیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے​
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں​
افسوس وہ اتنی دور آئے اور بے مرا چلا جائے۔ یوں پھریں اہل کمال آشفتہ حال افسوس ہے۔ بعض اوقات اجازت اور طلب مشورہ کے لئے بھی آتا ہے جیسے اجازت ہو تو اندر آؤں۔ آپ فرمائیں تو وہ جائے۔​
بعض اوقات انسان اپنے دل میں مشورہ کرتا ہے اور متکلم کا صیغہ استعمال کرتا ہے جیسے کیا کروں کیا نہ کروں، کیا کیجئے کچھ بن نہیں پڑتی۔​
۲۔ امر۔یہ دوسری سادہ صورت حال کی ہے۔ امر کے معنی حکم کےہ یں یہ عموماً حکم اور التجا کے لئے آتا ہے جیسے جاؤ، چلو، دور ہو، تشریف رکھیئے۔ اس کا فاعل اکثر محذوف ہوتا ہے۔ اس لئے کہ مخاطب سامنے موجود ہے۔ علامت مصدر گرا دینے کے بعد باقی امر رہ جاتا ہے جیسے کھانے سے کھا، آنے سے آ۔ لیکن بنظر ادب و اخلاق واحد کے لئے جمع بولتے ہیں جیسے دوسرے افعال میں بھی ہوتا ہے۔ جمع مخاطب امر میں واحد کے بعد واؤ یا ی بڑھا دیتے ہیں۔ کرو، بیٹھو، بیٹھیئے۔ واحد سوائے بے تکلفی، بچوں یا نوکروں کو خطاب کرنے یا نظم یا خدا کو خطاب کرنے کے دوسرے مواقع پر استعمال نہیں ہوتا۔​
امر تین معنوں میں آتا ہے۔​
۱۔ حکم جیسے فوراً جاؤ​
۲۔ التجا یا تمنا = براہ کرم تشریف رکھیئے​
۳۔ دعا = بڑی عمر ہو، جیتے رہو​
علاوہ مخاطب کے غائب کو بھی حکم دیا جاتا ہے، یہ صورت مضارع غائب اور امر غائب کی یکساں ہوتی ہے جیسے اسے کہو کہ وہاں جائے۔ یا بلا واسطہ جیسے بہتر ہے کہ وہ ایسا کرے، مناسب ہے کہ اس وقت چلا جائے۔ متکلم کا صیغہ امر میں بہت کم استعمال ہوتا ہے، کیونکہ کوئی شخص نہ اپننے کو حکم دے سکتا ہے نہ اپنے سے التجا کرتا ہے۔ لیکن خاص خاص حالتوں میں مثلاً جب آپس میں یا اپنے آپ سے کچھ کہیں یا مشورہ کریں تو التبہ آتا ہے جیسے مجھے چاہیئے کہ میں آج چلا جاؤں، چاہیے کہ ہم ایسا کریں، میں وہاں جاؤں یا نہ جاؤں، کروں یا نہ کروں۔ لیکن درحقیقت یہ امر نہیں مضارع ہے۔​
بعض اوقات مصدر بھی امر کا کام دیتا ہے۔ اس سے مزید تاکید مقصود ہوتی ہے جیسے جلدی آنا کہیں رستے میں نہ رہ جانا۔ زیادہ تعظیم کے لئے امر غائب جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جیسے آپ تشریف ریکھیں، آپ وہاں نہ جائیں۔ کبھی اور زیادہ تعظیم کے لئے امر کے بعد ی اور ہمزہ بڑھا دیتے ہیں جیسے آئیے، کھائیے وغیرہ۔ جس سادہ امر کے آخر میں ی ہوتی ہے تو وہاں امر تعظیمی کے لئے قبل ی اور ہمزہ کے ج بڑھا دیتے ہیں کیونکہ دو یا اور ہمزہ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے کہ تلفظ میں بہت دقت واقع ہوتی ہے مثلاً کیجئے، لیجئے، دیجئے، پیجئے، چونکہ یا اور جا کا اکثر بدل ہوتا ہے اس لئے سہولت کے خیال سے ج کا استعمال ہوتا ہے۔ اس صورت میں امر کے آخر کی یا ے مجہول بھی معروف ہو جاتی ہے جیسے دینا اور لینا کی ے دیجئے اور لیجئے میں۔ کیجئے کر سے نہیں بنایا گیا بلکہ کیا سے لیا گیا ہے، یہ صورت جمع مخاطب میں دعا کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً خدا تم کو زندہ رکھیو۔ مشرکوں پر لعنت ہو جیو۔ امر کی یہ تعظیمی علامت ے دراصل پراکرت کی علامت اجا سے یا اجا سے ماخوذ ہے پراکرت میں یہ علامت مادہ اور حال و امر و مستقبل کی آخری حروف کے ساتھ اضافہ کی جاتی تھی۔ پراکرت میں یہ سنسکرت سے آئی ہے جہاں التماس و التجا کے لئے استعمال کی جاتی ہے، لیجئے دیجئے وغیرہ میں یہ پھر عود کر آئی ہے۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
کبھی اس صورت تعظیمی کے آخر میں مزید تعلیم کے لئے گا بھی بڑھا دیتے ہیں جیسے آئیے گا، فرمائیے گا، کیجئے گا۔ (یہ درحقیقت مستقبل کی صورت ہے)​
کبھی امر مخاطب جمع کی علامت آخر و سے پہلے ایک ی بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے رہو سے رہیو، بچو سے بچیو۔ یہ صورت ضمائر تو اور تم کے ساتھ استعمال ہوتی ہے، آپ کے ساتھ نہیں آتی۔ عموماً یہ دعا کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ خدا تم کو زندہ و سلامت رکھیو، صد و بست سال کی عمر ہو جیو، مشکروں پر لعنت ہو جیو، (لیجیو، دیجیو، کیجیو کی وہی صورت ہے جو لیجئے دیجئے، کیجئے کی ہے)​
کبھی لیجئے اور دیجئے (بغیر ہمزہ) بھی مخاطب کے لئے استعمال ہوتے ہیں جیسے​
آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجے​
جاتا ہو تو اس کا غم نہ کیجے​
مگر بعض اوقات لیجے بجائے لین (جمع غائب) کے استعمال ہوتا ہے جیسے جو کام نہ ہو سکے اس کا نام کیوں لیجے۔​
مرا سلام وہ لیتا نہیں مگر سمجھا​
کہ یہ غریب ہے اس کا سلام کیوں لیجے​
لیکن ایسے موقع پر اسے مضارع سمجھنا زیادہ مناسب ہوگا۔​
امر میں بعض اوقات حکم کا آئیندہ تک قائم رہنا پایا جاتا ہے۔ مثلاً خدا کا حکم ہے کہ چوری نہ کرو۔ قتل نہ کرو وغیرہ۔​
بعض اوقات کام کا جاری رہنا پایا جاتا ہے۔ جسے امر مدامی کہتے ہیں جیسے جیتا رہ، کرتا رہ، جلتا رہ۔ یہ ہمیشہ امر مطلق کے بعد تا رہ بڑھانے سے بنتا ہے۔​
بعض اوقات حکم میں تشدد اور سختی ظاہر کرنے کے لئے مصدر کے بعد ہوگا بڑھا دیتے ہیں جیسے تمہیں کرنا ہوگا؟ وہاں جانا ہوگا۔ یہ اکثر ایسے مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کسی شخص کو حکم ماننے میں تامل یا انکار ہو۔​
مصدر کے بعد پڑیگا زیادہ کرنے سے بھی یہی معنی پیدا ہوتے ہیں جیسے تمہیں کرنا پڑے گا، لکھنا پڑے گا، جانا پڑے گا۔ اگرچہ یہ صورتیں بظاہر مستقبل کی معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت امر ہیں۔​
۳۔ حال مطلق۔جس سے زمانہ حال عام طور پر بلا کسی تخصیص کے ظاہر ہوتا ہے جیسے آتا ہے، کھاتا ہے۔ یہ مادہ فعل کے آگے واحد غائب میں تا ہے واحد مخاطب میں تا ہے جمع مخاطب میں تے ہو اور واحد متکلم میں تا ہوں بڑھانے سے بنتا ہے۔ جمع غائب اور جمع متکلم کی ایک صورت ہے وہ آتے ہیں، ہم آتے ہیں، آئے ہے، جائے ہے۔ بجائے آتا ہے، جاتا ہے اب متروک سمجھا جاتا ہے، اگرچہ بول چال میں اب بھی مستعمل ہے۔​
۴۔ حال ناتمام۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کام جاری ہے اور ابھی ختم نہیں ہوا۔جیسے وہ آ رہا ہے، وہ کھا رہا ہے، میں پڑھ رہا ہوں۔​
مادہ فعل کے آگے رہا ہے، رہے ہیں، رہا ہوں بڑھانے سے بنتا ہے۔​
حال ناتمام ایک دوسری طرح سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ جیسے مٹائے جاتا ہے، ایک کو ایک کھائے جاتا ہے۔ اس میں کسی قدر زیادہ زور اور فعل کا پے در پے یا متواتر ہونا پایا جاتا ہے۔​
۵۔ حال تمام۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کام ابھی ابھی ختم ہوا ہے۔ جیسے وہ آیا ہے، پیغام لایا ہے۔ حالیہ تمام کے بعد ہے، ہیں، ہوں، بڑھانےسے بتنا ہے۔​
کبھی مادہ فعل چکا ہے، چکا ہوں، چکے ہیں بھی بڑھانے سے حال تمام ظاہر ہوتا ہے جیسے وہ کھا چکا ہے، میں کھا چکا ہوں۔ اس صورت میں مزید تاکید اختتام فعل کی پائی جاتی ہیں۔​
۶۔ حال احتمالی۔جس سے زمانہ حال کے کسی فعل میں احتمال پایا جائے۔ جیسے وہ آتا ہوگایا وہ آ رہا ہوگا سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قریب زمانہ میں واقع ہوگا۔ اگرچہ احتمال ہے اور آ رہا ہوگا سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنے کا فعل جاری ہے، یعنی ظن غالب ہے کہ وہ چل دی اہے، حالت رفتار میں ہے اور آنے کی امید ہے۔​
کبھی گا حذف ہو جاتا ہے، اس حالت میں احتمال ضعیف ہوتا ہے جیسے ممکن ہے کہ وہ آ رہا ہو، کیا تعجب کہ وہ آ رہا ہے۔​
بعض اوقات صورت اول سے ماضی احتمالی کے معنی بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلاً کرتا ہوگا۔ کیا ہوگا اور کرتا ہوگا میں فرق ہے، کرتا ہوگا سے عادت پائی جاتی ہے مثلاًہم کسی سے سوال کریں کہ تم نے کبھی اسے ایسا کرتے دیکھا، وہ جواب میں کہے میں نہیں جانتا۔ کرتا ہوگا۔ تو یہاں صاف ماضی احتمالی کے معنی ہیں۔​
کبھی حال ماضی کے معنی دیتا ہے مثلاً اب بابر ہند پر حملہ کرتا اور راجپوتوں کو شکست دیتا ہے۔ یہ حال حکائی کہلاتا ہے۔ یعنی گذشتہ حالات و واقعات کے بیان کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہیں مولانا روم فرماتے ہیں۔ یا خدا فرماتا ہے۔​
وہ امور یا مسائل جو کبھی باطل نہ ہوں گے یا جن کی نسبت ایسا خیال ہے، ان کے ساتھ ہمیشہ فعل حال آتا ہے۔ جیسے دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔​
فعل مستقبل​
مستقبل مطلق (۱) جس سے محض زمانہ آئیندہ پایا جائے۔​
مضارع کے بعد گا (یا گے یا گی) بڑھا دینے سے بنتا ہے جیسے کھائے گا، آئے گا، مگر مصدر ہوتا سے ہوگا مستثنٰی ہے۔ پرانی اردو میں ہوئے گا استعمال ہوتا تھا مگر اب متروک ہے۔ ہے گا اب بھی بول چال میں مستعمل ہے اور حال یعنی ہے کے معنوں میں آتا ہے، مگر غیر فصیح ہے۔ اسی طرح ہوگا بھی بعض اوقات حال کے معنی دیتا ہے۔ جیسے تجھ سے بڑھ کر بھی کوئی بے وقوف ہوگا (یعنی ہے)​
مستقبل مدامی (۲) جس میں آئیندہ زمانہ میں کام کا جاری رہنا پایا جائے جیسے کرتا رہے گا، چلتا رہے گا۔​
جو اس شور سے نیر روتا رہے گا​
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا​
حالیہ ناتمام کے بعد رہے گا بڑھانے سے بن جاتا ہے۔​
مگر جاتا ہے مستقبل مطلق ہے۔ جیسے اس کا کام جاتا رہے گا، یعنی ہاتھ سے نکل جائے گا یا بگڑ جائے گا۔ اس کا مصدر جاتا رہنا (ضائع ہونا) مصدر مرکب ہے۔​
رہے گا سے ایک قسم کا استثنٰی ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے آپ جائیے وہ آتا رہے گا، آپ چپ رہیئے وہ خود بخود پڑھتا رہے گا۔​
کبھی ماضی بھی مستقبل کے معنی دیتی ہے، اگر وہ آ گیا تو ضرور جاؤں گا، وہ آیا اور میں چلا (یہاں دونوں ماضیاں مستقبل کے معنی دیتی ہیں)۔​
کبھی حال بھی مستقبل کے معنی دیتا ہے جیسے میں کل صبح جاتا ہوں (اگرچہ زیادہ فصیح نہیں ہے)۔ مصدر کے بعد والاکا لفظ بھی استقبل کے معنی دیتا ہے اور مصدر ہونا کے حال کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے جیسے میں کتاب لکھنے والا ہوں، وہ اب جانے اولا ہے۔ اس سے قریب کا آئیندہ زمانہ ظاہر ہوتا ہے۔​
بعض اوقات علامت مستقبل گر جاتی ہے جیسے ایسا کبھی ہوا اور نہ ہو (یعنی نہ ہوا)​
گا علامت مستقبل جدید تراش ہے، پراکرت اور قدیم ہندی میں اس کا کہیں پتہ نہیں۔ قدیم ہندی میں زمانہ مستقبل کو مضارع کے ذریعہ سے ظاہر کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ طریقہ ناکافی سمجھا گیا اور اس لئے زیادہ تر امتیاز کے لئے مستقبل کے لئے ایک الگ علامت قائم کی گئی۔​
گا دراصل سنسکرت کے مصدر گام کی ماضی مجہول گہتا ہے، اور پراکرت کی گاؤ سے ماخوذ ہے۔ ہندی میں بھی مصدر جانا کی ماضی گیا ہے۔ زمانہ وسطٰی کے شعرا نے گیا کا اختصار گا کر دیا۔ جو مذکر میں استعمال ہوااور گائی اس کی تانیث ہوئی جو بعدمیں گی رہ گئی۔​
مصدر کے بعد کا، کے، کی لانے سے بھی مستقبل مطلق کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیشہ نفی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تاکیدی معنی دیتا ہے جیسے وہ نہیں آنے کا، میں نہیں آنے کا۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
فعل کی گردان​
فعل کی گردان مین تین باتوں کا لحاظ ہوتا ہے۔ جنس۔ تعداد اور حالت​
جنس و تعداد​
جنس کے معنی تذکیر و تانیث، متعداد کے معنی واحد و جمع کے ہیں۔​
اردو میں فعل مذکر و مونث کی صورت میں فرق ہوتا ہے۔ واحد مذکر غائب میں ا اور مونث میں فرق ہوتا ہے۔ واحد مذکر غائب میں اور مونث میں ی معروف جیسے آیا اور آئی، تھا اور تھی، آتا اور آتی، ہوگا اور ہوگی۔ جمع مذکر غائب میں ے مجہول، مونث میں اس کے آگے صرف ں بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے آئے اور آئیں۔ جن افعال میں اصل فعل کے بعد کوئی دوسرا فعل یا علامت لگائی جاتی ہے، ان کی گردان میں ذرا اختلاف ہے مثلاً ماضی بعید و فعل حال مطلق و تمام میں بحالت مذکر اصل فعل اور علامت دونوں کو بدلنا پڑے گا۔ جیسے آئے تھے، آیا ہے، آئے ہیں، آتا ہے، آتے ہیں، تو آتا ہے، تم آتے ہو، مگر بحالت مؤنث امدادی فعل کو بدلنا پڑے گا۔ جیسے آئی تھی، آئی تھیں، آئی ہے، آئی ہیں، آتی ہے، آتی ہیں، تو آتی ہے، تم آتی ہو۔​
مگر فعل مستقبل میں بحالت مذکر تو یہی صورت قائم رہے گی یعنی اصل فعل اور علامت دونوں بدل جائیں گے، لیکن مونث کی صورت میں اصل فعل تو بدل جائے گا مگر علامت نہیں بدلے گی۔ جیسے آئے گی، آئیں گے، آئے گی، آؤ گی، آئے گا وغیرہ​
حال امریہ میں مونث اور مذکر کی کوئی تمیز نہیں۔ جیسے چل اور چلو، مذکر اور مونث دونوں کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ تمام افعال کے جمع متکلم میں تذکیر و تانیث کے صیغے یکساں آتے ہیں غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ بالمشافہ باتیں کرنے میں تذکیر و تانیث کا امتیاز فضول ہے۔ لیکن جہاں عورتوں وغیرہ کا لفظ یا کوئی اور قرینہ موجود ہو تو فرق کر دیا جاتا ہے۔ جیسے ہم سب عورتیں جائیں گی۔ ہم سب سہیلیاں یا بہنیں جائیں گی۔​
حالت​
فعل کی تین حالتیں ہیں۔ غائب، واحد اور متکلم اور ان میں سے ہر ایک کی بہ لحاظ تعداد دو دو حالتیں ہیں، اس لئے کل چھ ہوئیں اور پھر بہ لحاظ جنس کے ان چھ کی دو دو حالتیں ہیں۔ اس لئے ہر فعل کی بارہ حالتیں ہوئیں ان میں سے ہر ایک کو صیغہ کہتے ہیں۔​
گردان افعال​
ماضی​
۱۔ ماضی مطلق​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لایا وہ لائے تو لایا تم لائے میں لایا ہم لائے​
مونث وہ لائی وہ لائیں تو لائی تم لائیں میں لائی ہم لائے​
۲۔ ماضی تمام​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لایا تھا وہ لائے تھے تو لایا تھا تم لائے تھے میں لایا تھا ہم لائے تھے​
مونث وہ لائی تھی وہ لائی تھیں تو لائی تھی تم لائی تھیں میں لائی تھی ہم لائے تھے​
۳۔ ماضی ناتمام​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لاتا تھا یا وہ لاتے تھے یا تو لاتا تھا یا تم لاتے تھے یا میں لاتا تھا یا ہم لاتے تھے یا​
لایا کرتا تھا لایا کرتے تھے لایا کرتا تھا لایا کرتے تھے لایا کرتا تھا لایا کرتے تھے​
مونث وہ لاتی تھی یا وہ لاتی تھیں یا تو لاتی تھی یا تم لاتی تھیں یا میں لاتی تھی یا​
لایا کرتی تھی لایا کرتی تھیں لایا کرتی تھی لایا کرتی تھیں لایا کرتی تھی​
۴۔ ماضی احتمالی​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لایا ہوگا وہ لائے ہوں گے تو لایا ہوگا تم لائے ہوگے میں لایا ہوں گا ہم لائے ہوں گے​
مونث وہ لائی ہوگی وہ لائیں ہوں گی تو لائی ہوگی تم لائی ہوگی میں لائی ہوں گی ہم لائے ہوں گے​
۵۔ ماضی شرطیہ​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ کرتا وہ کرتے تو کرتا تم کرتے میں کرتا ہم کرتے​
مونث وہ کرتی وہ کرتیں تو کرتی تم کرتیں میں کرتی ہم کرتے​
فعل حال​
۱۔ حال قدیم یا مضارع​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ+ لائے وہ لائیں تو لائے تم لاؤ میں لاؤں ہم لائیں​
مونث = = = = = =+ ماضی مطلع جمع غائب اور مضارع واحد غائب کی صورت یکساں ہے ان میں تمیز کرنا ضروری ہے خصوصاً جبکہ ضمیر غائب واحد اور جمع میں ایک ہی ہے۔​
۲۔ حال مطلق​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لاتا ہے وہ لاتے ہیں تو لاتا ہے تم لاتے ہو میں لاتا ہوں ہم لاتے ہیں​
مونث وہ لاتی ہے وہ لاتی ہیں تو لاتی ہے تم لاتی ہو میں لاتی ہوں ہم لاتے ہیں​
 

قیصرانی

لائبریرین
۳۔ حال ناتمام​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لا رہا ہے وہ لا رہے ہیں تو لا رہا ہے تم لا رہے ہو میں لا رہا ہوں ہم لا رہے ہیں​
مونث وہ لا رہی ہے وہ لا رہی ہیں تو لا رہی ہے تم لا رہی ہو میں لا رہی ہوں ہم لا رہے ہیں​
۴۔ حال تمام​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لایا ہے وہ لائے ہیں تو لایا ہے تم لائے ہو میں لایا ہوں ہم لائے ہیں​
مونث وہ لائی ہے وہ لائی ہیں تو لائی ہے تم لائی ہو میں لائی ہوں ہم لائے ہیں​
۵۔ حال احتمالی​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ آتا ہوگا یا وہ آتے ہوں گے یا تو آتا ہوگا یا تم آتے ہوگے یا میں آتا ہوں گا یا ہم آتے ہوں گے یا​
آ رہا ہوگا آ رہے ہوں گے آ رہا ہوگا آ رہے ہوں گے آ رہا ہوں گا آ رہے ہوں گے​
مونث وہ آئی ہوگی یا وہ آتی ہوں گی یا تو آتی ہوگی یا تم آتی ہوگی یا میں آتی ہوں گی یا ہم آتے ہوں گے​
آ رہی ہوگی آ رہی ہوں گی آ رہی ہوگی آ رہی ہوگی آ رہی ہوں گی آ رہے ہوں گے​
۶۔ امر​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لائے وہ لائیں تو لا تم لاؤ میں لاؤں ہم لائیں​
مونث وہ لائے وہ لائیں تو لا تم لاؤ میں لاؤں ہم لائیں​
فعل مستقبل​
۱۔ مستقبل مطلق​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لائے گا وہ لائیں گے تو لائے گا تم لاؤ گے میں لاؤں گا ہم لائیں گے​
مونث وہ لائے گی وہ لائیں گی تو لائے گی تم لاؤ گی میں لاؤں گی ہم لائیں گے​
۲۔ مستقبل مدامی​
واحد غائب جمع غائب واحد حاضر جمع حاضر واحد متکلم جمع متکلم​
مذکر وہ لاتا رہے گا وہ لاتے رہیں گے تو لاتا رہے گا تم لاتے رہو گے میں لاتا رہوں گا ہم لاتے رہیں گے​
مونث وہ لاتی رہے گی وہ لاتی رہیں گی تو لاتی رہے گی تم لاتے رہو گے میں لاتی رہوں گی ہم لاتے رہیں گے​
طور مجہول​
اسے مجہول اس لئے کہتے ہیں کہ فعل کا فاعل معلوم نہیں ہوتا۔​
طور مجہول عموماً اور اکثر افعال متعدی ہوتا ہے۔​
جس فعل متعدی کا مجہول بنانا ہو ا س فعل کے ماضی مطلق کے آگے مصدر جانا سے جو زمانہ بنانا منظور ہو وہی زمانہ بنا کر لگا دیا جائے۔ مثلاً کھانے سے حال مطلق مجہول بنانا منظور ہے، تو کھانے کے ماضی مطلق کے آگے جانا کا حال مطلق لگا دیا جائے گا تو وہ ہوگا کھایا جاتا ہے۔ اسی طرح کھایا جائے گا (مستقبل) کھایا گیا (ماضی مطلق) کھایا جاتا تھا (ماضی ناتمام) کھلا دیا جائے گا (امر غائب یا مضارع)۔​
افعال معدولہ طبعی طور پر مجہول واقع ہوئے ہیں۔ پٹنا، لٹنا، پٹنا، پلنا، کھلنا، بٹنا (تقسیم ہونا)، چھدنا، سجنا، کٹنا، سلنا، مثلاً وہ پٹا، اب یہاں بظاہر وہ فاعل معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ نہیں ہے پٹنے والا کوئی اور ہی ہے، وہ صرف قائم مقام فاعل ہے۔ اس میں یوں تھا وہ پٹا گیا۔​
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا​
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو​
اس شعر میں نہ لٹتا کے معنی ہیں نہ لوٹا جاتا۔ اسی طرح آتا تلا۔ ظاہر ہے کہ آٹا خود بخود تو تلتا نہیں تولنے والا کوئی اور ہے۔ اسی لئے آتا فاعل کیسے ہو سکتا ہے دراصل تھا آتا تولا گیا۔ اسی طرح کپڑے سلے، روپے بٹے، گھوڑ الدا، کان چھدا، دروازہ کھلا، لکڑی کٹی وغیرہ وغیرہ۔​
بعض اوقات فعل لازم کے ساتھ بھی طور مجہول استعمال ہوتا ہے جیسے مجھ سے وہاں جا کر آیا نہ گیا، مجھ سے اتنی دور نہیں چلا جاتا، مجھ سے آیا نہیں جاتا۔ لیکن یہ صورت ہمیشہ نفی کے ساتھ آتی ہے اور اس کے معنی بھی خاص ہیں یعنی یہ ہمیشہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جبکہ فاعل یا قائل کو کسی فعل کا کرنا منظور نہیں یا وہ اس کے کرنے سے معذور ہے۔ انہی معنوں میں یہ طور مجہول افعال متعدی کے ساتھ بھی آتا ہے جیسے مجھ سے کھانا کھایا نہ گیا۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
گل مین اسکی سی جو بو آئی تو آیا نہ گیا
ہم کو بن دوش ہوا باغ مین لایا نہ گیا (میر)
یہان گیا کے معنی "سکے" کے ہین، اگرچہ صورت مجہول کی ہے۔
لیکن بعض اوقات جانا بطور فعل امدادی کے دوسرے افعال کے ساتھ آتا ہے مثلاً کھا جانا، ڈر جانا، اٹھ جانا۔ لہذا ان افعال مین اور طور مجہول مین فرق کرنا چاہیے۔ اس کا امتیاز بآسانی اسی طرح ہوسکتا ہے کہ اگر فعل کے ساتھ صورت فاعلی استعمال ہوسکتی ہے تو وہ طور معروف ہے اور اگر نہین ہوسکتی تو وہ طور مجہول ہے۔
طور مجہول مین جو جانا استعمال ہوتا ہے وہ درحقیقت پراکرت کے طور مجہول سے ماخوز ہے پراکرت مین طور مجہول کے بنانے کے لیے اِجّا مادہ معل کے آگے بڑھا دیتی ہے (سنسکرت مین علامت مجہول یا ہے) ماڑواڑی اور غالباً سندھی مین اب تک پراکرت کی اصل کا پتہ لگتا ہے۔ مارواڑی مین طور مجہول کے لیے اجنو بڑہاتے ہین۔ جیسے کراحنبو لینے کیا جانا۔ مرور زمانہ اور نیز اصل پر نظر نہ رہنے سے غالباً اجا کا جا جا نا کا جا سمجھا گیا۔ اور رفتہ رفتہ طور مجہول کے لیے جانا استعمال ہونے لگا۔
افعال کی نفی
۱۔افعال کے شروع مین یہ یا نہین لگانے سے فعل منفی ہوجاتا ہے۔ مثلاً وہ اب تک نہین آیا، تم کل کیون نہیں آئے، اسے کچھ نہ ملا۔
بعض اوقات نہین بعد مین آتا ہے جیسے مین تمام دن انتظار کرتا رہا مگر وہ آیا ہی نہین، صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، وہ بیٹھا تو نہیں، یہ اکثر تخصیص کے موقع پر ہوتا ہے، لیکن نظم مین پابندی نہین۔
۲۔ نہ اور نہین کے استعمال مین فرق ہے۔ ماضی شرطیہ اور مضارع کے ساتھ نہین استعمال نہین کرتے بلکہ نہ استعمال ہوتا ہے۔ اگر وہ نہ آتا تو خوب ہوتا۔ اگر وہ نہ آئے تو مین کیا کرونِ، تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا نہوتا تو خدا ہوتا
ڈبو یا مجھ کو ہونے نے نہوتا مین تو کیا ہوتا
جمال شرطیہ کے دوسرے حصہ مین بھی جسے جزا کہتے ہین نہین نہین آتا۔ جیسے اگر وہ آتا تو اچھا نہوتا۔ بعض اوقات اسکے استعمال مین غلطی ہوجاتی ہے۔ مثلاً مین اگر بجائے نہین کے ہوتا تو بہتر اور فصیح تر ہوتا۔ ماضی مطلق مین شرط کے ساتھ بھی اکثر نہین استعمال نہین کرتے جیسے اگر اسن نے نہ مانا تو کیا ہوگا۔
وہ نہ آیا تو ہی چل رنگین
اسمین کیا تیری شان گھٹتی ہے
۳۔ حال امریہ کی نفی اورمت دونون سے آتی ہے جیسے۔ نہ کر، مت کر مین مزید تاکید پاتئی جاتی ہے۔
۴۔ ماضی مطلق کے ساتھ اکثر اور عموماً نہین آتا ہے۔ لیکن جب ماضی احتمالی کی آخری علامات تھا محذوف ہو تو ہمیشہ نہ استعمال ہوگا جیسے ممکن ہے کہ وہ نہ سمجھا ہو اور یونہی چلا گیا ہو۔
۵۔ فعل مستقبل کی نفی مثل دوسرے افعال کے آتی ہے لیکن کبھی مصدر کے بعد ک(کی،کے) لگادینے سے مستقبل کے معنے پیدا ہوجاتے ہین مگر یہ صورت ہمیشہ نفی کے ساتھ آتی ہے اور اس سے تاکید مخصوص ہوتی ہے جیسے مین نہین آنے کا، ہم نہین آنے کے، وہ نہین آنے کی ایسی صرت مین نفی کے لیے ہمیشہ نہین آتا ہے۔
۶۔ نفی حال مطلق مین آخری علامات ہے یا ہین حذف ہوجاتی ہے۔ جیسے مین نہین آتا، وہ نہیں آتا، اس سے نہین کہا جاتا۔
کوئی صورت نظر نہین آتی
کوئی امید بر نہین آتی
لیکن جب کسی جملہ کے دونون حصون مین حرف نفی لانا مقصود ہو تو نہ لکھنا چاہیے۔ اس وقت آخر کا فعل امدادی (یعنےئ ہے یا نہین) کی نفی نہین بلکہ جملے کی صورت ہی منفی واقعی ہوئی ہے۔ حال تمام کے ساھت بھی نہیں استعمال ہوتا ہے اور آخیر سے فعل امدادی ہے یا ہین گرجاتا ہے۔ جیسے وہ اب تکن نہین آیا(آیا ہے)۔
۷۔ ایسے افعال کو جو کسی اسم یا صفت اور فعل سے مرکب ہون انکی نفی دو طرح ہوتی ہے یا تو صرف نفی اسم باصفت اور فعل کے اول ہوتی ہے یا فعل کے اول جیسے مین یہ کتاب نہین پسند کرتا، اور مین یہ کتاب پسند نہین کرتا۔ مین ان باتون سے نہین خوش ہوتا اور مین ان باتون سے خوش نہین ہوتا۔ ہماری رائے مین فعل کے ساتھ حرف نفی لانا بہتر ہے۔
۸۔ بعض افعال کے آخر مین حرف نفی کبھی زائد بھی آتا ہے، مگر اس مین ایک قسم کی تاکید اثباتی پائی جاتی ہے۔ جیسے آؤ نہ وہاں چلین، آخر نہین آیا نہ۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کرین کوہ طور کی
افعال کا تعدیہ
سوائے ایک آدھ کے باقی تمام افعال معدولہ و افعال لازم متعدی بن سکتے ہین اور متعدی متعدی المتعدی جیسے ڈرنا سے ڈرانا، چلنا سے چلانا، یہ لازم سے متعدی ہوے۔ دنیا سے دلانا، کھانا سے کھلانا، متعدی سے متعدی المتعدی۔
اسکے علاوہ ایک قسم متعدی بالواسطہ کی ہے جس کے معنی یہ ہین کہ فعل کے وقع کےلیے کسی دوسرے شخص کے واسطہ کی ضرورت ہے۔ جیسے کھانا متعدی کھلانا متعدی المتعدی، کھلوانا متعدی بالواسطہ۔
۱۔اول افعال سعو معدولہ و لازم سے متعدی اور متعدی سے متعدی المتعدی بنانے کے قاعدے لکھے جاتے ہین۔
ا۔ عام قاعدہ فعل معدولہ یا لازم کو متعدی سے متعدی کو متعدی المتعدی بنانے کا یہ ہے کہ فعل کے مادے کے آگے ا بڑہا دیا جائے، جیسے چلنا سے چلانا، ملنا سے ملانا، اٹھنا سے اٹھانا، پکڑنا سے پکڑانا۔
لیکن اگر ایسے افعال کا دوسرا حرف متحرک ہو تو متعدی بنانے کی حالت مین ساکن ہوجائے گا۔ جیسے پگھلنا سے پگھلانا، پکڑتا سے پکڑانا، سمجھنا سے سمجھانا۔
ب۔ کبھی ماوہ فعل کے آخر حرف سے قبل ا بڑہا دیا جتات اہے جیسے نکلنا سے نکالنا، اترنا سے اتارنا، ابھرنا سے ابھارنا، بگڑنا سے بگاڑنا۔
ج۔ کبھی پہلے حرف کی حرکت کو اسکے موافق حرف علت سے بدلنے سے یعنے زبر کو الف سے جیسے مرنا سے مارنا، تپنا سے تاپنا، ٹلنا سے ٹالنا، تھمنا سے تھامنا، کٹنا سے کاٹنا زیر کو ی سے جیسے چرنا سے چیڑنا، پھرنا سے پھیرنا، گھرنا سے گھیرنا، پسنا سے پیسنا، گھسٹنا سے گھسیٹنا، کھنچنا سے کھینچنا، نبڑنا سے نبیڑنا، پیش کو واؤ سے جیسے مڑنا سے موڑنا، جڑنا سے جوڑنا، کھلنا سے کھولنا، لٹنا سے لوٹنا، گھلنا سے گھولنا۔ مصادر مین بعص اوقات ٹ ڑ سے بدل جاتی ہے جیسے ٹوٹنا سے توڑنا، پھوٹنا سے پھوڑنا، پھٹنا سے پھاڑنا۔
د۔ کبھی مصادر چار حرنی مین جبکہ حرف دوم حرف علت ہو تو اس حرف علت کو ساقط کرکے حرف اول کو اسکے موافق حرک دیتے ہیں اور اسکے آگے آ یا بجائے ا کے لا بڑھا دیتے ہین۔ جیسے رونا سے رلانا، پینا سے پلانا، سونا سے سلانا، دھونا سے دھلانا، جینا سے جلانا، جیتنا سے جتانا، کھانا سے کھلانا (اس مین خلاف قاعدہ پہلے حرف کو زیر دیا گیا ہے) جاگنا سے جگانا، بیٹھنا سے بٹھانا(یا بٹھلانا جو فصیح نہین) ڈوبنا سے پہلے ڈبانا آتا تھا، لیکن اب وہ غیر فصیح سمجھا جاتا ہے، آج کل ڈبونا کہتے ہین۔ اسی طرح بھیگنا سے بھگونا آتا ہے۔
اگر مصدر پانچ حرفی ہے اور دوسرا حرف حرف علت ہے تو حرف علت حذف کرکے پہلے حرف کو اکے موافق حرکت دیتے اور اسکے آگے ا بڑہا دیتے ہین۔ جیسے توڑنا سے تڑانا، تیرنا سے ترانا، جاگنا سے جگانا، بھاگنا سے بھگانا۔
۲۔ متعدی بالواسطہ کے بنانے کے یہ قاعدے ہین۔
ا۔ کبھی علامت مصدر کے اول الف بڑہا دینے سے جیدے کرنا سے کرانا۔
ب۔ کبھی وا بڑہانے سے۔ دوسرا حرف علت ہوتو گرجاتا ہےاور اسکے بجائے اسکے موافق حرکت آجاتی ہے۔ جیسے تولنا سے تلوانا، اٹھانا سے اٹھوانا، دبنا دے دبوانا، جھاڑنا سے جھڑوانا، تیسرا اور چوتھا حرف علت بھی گرجاتا ہے۔
جیسے نچوڑنا سے نچڑوانا، بیچنا سے بکوانا آتا ہے، کیونکہ مصدر معدولہ اسکا بکنا تھا اس سے متعدی بیچنا ہوا، اور متعدی بالواسطہ بکوانا۔ متعدی بالواسطہ اکثر صورت اول کی طرف عود کرتا ہے۔
۳۔ بیٹھنا سے بٹھانا اور بٹھلانا، دیکھنا سے دکھانا اور دکھلانا، سیکھنا سے سکھانا اور سکھلانا، سوکھنا سے سکھوانا اور سکھلانا دو دو آتے ہین لیکن بٹھلانا، سکھانا، دکھلانا زیاد فصیح نہین سمجھے جاتے۔ یہی حال بتلانے کا ہے۔
۴۔ بعض مصادر کے متعدی دو طرح آتے ہین جیسے دبنا کا متعدی دابنا بھی ہے اور دبانا بھی لیکن ان کے معنون مین فرق ہے، دابنا کے معنے چنپی کرنے کے ہین اور دبانا کے معمولی معنے ہین۔
ٹوٹنا لازم ہے، توڑنا اور تڑوانا دونون اکے متعدی ہین، توڑنا عام طور پر ایک چیز کے توڑنے کو کہین گے۔ لیکن تڑانا صرف اسے وقت استعمال کرین گے جب کوئی جانور رسی توڑ کر بھاگ جائے۔ جیسے بیل رسی تڑا کر بھاگ گیا۔
اسی طرح گھلنا کے دو متعدی ہین، ایک گھولنا دوسرا گھلانا۔ گھولنا جیسے دا یا نمک یا اسی قم کی اشیا کے متعلق کہین گے جو پانی وغیرہ مین گھل سکین لیکن گھلانا ایسے موقع پر بولین گے جیسے غم نے اسے گھلادیا۔طور لازم گھلنے مین بھی یہ معنے پائے جاتےہین لیکن گھولنا جو متعدی ہے اس مین یہ معنی نہین ہین البتہ دوسرے متعدی گھلانے مین یہ معنے ہین۔
اسی طرح بھولنا اور بھلانا دونون متعدی بیک مفعول ہین مگر معنون مین فرق ہے۔
جیسے وہ مجھے بھول گیا، یعنے درازی مدت یا کسی اور وجہ سے، اسنے مجھے بھلادیا یعنے جان بوجھ کر۔ وہ لکھا پڑھا سب بھول گیا، اس نے لکھ پڑہا سب بھلادیا۔ پہلے فقرے مین ایسی وجوہ ہین جو اختیاری نہین ہین دوسرے مین ارادہ یا ایسی وجوہ پائی جاتی ہین جو ایک حد تک اختیاری تھین۔
۵۔ کبھی امدادی افعال کے لانے سے متعدی بنتا ہے جیسے وہ اسے لے ڈوبا، وہ اسے لے بھاگا، وہ مجھ پر آپڑ۔ ڈوبنا، بھاگنا اور پڑنا افعال لازم ہین مگر افعال امدادی کے آنے سے متعدی ہوگئے۔
۶۔ سنسکرت مین علامت تعدیہ ا یا تھی، پراکرت مین ا ے ہو ی۔ یہ اے بعض اوقات ماوہ، فعل کے آگے بڑہادی جاتی تھی۔ لیکن زیادہ تر پراکرت مین جو سنسکرت مین بعض مادون کے ساتھ تھی آ کے اضافہ سے ا پہ ہوکر استعمال ہوتی تھی۔ تھوڑے ہی عرسہ بعد پ کا بدل ب ادرو سے ہوگیا یعنی ا پے سے ابے اور ابے سے اوے ہوا اور یہہندی مین وا اور آہ رہ گیا۔ مثلاً سنسکرت مین کری سے کار یا پراکرت مین کارے اور بعد ازان کراوے(بجائے کراپے) ہندی کرا۔ بعض ہندی مصادر مثلاً بھگونا اور ڈبونا اور گڑونا مین جو واؤ آگیا ہے وہ درحقیقت اوا کا بگاڑ ہے۔

بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک سوال یہ ہے کہ بفعض افعال کے تعدیہ مین ل کہان سے آیا۔ بعض کا خیال ہے کہ صرف نون کو اچھا معلوم ہونے کی وجہ سے ل بڑہا دیا گیا مگر یہ ٹھیک معلوم نہین ہوتا زیادہ تر قرین قیاس دوسری توجیھ ہے جو یہ ہے کہ سنسکرت کا اے بدل کر آل یا آر ہوا۔ اسکی مثالین موجود ہین کہ ی سنسکرت مین ل سے بدل جای ہتے اور ل اور رکا بدل ہوتا ہی ہے، اسکے بعد پھ لا را ہوگیا چناچہ ہندی اور پنجابی مین لا اور ہندی مین را زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
مرکب افعال
افعال مرکب دو طرح سے بنتے ہین۔
۱۔ ایک دوسرے افعاک کی مدد سے جنھین افعال امدادی کہتے ہین۔
۲۔ دوسرے افعال کو اسمایا صفات کے ساتھ ترکیب دینے سے۔
امدادی افعال
ہندی افعال موجودہ حالت مین ان ترکیبی پیچیدگیون سے آزاد ہوگئے ہین جو سنسکرت مین پائی جاتی ہین بلکہ اب ہندی فعل نے ترکیبی طرز چھور کر تفصیلی طریقہ اختیار کیا ہے یعنی بجائے فعل کے تغیر سے نئے معنی پیدا کرنے کے دوسرے افعال کی مدد سے وہ معنی پیدا کیے جاتے ہین۔ یہ طریقہ زیادہ آسان اور ترقی یافتہ ہے اور اس سے اسے کچھ نقصان نہیں پہونچا بلکہ امدادی افعال کی مدد سے بیشمار لطیف اور نازک معنی پیدا ہوجاتے ہین۔ اردو زبان مین امدادی افعال نے بڑی وسعت اور نزاکت پیدا کردی ہے۔ اکثر اوقات امدادی افعال سے معنی مین جو فرق پیدا ہوجاتا ہے وہ ایسا ناک اور پرلط ہوتا ہے کہ بیان مین نہین آسکتا۔ یہ ذکر زیادہ تر نحو سے متعلق ہے لیکن چونکہ فعل کا بیان یہاں مفصل آچکا ہے لہذا موقع کے لحاظ سے یہ بھی یہین لکھاجاتا ہے۔
۱۔ سب سے زہادی کارآمد اور کثیر الا استعمال امدادی فعل ہو (سنسکرت نہو) ہے۔ اس سے اکثر افعال بنتے ہین۔ مثلاً ماضی ناتمام، تمام، احتمال، فعل حال کے مختلف اقسام اور مستقبل سی کی امداد سے بنتے ہین۔
ناکی گردان یہ ہے۔
ماضی۔ ہوا تھا
حال۔ ہے یاہوتا ہے
مستقبل۔ ہوگا
ہونا کی مدد سے جو فعل بنتے ہین اگرچہ انکا ذکر فعل کے بیان مین ہوچکا ہے لیکن بعض خاص صورتین ایسی ہین جو وہان مذکورہ نہین ہوئی۔ ان کا ذکر یہان کیا جاتا ہے۔
مثلاً آیا ہوتا یا سنا ہوتا وغیرہ۔ اگر وہ آیا ہوتا تو مجھے ضرور اطلاع ہوتی۔ یہ شرطیہ صورت کے ساتھ زمانہ ماضی کے لیے آتا ہے۔
ماضی شرطیہ یہ ہے کہ اگر وہ آتا تو مجھے ضرور اطلاع ہوتی۔ اسمین اور اسیمین کچھ یون ہی سا فرق ہے۔ البتہ پہلی صورت مین زیادہ زور پایا جاتا ہے۔
ب۔ کیا ہو، سناہو۔ جیسے کہین، تم نے کبھی اس کا نام سنا ہے۔ دوسرا شخص اسکے جواب مین کہے ممکن ہے سنا ہو (مگر اس وقت یاد نہین) یا کہین سنا ہوگا۔
پہلی صورت مین احتمال خفیف ہے، دوسری مین قوی۔ یا مثلاً ممکن ہے اس نے ایسا کیا ہو۔ اور غالبا اس نے ایسا کیا ہو۔
ج۔ آتا ہوتا، کرتا ہوتا وغیرہ جیسے اگر وہ ایسا کرتا تو اب تک نہ بچتا (یعنے وہ ایسا نہین کرتا) اگر پڑھتا ہوتا تو آج بڑے عہدے پر ہوتا۔ یہ بھی صورت شرطیہ ہے اور نفی عادت کو ظاہر کرتا ہے۔
۲۔ بعض امدادی افعال تکمیل فعل مین تقید ظاہر کرتے ہین۔ مثلاً دینا، لینا، جانا، ڈالنا، پڑھا، رہنا۔
دینا سوائے چل دینا کے اکثر متعدی اور متعدی المتعدی کے ساتھ آتا ہے۔
جیسے سمجھا دینا، بتادینا، نکال دینا، ہٹا دینا۔ بعض صورتون مین اسی مین ضبر کی جھلک بھی پائی جاتی ہے جیسے مین نے اسے گھر سے نکال دیا۔ اٹھا کے پھینک دیا، پٹک دیا وغیرہ۔
ب۔ لینا اس مین تکمیل فعل کے ساتھ فاعل کی قربت فائدہ یا جانب داری ظاہر ہوتی ہے جیسے بلالینا، رکھ لینا، اسی طرح سن لینا، لے لینا، بچالینا، کھالینا وغٰیرہ وغیرہ۔
طور لازم و متعدی دونون کےساتھ آتا ہے امدادی افعال دینا اور لینا مین فرق یہ ہے کہ لینا مین اپنا فائدہ یا قرب ظاہر ہوتا ہے اور دینا مین بخلاف اسکے دوسرے کا فائدہ یا قرب نکلتی ہے، گویا ایک دوسرے کے برعکس ہین۔ معافی کا یہ فرق مثال ذیل سے بخوبی عیان ہے۔
۱۔ مین نے اسے سمجھالیا
۲۔ مین نے اسے سمجھا دیا
پہلے جملے سے ظاہر ہے کہ مین نے معاملہ اسے اس طرح سمجھایا ہے جس مین میرا فائدہ ہے، دوسرے جملے یہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے جو کچھ بھی سمجھایا گیا ہے وہ اسی کے فائدے کے لیے ہے یا عام الفاط مین یون کہنا چاہیے کہ لینا مین فعل فاعل کی جانب جانتا ہے اور سی کی غرض ملحوظ ہوتی ہے مگر دنیا مین فاعل سے نکل کر مفعول کی جانب پہنچتا ہے جیسے مین نے کتاب میز پر رکھدی اور مین نے کتاب جیب مین رکھ لیے۔ اسی طرح بٹھادینا اور بٹھالینا (یعنی اپنے پاس) مگر ایسے افعال جیسے پی لینا، کھالینا مین صرف فعل کی تکمیل ظاہر ہوتی ہے۔
(ج) جانا بکثرت افعال کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر طور لازم کے ساتھ جیسے ٹوٹ جانا، بکھر جانا، بگڑ جانا، چلے جانا وغیرہ وغیرہ۔
اس سے صرف تکمیل فعل ظاہر ہوتی ہے، اور بعض وقت یہ بھی نہین بلکہ سادہ فعل کے بجائے عموماً جانا مرکب کرکے بولتے اور لکھتے ہین جیسے مل جانا، ہوجانا، ٹوٹ جانا۔ جانا سے بعض بہت ہی لطیف محاورے بن گئے مثلاً پانا سادہ فعل ہے لیکن پاجانا کے معنی ہی دوسرے ہین یعنی تاڑنا۔ اسی طرح کھونا کھوئے جانا وغیرہ وغیرہ۔
(د) آنا اور جانا میں وہی نسبت جولینا اور دینا مین ہے۔ آنا بطور امدادی فعل کے بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ اور وہ بھی زیادہ افعال ابتدائی یا معدولہ کے ساتھ جیسے بن آنا، اکثر یہ افعال کے ساتھ آکر تکمیل فعل کے معنی دیتا ہے اور ساتھ ہی ظاہر کرتا ہے کہ فاعل کسی کام کو انجام دے کر واپس آگیا جیسے مین اسے دیکھ کر آیا ہون، ہو آیا ہون۔ ان معنون مین وہ لازم اور متعدی دونون کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔
(ہ) ڈالنا اس مین تکمیل فعل کسی قدر زیادہ زور کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے، نیز اس میں جبر کی شان بھی پائی جاتی ہے جیسے مارڈالنا، مسل ڈالنا، کاٹ ڈالنا، بگاڑ ڈالنا وغیرہ۔
(و) رہنا جیسے بیٹھ رہنا، سورہنا، وہان جاکے بیٹھ رہا، اس سے فعل کا ایک حالت پر قائم رہنا پایا جاتا ہے جیسے وہ سنتا ہے اور وہ سن رہا ہے، وہ کھیلتا ہے اور کھیل رہا ہے، آخری صورتون مین مصروف ہونا اور فعل کا جاری رہنا ہونا ظاہر ہوتا ہے، مگر جاتے رہنا کے معنی ہین تلف ہوجانے اور ضائع ہوجانے کے۔
(ز) پڑنا جیسے دکھائی پڑنا۔ دوسرے معنی اسکے دوسری جگہ بیان کیے جائینگے۔
(ح) بیٹھنا، اس مین بھی جبر اور زور پایا جاتا ہے جیسے سینے پر چڑھ بیٹھا، لڑ بیٹھا۔
۳۔ چکنا اختتام فعل کو کامل طور پر ظاہر کرتا ہے جیسے کام ہوچکا۔ کام کرچکا۔
مین خط لکھ چکا۔ وہ کھاچکا۔ ان تمام جملون سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کام ختم ہوگیا ہے۔
۴۔ بعض افعال سے امکانی حالت اور قابلیت یا اجازت ظاہر ہوتی ہے۔
(۱) سکنا۔ جیسے مین کرسکتا ہون۔ وہ نہیں دیکھ سکتا(اس سے قابلیت فعل کی ظاہر ہوتی ہے)۔
وہ نہین بول سکتا، وہ نہین جاسکتا، مین نہیں جاسکون گا۔ اجازت کے معنون مین بھی استعمال ہوتا ہے وہ نہیں آسکتا، کیا میں آسکتا ہون۔
سکنا کبھی تنہا استعمال نہین ہوتا، ہمیشہ کسی دوسرے فعل کے ساتھ بطور فعل امدادی کے آتا ہے۔
(ب) دینا سے بعض اوقات اجازت کے معنی نکلتے ہین، جیسے اسے آنے دو، اسے کس نے آنے دیا۔
(ج) کبھی کبھی پانا بھی سکنے اور اجازت کے معنون مین آتا ہے مگر ہمیشہ مصدر کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے وہان کوئی نہین جانے پاتا۔ کیا مجال کے آدمی ٹھہرنے پائے۔

بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
آج اس سے کوئی ملنے نہ پایا
کسی کو اس شہ خوبان تلک جانا نہیں ملتا
مگر خلوت مین اسکے ایک مین ہی جانے پاتا ہون
یہا ملنے کے معنی بھی سکنے کے آئے ہین۔ یہ ہمیشہ مصدر کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔
(د) جانا بھی کبھی کبھی سکنے کے معنی دیتا ہے۔ جیسے مجھ سے چلا نہیں جاتا، اس سے کھانا نہیں کھایا جاتا۔
۵۔ بعض امدادی افعال سے فعل کے جاری ہونے یا فاعل کی عادت کا اظہار ہوتا ہے جیسے۔
(۱)کرنا۔ وہ آیا کرتا تھا، کہا کرتا تھا، آیا کرو۔ اسی طرح رویا کیا، سنوار کیا۔
(ب)رہنا۔ جیسے وہ بولتا رہا، سوتا رہا، وہ کھیلتا رہتا ہے، سوتا رہتا ہے۔
(ج)جانا بھی کبھی کبھی ان معنون مین آتا ہے، ہزار منع کرو مگر وہ اپنی سی کہی جاتا ہے، بکے جاتا ہے، ایک کو ایک کھائے جاتا ہے۔
ناامیدی مٹائے جاتی ہے
شوق نقشہ جماے جاتا ہے
خاص یہ صورت عموماً فعل حال ہی کے ساتھ استعمال ہوتی ہے، ماضی مین اسکا استعمال دوسری طرح ہوتا ہے جیسے وہ پڑہتا جاتا تھا اور مین لکھتا جاتا تھا۔ حال جیسے پانی بہتا جاتا ہے۔ (یعنی فعل آہستہ آہستہ جاری ہے)۔
۶۔ بعض امدادی افعال دوسرے افعال کے ساتھ مل کر کسی کام کے دفعتہً ہوجانے یا کرنے کے معنون کا اظہار کرتے ہین۔
(۱)بیٹھنا جیسے کہہ بیٹھا، کر بیٹھا، وہ ایسے کام اکثر بے سوچے سمجھے کر بیٹھتا ہے۔
اس مین فعل کے یکایک ہوجانے یا بے سوچے سمجھے کرنے کے معنی پیدا ہوتے ہین۔
(ب) اٹھنا بھی انھین معنون مین آتا ہے جیسے بول اٹھا۔
(ج) پڑنا بھی جیسے لڑپڑا، آپڑا، جاپڑا۔
(د)نکلنا جیسے بہ نکلا، چل نکلا۔ یعنی حالت سکون سے دفعتہً حرکت مین آجانے کے معنی دیتا ہے۔ ان معنون مین نکلنا بہت کم استعمال ہوتا ہے شاید زیادہ تر انھین دو مصدرون کے ساتھ آتا ہے۔ آنکلا اور جانکلا دفعتہً نمودار ہوجانے کے معنون مین ہے۔
۷۔ لگنا کام کے آغاز کو بتاتا ہے، جیسے کہنے لگا، کھانے لگا، منھ سے پھول جھڑنے لگے۔ مگر یہ صورت صرف ماجی مطلق ہی مین استعمال ہوتی ہے، کبھی کبھی حال مین بھی استعمال ہوتا ہے جیسے وہ بیان کرنے لگتا ہے تو دو دو گھنٹے دم نہین لیتا مگر عام طور پر صرف لگا (ماضی مطلق) مصدر کے بعد آنے سے ان معنون مین آتا ہے۔
۸۔ پڑا (ماضی مطلق) کسی دوسرے فعل کے شروع مین آنے فعل مین زور اور کثرت کے معنی پیدا کرتا ہے اور عموماً ایسے افعال کے ساتھ آتا ہے جس مین کام کا جاری رہنا پایا جائے۔ جسے منھ سے پھول جھڑ رہے ہین، پڑا مارا پھرتا ہے، پڑا روتا پھرتا ہے، باغون کے نیچے نہرین پڑی بہ رہی ہین۔
۹۔ چاہنا ایک تو فاعل کی خواہش ظاہر کرتا ہے، دوسرے یہ بتاتا ہے کہ کام قریب زمانہ آئندہ مین ہونے والاہے مگر اصل فعل ہمیشہ ماضی کی صورت مین رہتا ہے جیسے وہ بولا چاتہتا تھا، دیھکئے کیا ہوا چاہتا ہے۔ یہ حالت صرف فعل مین استعمال ہوتی ہے۔
خواہش ظاہر کرنے کے لیے اصل فعل صورت معدریہ کے ساتھ ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے اس نے بولنا چاہا، وہ بولنا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یعنی معنی مصدر کے الف کو یا ئے مجہول سے بدلنے اور اس کے بعد کو اور ہونا کے افعال ماضی و حال بڑھانے سے پیدا ہوتے ہین جیسے کہنے کو ہے، جانے کو ہے وغیرہ۔
۱۰۔ چاہنا سے چاہیے بطور امدادی فعل کے مستعمل ہے۔ یہ اخلاقی امر یا فرض منصبی کے جتانے کے لیے آتا ہے، اور ہمیشہ مصدر کے بعد استعمال ہوتا ہے جیسے انھین وہان جانا چاہیے، تم کو وقت پر حاجر ہونا چاہیے، انسان کو سب سے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔
۱۱۔ ے فعل کے شروع مین آنے سے اپنے ساتھ کسی دوسرے شخص یا شے کو لے جانے یا مبتلا کرنے کے معنون مین آتا ہے جیسے لے بھاگنا، لے اوڑنا، لے ڈوبنا لے مرنا وغیرہ۔
۱۲۔ رہا اور چھوڑا جب حالیہ کے بعد آتے ہین تو اسکے معنی ہوتے ہین کہ باوجود، مشکلات کے پوری سعی کے ساتھ کام انجام دیا جیسے کرکے رہا، مکان بنا کے چھوڑا۔
۱۳۔ کبھی فعل مین تکرار ہوتا ہے، یعنی دوسرا فعل اسی کا مترادف یا اکسا ہم آواز کے ساتھ آتا ہے اور معنون مین زور پیدا کردیا ہے۔ جیسے دیکھ بھال کر، سوچ ساچ کر، مین شام کو ہارا تھکا گھر پہنچا، وہ مردون کے گاڑنے دابنے مین مصروف ہے، پیس پاس کر مسالہ تیار کردیا، دھل دھلا کر خاصہ سفید ہوگیا، گرتے پڑتے گھر پہنچ گیا، اسی طرح چلنا پھرنا، سینا پرونا، کھانا پینا، رونا دھونا وغیرہ۔
۲۔اسما و صفات کے ترکیب سے
۱۔ ہندی اسم یا صفت کے ساتھ سادہ مصادر کا آنا جیسے پوجا کرنا، نام دہرانا، برا کہنا، اچھا کہنا، دم لینا، دم دینا، دم مارنا، دم توڑنا، رکھوالی کرنا، ادھار دینا، ڈینگ مارنا، چھلانگ مارنا، مار کھانا، غوطہ کھانا، جاڑا لگنا، تاک لگانا، پتہ لگانا، ہل چلانا، رستہ دیکھنا وغیرہ وغیرہ کی بکثرت اور بیشمار مستعمل ہین۔
۲۔ فارسی اسم کے ساتھ ہندی مصدر کا آنا جیسے دل دینا، باز آنا، باز رکھنا، دلاسا دینا، پیش آنا، بر آنا، برلانا وغیرہ۔
۳۔ عربی اسم کے ساتھ جیسے شروع کرنا، یقین کرنا، یقین لانا، علاج کرنا، جمع ہونا وغیرہ۔
۴۔ فارسی یا عربی صفت کے ساتھ جیسے قوی کرنا، روشن کرنا، مشہور کرنا، ضعیف ہونا وغیرہ۔
۵۔ بعض اوقات ہندی اسما یا صفات مین کسی قدر تغیر کرکے نا علامات لگادیتے ہین اور مصدر بنالیتے ہین۔ جیسے پانی سے پنیانا، جوتی سے جتیانا ساتھ سے سٹھیانا، مکی سے مکیانا، پتھر سے پتھرانا، ٹھوکر سے ٹھکرانا، چکر سے چکرانا، لالچ سے للچانا، کچے سے کچیانا، لنگڑے سے لنگڑانا، بھن بھن سے (جو مکھیون کی آواز ہے) بھنبھنانا، ٹھن ٹھن سے ٹھنٹھنانا، بڑبڑ سے بڑبڑانا، من من سے منمنانا وغیرہ۔
۶۔ بعض مصدر اردو مین ایسے ہین کہ عربی یا فارسی افعال یا اسما کے آگے ہندی مصدر کی علامات نا لگاکر اردو بنالیا گیا ہے۔
مثلاً فارسی کے فرما سے فرمانا، بخش سے بخشنا، آزما سے آزمانا، نواز سے نوازنا، گرم سے گرمانا، نرم سے نرمانا، داغ سے داغنا، خرید سے خریدنا۔
اسی طرح عربی کے بدل سے بدلنا، بحث سے بحثنا، قبول سے قبولنا، دفن سے دفنانا، کفن سے کفنانا۔
افسوس ہے کہ اس طرح مصدر بنانے کا رواج جاتا رہا ہے حالانہ اس سے زبان مین بڑی وسعت ہوسکتی ہے۔
۷۔ بعض اوقات علامات مصدر حذف ہوجاتی ہے، مگر یہ اس وقت ہوتا ہے۔ جب کہ دوسرا مصدر ساتھ ہو۔ جیسے بنا جانا، نبا آنا، بن آنا، لٹا آنا وغیرہ۔
ایک ہم ہین کہ کہ دیا اپنی بھی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہین جنہین تصویر بنا آتی ہے
۸۔ بعض مصدر بالکل اسم کے طور پر مستعمل ہین۔ جیسے کھانا اور بتانا (بتانا چوڑیون کے پیمانے کو کہتے ہین)۔
۵۔ تمیز فعل
تمیز فعل یا متعلق فعل۔ فعل کی کیفیت بیان کرتا ہے اور اسکے آنے سے فعل کے معنون مین تھوڑی بہت کمی بیشی واقعی ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات یہ صفت کے ساتھ آکر بھی یہی کام دیتا ہے۔ چند متعلقات فعل ایسے ہین جو ہندی ضمائر سے بنے ہین اور چونکہ وہ سب سے سادہ یہن لہذا انکا ذکر اول کیا جائے گا اور انکے ساتھ اسی قسم کے دوسرے الفاظ بینا کیے جائیں گے اسما سے نے ہین۔
۱۔ زمان۔ اب، جب، تب، کب
یہ سب الفاظ سنسکرت س ماخوز ہین۔ مثلاً جب اور تب سنسکرت کے الفاظ یاوت اور تاوت سے بنے ہین، جو پراکرت مین جاکر جاوا اور تاوا ہوے اور ان سے ہندی کے جب اور تب بنے۔ یہی حال اب اور کب کا ہے۔
انکے علاوہ دوسرے ہندی الفاظ جو تمیز فعل زمان کا کام دیتےہ ہین یہ ہین۔
آگے، پیچھے، پہلے، آج، کل، پرسون، اترسون، تڑکے، ترت، نت، سدا، سویرے، پھر۔
فارسی الفاظ ان معنون مین ی مستعمل ہین۔
ہمیشہ، جلد، جلدی، یکایک، اچانک، ناگاہ، ناگہان، بعدازان، شب و روز۔
۲۔ مکان، یہان، وہان، جہان، تہان، کہان۔ یہ الفاظ بھی سنسکرت سے ماخوذ، ہین۔ ہان یا ان جو سنسکرت کے لفظ ستہان کا مخفف ہین، جس کے معنی جگہ کے ہین۔ ضمیری مادے کے میل سے یہان اور ہان بن گئے۔ کہان کا کاف سنسکرت کے لفظ کت سے ہے جس کا بگاڑ کد ہے جو اب بھی قصیات و دیہات مین مستعمل ہے اور اسی سے مرہٹی مین اکا دے بنا ہے۔
اس کے علاوہ ہندی مین تمیز فعل مکان کے لیے یہ الفاظ آتے ہین۔
آگے، پیچھے، پرے، ورے، پاس، اوپر، نیچے، بھیتر، باہر، اندر،
۳۔ سمت۔ اِدھر، اُدھر، جدھر، تدھر، (ہندے کدھر)۔
ان الفاظ کی اصل ٹھیک طور پر معلوم نہین ہوئی۔ بعض کا خیال ہے کہ پراکرت ضمیر ازیذرِہا (سنسکرت اورشا) سے ماخوذ ہین۔
۴۔ طور و طریقہ، یون، جون، کیون، کیونکر، کیسے (بمعنے کیون)
یہ الفاظ سنسکرت کے لفظ ایوم پراکرت ایوام سے نکلے ہین جنکی صورت بعد مین امی اور ام ہوئی ہندی مین یون۔
علاوہ انکے دوسرے الفاظ یہ ہیں ٹھیک، اچانک، دھیرے، ہوئے لگاتار، برابر، تابڑ توڑ، سچ مچ، جھوٹ موٹ، کسی قدر، کسی قدر، تھوڑا، بہت جھٹ، جھٹ پٹ۔
فارسی عربی کے الفاظ ذرا، تخمیناً، تقریباً، خصوصاً، زیادہ، بالکل، مطلق، بعینہ، بجنسہ، ہر چند، سوا، حسیہ، یعنی من وعن، باہم ، فوراً، دفعتہً، ناگہان، ناگاہ، یکایک، فی الفور، القصہ، الغرض، فی الجملہ وغیرہ۔
۵۔ برائے تعداد۔ ایکبار، دوبار، وغیرہ اکثر ایک ایک، دو دو وغیرہ اتنا، جتنا، کتنا۔
۶۔ ایجاب و انکار۔ ہان، جی، جی ہان، نہین، تو۔
شاید، غالباً، یقیناً، بیشک، بلاشبہ، ہرگز، زنہار، بارے، البتہ، فی الحقیقت۔

بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
۷۔ سب وعلّت۔ اس لیے، اس طرح، چنانچہ، کیونکر، لہذا۔
۸۔ مرکب تمیز فعل۔ کبھی دو تمیز فعل مل کر آتے ہین جیسے کبتک، جب کبھی، جہان کہین، جہان جہان، کہین نہ کہین، کبھی نہ کبھی، اِدھر اُدھر، اندر باہر۔
9۔ بعض اوقات ایک ایک دو دو لفظ مل کر بطور جز و جملہ کے حال کا کام دیتے ہین جیسے رفتہ رفتہ، خوشی خوشی، ایک ایک کرکے، روز روز، آئے دن، گھڑی گھڑی، ہونہو، دھوم دھام، دونون وقت ملتے۔ آس پاس، اطراف و جوانب، جم جم، نت نتم کیون نہین، الگ الگ، صبح و شام، چوری چھپے، آہستہ آہستی، جون تون، جون کا تون۔
عربی جملے کماحقہ، حتی الاامکان، کما ینبغی، من وعن، حتی المقدور، حاصل کلام، طوعاً کرہاً آخر الامر وغیرہ۔
۱۰۔ بعض اسما کے بعد سے، تک، مین وغیرہ آنے سے تمیز فعل بن جاتے ہین۔ جیسے کبتک۔ خوشی سے، زور سے عقلمندی سے، بھولے سے، پھرتی سے ، آرام مین، غم مین بیٹھا۔ فارسی کی ب فارسی الفاظ کے ساتھ آنے سے کام دیتی ہے جیسے بخوشی، بخوبی، بدل و جان۔
۱۱۔ بعض اسما وار کے ساتھ مل کر یہ معنی دیتے ہین جیسے تفصیل وار، ہفتہ وار، ماہوار، نمبردار وغیرہ۔
۱۲۔ بعض الفاظ صفات بھی تمیز فعل ہوتے ہین۔ مثلاً خوب، ٹھیک، بجا، درست، جیسے خوب کہا۔ بجا فرمایا۔ ٹھیک کہتے ہو، درست فرماتے ہین۔
ہزار اور لاکھ کثرت کے معنون مین تمیز فعل کا فائدہ دیتے ہین۔ جیسے مین نے لاکھ سمجھایا کچھ اثر نہوا۔ ہزار سر مارا گر وہ ٹس سے مس نہوا۔ لاکھ طوطے کو پڑہایا پر وہ حیوان ہی رہا۔
۱۳۔ کبھی اسمائے عام بھی تمیز فعل کے معنون مین آتے ہین جیسے انگون بڑہتا ہے یا نسون اچھلتا ہے گٹھنیون چلتا ہے۔ بھوکون مرتا ہے۔ جھوٹون بھی نہ پوچھا (یہ سب الفاظ جمع مین استعمال ہوتے ہین)
۱۴۔ بعض اوقات افعال حالیہ بھی متعلقات فعل کا کام دیتے ہین جیسے کھلکھلا کر ہنسا، بلبلا کر روہا۔
حروف
حروف وہ مستقل الفاظ ہین جو تنہا بولنے یا کہنے مین کچھ معنی نہ پیدا کرین۔ جسے کو۔ تک۔ جب وغیرہ۔
اردو مین انکی چار قسمین ہین۔
۱۔ ربط
۲۔ عطف
۳۔ تخصیص
۴۔ فجائیہ
بشکریہ فہیم​
 

قیصرانی

لائبریرین
1- ربطحروف ربط وہ ہین جو ایک لفظ کا علاقہ کسی دوسرے سے ظاہر کرتے ہین۔
(1) کا' کے' کی​
(2) نے۔
(3) کو' تئین'سے'مین'تک'پر۔یہ مذکورہ بالا حروف ربط سادہ قسم کے ہین جو عموماً اسما کے ساتھ کے ساتھ آتے ہین اور انکی حالت کا پتہ دیتی ہین مثلاً (نمبر1) حالت اضافی کے لیے (نمبر2) حالت فا علی کے لیے (نمبر3) حالت مفعولی انتقالی یا ظرفی کے لیے ہین۔اگرچہ بظاہر یہ حروف بہت سادہ معلوم ہوتے ہین' لیکن جب انکی اصل پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سنسکرت مین مستقل الفاظ تھے لیکن زمانہ کے تغیرات سے رفتہ رفتہ ایسے ہو گئے کہ وہ اب محض ایک سادہ علامت کا کام دیتے ہین۔ مثلاً کنے جو پرانی اردو مین پاس کے معنون مین استعمال ہوتاتھا اصل مین کرن یا کرنے سے ہے جس کے معنی کان کے ہین چونکہ قریب کا عضو ہے اس لیے اسکے یہ معنی ہو گئے یہی حال دوسرے حرف کا ہے۔ کا (مذکر واحد) کے (جمع مذکر) کی (واحد و جمع مونث) اسماء و ضمائر دونون کے ساتھ استعمال ہوتے ہین۔یہ لفظ کرتا کی خرابی ہین جو سنسکرت کے فعل کری کا مفعول ہے۔ پراکرت مین کرتا کے ساتھ معمولی علامت کا اضافہ کی گئی۔ بعد ازان ت نکل گئی اور ری کا ی ر سے بدل ہو گیا اور لفظ کی صورت کیرا کا ہو گئی پراکرت مین یہ لفظ حالت اضافی حالت کے ساتھ استعمال ہوتا تھا، رفتہ رفتہ اضافت تو مٹ گئی اور یہ اسکی جگہ قائم ہو گیا۔ اسی لفظ سے بعد مین کیرو، کرا، کر، کے نکلے جو قدیم ہندی مین حالت اضافی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اور انھین کی مختلف صورتین برج اور ہندی کے کو، کُو اور کا ہین اور جن انکے شروع سے ک نکل گیا' تو باقی را اور اسکی دوسری صورتین ری رے پیدا ہو گئین جو ضمیر ذاتی مین صرف متکلم کے ساتھ استعمال ہوتی ہین۔نے صرف فاعل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اور وہ بھی افعال متعدی مین سنسکرت کا مفعول لگیا ہرا کرت مین لگیو ہوا' وہان سے ہندی لگے، لے، نے بنے، گجراتی اور پنجانی مین نے مفعول اور فاعل دونون کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن چونکہ ہندی مین مفعول کی علامت کو موجود ہے لہذا نے صرف فاعل کے لیے مخصوس ہو گیا۔کو بعض کا خیال ہے کہ یہ بھی کرتا سے اسی طرح نکلا ہے جیسے کا، لیکن زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ سنسکرت کے ظرف کا کشے سے بنا ہے۔ کا کشے کا کشا سے نکلا ہے جس کے معنی بغل کے ہین اسی سے پنجابی کچھ بمعنی بغل ہے اور بنگالی کا چھے بھی اسی سے بنا ہے جسکے معنی اس زبان مین نزدیک کے ہین کیونکہ بغل سب سے قریب ہے، اسلیئے اسکے یہ معنی ہو گئے، قدیم ہندی مین کا کہہ اور کا کہم ہوا، کا کہم سے معمولی تغیر و تبدل کے بعد کاہان، کہان، کہاؤں، کاؤن، اور کبنا۔سے سنسکرت کے لفظ سانگے س ہے جسکے معنی معیت کے ہین۔مین سنسکرت کی لفظ مدہیا سے بنا ہے، مدہیا کی مختلف صورتین رفتہ رفتہ مدہیا۔ مدہی، مہی، ماہی، اور ماہ ہوئین، ان مین و ہا ہا اور یا سے بدلا اور یا بعد مین ای ہوی اور پھر ای بھی غائب ہو گئی۔مانجھ (جسکے معنی درمیان کے ہین) بھی اسی سے ہے' اسکے بعد کی صورتین ما ہین، مہان، مین، مون ہین، غرض مین آخر مین، ہین سے بنا ہے۔پر سنسکرت کے اپری ہے۔تک سنسکرت مین ایک نقط تر تیا ہے جسکی اصل تری ہے اور جو سنسکرت مین انھین معنون مین آتا ہے جیسے اردو مین تک، تری کے ساتھ کو آضافہ کیا گیا تو تر یکیو ہوا ر اڑ گئی۔ تک رہ گیا۔تلک کی بھی یہی اصل ہے تریکوین ، ل سے بدلی گی۔ ( ر اور ل کا بدل عام طور پر ہوتا ہے) تو تلیکو بنا اور تلیکو سے تلک بن گیا ہندی اور پرانی اردو اور آج کل کے دیہاے مین بھی لگ بمعنی تک کے آتا ہے چونکہ لگ کے معنی قریب پہونچنے کے ہین اور تک اور تلک حد کو بتاتا ہے کہ اسے چھو سکتے ہین اسی لیے لگ ان معون مین استعمال ہونے لگا۔تئین بھی غالباَ سنسکرت کے لفظ تریتا سے ہے۔انکے علاوہ اور بہت سے الفاظ ہین جو حروف ربط کا کام دیتے ہین خاص کر وہ الفاظ جو حال کے لیے آتے ہین انین سے اکثر ربط کے واسطے بھی استعمال ہوتے ہین مثلاً پاس، تلے، پیچھے، آگے، بن، بیچ، سمیت، اوپر، نیچے، باہر، لیے،ساتھ، سامنے، مارے، جیسے (تمھارے مارے مین وہان نہ گیا (دھوپ کے مارے سر دکھنے لگا)۔اسی طرح بہت سی فارسی و عربی کے الفاظ بھی حروف ربط کا کام دیتے ہین جیسے بغیر، اندر، نزدیک،باعث،واسطے، سسب، سوا، طرح نسبت، بجا، بجز، موجب، پیش، پس،قبل،گرد،درمیان،ہندی کے بعض حروف ربط دو دو مل کر آتے ہین اور حرف کا کام دیتی ہین جیسے وہ چھت پر سے گر پڑا۔ نالی مین سے نکل گیا، یہ تو اس مین کا ہے۔ دیوار پر سے کود گیا۔​
2- حروف عطفحروف عطف وہ ہین جو دولفظون ہا جملون کو ایک حالے مین ملائین جیسے جوان اور بوڑھے سب تھے۔ ہرکارہ آیا اور خط دیکر چلا گیا۔ مین تو آگیا مگر وہ نہین آیا۔ اگر ہم جاتے تو وہ نہ جاتا۔انکی کئی قسمین ہین۔​
(1) وصل (2) تردید (3) استدراک (4) استثنا (5) شرط (6) علت (7) بیانیہ
1- وصل کے لیے اور و کیا ۔۔۔ ۔ کیا، کہ، یا، اس مین و اور کہ فارسی ہین، مثالین۔جوان اور بوڑھے سب تھے۔ ہر کارہ آیا اور خط دے کر چلا گیا۔ بادشاہ و وزیر کھڑے ہین۔ کیا وہ اور کیا تم دونو ایک ہو۔ اس نے کہا کہ ابھی مت جاؤ اور اعر و کے استعمال مین فرق ہے جس کا ذکر نحو مین کیا جائے ھا ۔ یا جیسے کوئی ہے یا نہین۔ کہ بھی انھین معنون مین آتا ہے۔ جیسے کوئی ہے کہ نہین۔​
2- تردید نہ نہ۔ خواہ۔ چاہے یا یا۔ نہ وہ آیا نہ تم آئے۔ خواہ تم آؤ خواہ اسے بھیجدو۔ چاہے رہو چاہے چلے جاؤ۔ یا یہ کو یا وہ۔
3- استدراک۔ پر، لیکن، بلکہ جہان یہ لفظ آتے ہین تو جملون کے مضمون مین جو مغائرت ہوتی ہے ان الفاظ کے آنے سے شک وشبہ رفع ہو جاتا ہے۔ یہ سب سچ ہے پر وہ نہین مانتا، اس نے بہت سی شرطین پیش کین لیکن مین نے ایک نہ مائی۔ ایک نہین بلکہ دو ہین۔
4۔ استثنا۔ مگر الا۔سب آئے مگر وہ نہین آیا' سب آئے الا وہ نہین آیا۔​
5۔ شرط جو ' اگراور جو تم نے کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا، جو دوئی کی بوبہی ہوتی تو کہین دوچار ہوتا (غالب) اگر وہ نہ آیا تو مجھے جانا پڑے گا۔ورنہ اور نہین تو اور تو شرط کے جواب مین آتے ہین۔وہ آیا تو آیا ورنہ مجھے خود جانا پڑے گا۔کچھ کہتے ہو تو کہو نہی تو مین جاتا ہون،پہلے جملے مین حرف شرط آتا ہی اور دوسرے جملہ مین جواب کے لیے اکثر تو آتا ہے۔ اسی لیے جزا کہتے ہین۔​
6۔ علت۔۔ سو ۔ پس۔ اس لیے لہذا بنا برین، کیونکہ۔ اس لیے کہ آپ نے اسے جانے کا حکم دیا تھا سو وہ گیا۔ اس نے ہمین حاظر ہونے کو کہا تھا، پس ہم حاضر ہوگئے۔ بعض حروف عطف علت و معلوم کے لیے جوڑا جوڑا آتے ہین۔ جیسے ۔ چونکہ آپ نہ تھے اس لیے مین نہ آیا۔مین وہان نہین گیا، کیونکہ آپ نے منع کر دیا تھا۔مین نے اسے اپنے گھر بلا بھیجا۔ اس لیے کہ مین چلنے سے معذور تھا۔​
بشکریہ مقدس
155 صفحات تک یہاں ہو گئے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
تا اور تاکہ اور مبادا کو بھی اسی صمن مین سمجھنا چاہیے۔ مثلاًَ کتنابین بھیجدیجیئے تاکہ جلدیندھوا دون۔ آپ کہہ بھیجئیے سادا وہ نہ آئے۔
3۔ حروف تخصیص
حروف تخصیص جب کسی اسم یا فعل کے ساتھ آتے ہین تو ایک خصوصیت یا حصر پیدا کر دیتے ہین۔
حروف تخصیص یہ ہین۔ ہی ۔تو۔ بھی۔ ہر
کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی جیسے اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
ہین جہان سو ہزار ہم بھی ہین۔
فعل کے ساتھ یہ حرف استعمال ہوتے ہین۔
کسی نے انکو سمجھایا تو ہوتا۔ صاف چھپتے بھی نہین سامنے آتے بھی نہین۔
ہر شخص اپنی اپنی فکر مین مبتلا ہے۔ ہر چیز مین کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہے۔
ہر عموماً ایک کے ساتھ مل کر آتا ہے ۔ جیسے ہر ایک آدمی پر لازم ہے کہ اپنا فرض ایمانداری سے ادا کرے۔ ہر ایک کا یہ مقدور نہین۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہین کہو کہ انداز گفتگو کیا ہے
کوئی اور کسی کے ساتھ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ جیسے ہر کسی کے کہنے کا یقین کیونکر ہو سکتا ہے۔
اب تو ہر کوئی تمہاری سی کہنے لگا۔
ہی بعض اسما و ذمائر و حروف کے ساتھ مل کر مرکب بنتا ہے۔ مثلاً
کب ہی کے ساتھ مل کر کبھی ہواجب ہی کے ساتھ مل کر جبھی ہوا
اب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ابہی
تب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔تبہی
سب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ سبھی
کہان۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ کہین
وہان۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ وہین
یہان۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یہین
وہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ وہی
یہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ یہی
اس۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اسی
اس۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اسی
تم۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ تمھین
ہم۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ہمین
تجھ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ تجھی
مجھ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ مجھی
جون۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ جونہین
یون۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ یونہین
4۔ حروف فجائیہ

وہ الفاظ جو جوش یا جذبے مین بےتحاشا زبان سے نکل جاتے ہین۔
جیسے ہین ہین ! اوہو! ہائے وغیرہ
مختلف جذبات و تاثیرات کے لیے الگ الگ حروف مستعمل ہین بعض اوقات جملہ ان معنو نہین استعمال ہوےا ہے جیسے ماشاءاللہ ! لوحش اللہ
1- حرف ندا۔ اے، یا، ہوت
اے اور یا کے سوا باقی حروف خلاف تہذیب سمجھے جاتے ہین۔
ارے۔ ابے۔ اجی۔ ارے او۔ بے او۔
عموماً یا تو بےتکلفی مین یا چھوٹے درجے کے ذلیل لوگوں کے استعمال کیے جاتے ہین۔۔
فارسی کی طرح کبھی الف اسم کے آگے بڑہا دیا جاتا ہے۔ جیسے شاہا۔ شاہنشاہا۔ بادشاہا۔ واعظا۔ وغیرہ۔ مگر یہ حرف شعر مین آتا ہے۔ جیسے بلاتے ہین اسے منادی کہتے ہین، جب منادی جمع کی حآلت مین ہوتا ہے۔ تو جمع کا آخری ن گر جاتا ہے۔ اسے صاحبو اے بھائیو! بعض وقت حروف ندا مخدوف بھی ہوتا ہے۔ جیسے۔ لوگو دوڑو۔ صاحبو یہ کیا بات ہے۔ منادیٰ بجائے مفعول کے آتا ہے' کیونکہ جملہ کا باقی حصی محدوف ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہین "احمد"۔ تو اسکے معنی ہین مین بلاتا ہوں احمد کو۔
2۔ خوشی اور مسرت کے لیے۔ اہاہا۔ اہوہو۔ واہ واہ۔ سبحان اللہ۔ ماشاءاللہ
3۔ رنج و تاسف کے لیے۔ ہائے وائے ،آہ،اف، اے واے، ہائےہاے رے، افسوس، حیف، ہیہات۔

4۔ تعجب کے لیے سبحان اللہ، اللہ اللہ، اسد اکبر۔ تعالی اللہ۔ صلے علےٰ، افو۔ اہا۔

5۔ نفرت کے لیے۔ در، در در، دور، تف، تھو، استغفراللہ، معاذ اللہ۔ لاحول والا قوت الا باللہ۔ ہشت، چھی۔

6۔ تحسین و آفرین کے لیے۔ سبحان اللہ، بارک اللہ، خوب، شاباش، جزاک اللہ، واہ وا۔ اللہ اللہ صلے علے، چشم بدور۔

7۔ پناہ مانگنے کے لیے۔ الامان، الحفیظ، الامان الامان، توبہ۔ الہی توبہ، معاذاللہ۔ عباذاللہ۔

8۔ تنبیہ کے لیے۔ ہین ہین، ہین، ہون ہون، خبردار، دیکھو، سنو۔

فصل سوم

مشتق اور مرکب الفاظ
اس فصل مین مشتق اور مرکب الفاظ کا ذکر کیا جائے گا۔

مشتق
مشتق الفاظ مین زیادہ تر ہندی الفاط سے بحث کی جائے گی فارسی اشتقاق اکثر ہندی سے ملتا جلتا ہے۔ عربی فی الحال ہماری بحث سے خارج ہے۔

1- اسماے کیفیت
(ا) اکثر افعال لے مادے (یعنی علامت مصدر کے گر جانے کے بعد) اسماے کیفیت کا کام دیتے ہین۔ مثلاً ہار جیت، مار، پھیر، تاک، سیک، بول، لوٹ، روک ٹوک وغیرہ
بعض اوقات اعراب کو لنبا کر کے حروف علے کی شکل مین لے آتے ہین جیسے
اترنا سے اتار، چلنا سے چال، ٹلنا سے ٹل، ملنا سے میل۔

(ب) مادے کے آخر مین ا کے بڑہائے سے جیسے جھگڑا، پھیرا، چھاپا۔

(ج) ن کے بڑہانے سے جیسے چلن، مرن، کہن، اترن۔
بعض اوقات صفات کے آگے ن بڑہانے سے اسماے کیفیت بن جاتے ہین جیسے اونچان، چوڑان ، لنبان۔
1. (د) ان کے اضافے سے جیسے اٹھان، لگان، اڑن، ڈہلان۔​
بشکریہ مقدس۔ 160 صفحات ہو گئے
 

قیصرانی

لائبریرین
(ہ) مادہ فعل کے آگئے ئی (معروف) یا وائی بڑہانے سے۔ لیکن اسمین ہمیشہ اجرت یا مزدوری کے معنی پائے جاتے ہین۔ جیسے ڈبلائی، چرائی، پسوائی، دبلائی، سلائی، رنگوائی۔
(و) اسم یا صفت کے بعد ائی یا ئی بڑہانے سے اسمائے کیفیت بن جاتے ہین جیسے اچھائی، برائی، گولائی، بڑائی، چھٹائی، چوری، ٹھگی۔
(ز) ت یا ئی کے بڑہانے سے جیسے بچت، کھپت، بھرتی، بڑھتی۔
(ح) دٹ۔ ہٹ۔ اٹ کے بڑہانے سے جیسے گھبراہٹ، بناوٹ، رکاوٹ، لگاوٹ وغیرہ۔
بعض اوقات صفات کے آگے بڑہانے سے بھی اسمائے کیفیت بنتے ہیں۔ جیسے چکناہت، کڑواہٹ، نیلاہٹ۔
(ط) آؤ کے اضافہ کرنے سے جیسے بچاؤ، چڑہاؤ، چھڑکاؤ، جھکاؤ۔
(ی) پا، پن اور پنا اسم کے آگے بڑہانے سے جیسے بڑھاپا، چھٹاپا، مٹاپا، لڑکپن، بچپن، شہدپن، دیوانہ پن، بچپنا، گنوار پنا، چھٹپنا۔
(س) ک کے بڑہانے سے (اسم یا فعل کے بعد) ٹھنڈک، بیٹھک۔
(ع) اس کے اضافہ سے جیسے مٹھاس۔ پیاس، کھٹاس۔
یہ سب ہندی کی صورتیں ہیں لیکن بعض فارسی ترکیبیں بکثرت استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً گ کے لگانے سے بندگی، زندگی، مردانگی، دیوانگی (یہ علامت ان فارسی الفاظ کے آگے اضافہ کی جاتی ہے جن کے آخر ہ ہے)
ی کے اضافہ جیسے گرمی، نرمی، جوانی، روشنی وغیرہ۔
امر کے آگے ش یا یش کے اضافہ سے جیسے سوزش، آزئش، گردش وغیرہ۔
اک کے بڑہانے سے جیسے خوراک، پوشاک۔
۲۔ اسم فاعل جو کام کرنے والے یا پیشہ ور کے ظاہر کرنے کر استعمال ہوتا ہے۔ مفصلہ ذیل علامات کے اضافے سے بنتا ہے۔
(ا) والا جیسے رکھوالا، گوالا۔
(ب) بار۔ ہارا جیسے پنہارا، پسنہارا، لکڑہارا، گھسیارا، جانہارا (ہارا سنسکرت کے لفظ کارک سے بگڑ کر بنا ہے۔ جس کے معنے آنے والے کے ہیں)
بعض الفاظ میں ہ اڑگئی ہے اور آرا، آریار رہ گئے ہین جیسے کرتار، بنجارا، بھٹیارا، سنار، لوہار۔
ایک آدھ اسم اری۔ ی کے اضافہ سے بھی بنا ہے جیسے پنجاری، کھلاڑی۔
ایرا سے جیسے لٹیرا، کمیرا، سپیرا۔
(ج) ا سے جیسے بھڑ بھونجے میں بھونجا جو پرانے فعل بھوننا سے نکلا ہے۔
یا سے جیسے گڈریا (گادڑ بمعنے بھیڑ) دیولیا، نچنیا۔
آؤ، و جیسے کھاؤ، کماؤ، بکاؤ۔ (یہ سب اسم صفت کے طور پر آتے ہیں)
یہ سب علامات سنسکرت کے لفاظ اکا سے بنی ہیں جع بعد میں کا ہوگیا اور کا سے بدل کر یا، ایا اور آؤ بن گیا۔
(د) ا یا سے جیسے گوّیا۔
(ہ) ہا سے جیسے چرواہا۔
(و) و سے جیسے لیوا (جان لیوا)۔ مچھوا۔ بھڑوا (بھاڑے سے)۔
(ز) اک سے جیسے پیراک۔ لڑاک۔ تیراک۔
(ح) تا سے جیسے داتا یا رشتہ کو ظاہر کرنے کے لیے پتا (یہ سنسکرت علامت ہے)
(ط) کڑ جیسے بھلکڑ۔
اسکے علاوہ فارسی علامتیں بھی اردو میں بکثرت استعمال ہوتی ہیں مثلاً
گر، گار، کار، جیسے کاریگر، نیلگر، زرگر، خدمتگار، مدد گار، دستکار۔
بر جیسے رہبر، دلبر، پیغامبر۔
بان، وان جیسے باغبان، گاڑی بان، کوچوان، اور اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں۔ موٹر بان۔
مند جیسے دولتمند، حاجتمند
ور، آور جیسے جانور، زور آور۔
ترکی علامات چی سے جیسے خزانچی، طبلچی، بندوقچی، باورچی۔
۳۔ اسمائے آلہ فعل کے بعد ان علامات کے بڑہانے سے بنتے ہیں جیسے۔
(ا) نی، نا، ن کے اضافہ جیسے دھونکنی، اوڑھنی، بیلن، چھلنی۔ اسم کے بعد ن بڑہانے سے جیسے دتون۔
(ج) یل کے اضافہ سے جیے نکیل
فارسی میں ہ کے اضافہ جیسے دستہ۔ چشمہ۔ آںہ سے جیسے انگشتانہ، دوستانہ۔
۴۔ اسمائے ظرف اسم کے بعد ان علامات کے لگانے سے بنتا ہے۔
(ا) باڑی، باڑہ، وار جیسے بانس باڑی، سید باڑہ، امام بارہ، مقامی واڑہ، ہڑواڑ، پھلواری۔
(ب) ستان۔ جیسے راجستان، ہندوستان۔
(ج) لہ جیسے ہمالہ، سوالہ۔
(د) ال۔پال سے جیسے سسرال، ننہیال۔
(ہ) سال۔ سالہ سے ٹکسال، گھڑسال، پاٹ سالہ، دہرم سالہ۔
(و) انہ جیسے سمدھیانہ۔
(ز) دوار جیسے ہردوار۔
۵۔ تصغیر اسما ان علامات کے اضافے سے بنتی ہین۔
(ا) آ کے لگانے سے جیسے ڈبیا۔ پھڑیا، لٹیا۔
اس قسم کی تصغیر سے اکثر پیار اور محبت کا اظہار ہوتا ہے جیسے بٹیا، بہنا، بھیا۔
(ب) ی معروف سے جیسے ٹوکری، رسی، شیشی۔
(ج) یا سے جیسے انبیا، کھٹیا، ٹلیا (تال سے)۔
(د) وا سے جیسے مردوا، جوروا، ہٹوا۔
(ہ) ڑی اور ڑا سے جیسے دمڑی (دام سے) پلنگڑی، چمڑا، چمڑی، گلیاری، کہلڑی، لنگڑا، ٹکڑا، ٹھیکڑا، جیوڑا۔
(و) ایلا، اولا سے جیسے وہیلا (ادہیلا یعنی آدھے سے) بگھیلا یا بھگیلا، کھٹولہ، نندولہ، کگیلا، سپولیا (ہندی سنپولا)
(ز) ٹا یا اوٹا سے جیسے ہرنوٹا، چوٹا، بامنٹا۔
(ح) نا سے جیسے بہتنا، ڈھولنا۔
(ط) ہندی اور فارسی دونوں میں مشترک ہے جیسے ڈھولک، مردک، عینک، طفلک، بطخ (بطک)۔
علاوہ ک کے فارسی علامت چی اور چہ اردو میں مستعمل ہے۔ جیسے صندقچہ، باغیچہ، دیگچہ، دیگچی،نیچہ، ڈولچی، نیمچہ، سینچہ۔
۶۔ اب ان صفات کا ذکر کیا جاتا ہے جو دوسرے الفاظ سے مشتق ہیں۔
(ا) ی کے اضافہ سے جیسے شہری، پہاڑی، دیسی، بہاری، اونی۔
(ب) ا کے بڑہانے سے جیسے دودھیا، جھوٹا، میلا، بھوکا، نیلا۔
(ج) اک جیسے لڑاک، پیراک، تیراک۔
(د) ایلا (یا معروف) جیسے پتھریلا، شرمیلا، رسیلا، کسیلا۔
ایلا (یا ی مجہول) سجیلا، رنگیلا، اکیلا، سوتیلا،
ایل ڈرہیل، پائل، بوجہل، گھائل۔
ال دودہیل۔
ایرا وغیرہ چچیرا، ممیرا، کمیرا، ہنسوڑ۔
(ہ) بیت، پچیت، کڑکیت۔
(و) ونت، بلونت، بھگونت۔
(ز) مان یا وان جیسے بھاگوان، بدہیمان، گنمان، دہنوان۔
(ح) سا سے جیسے پیاسا، روانسا (رونکھا) ننداسا۔
اسکے علاوہ فارسی کی بعض علامات بھی اسی طرح اردو میں مستعمل ہیں جیسے ی ہندی اور فارسی دونوں میں یکساں استعمال ہوتی ہے اسکے علاوہ۔
آنہ جیسے مردانہ، سالانہ، ماہانہ۔
این جیسے زرین، آتشین، رنگین، نمکین، شوقین، کمین۔
ناک جیسے غضبناک، ہولناک، خطرناک۔
اسکے علاوہ اسم اور ام سے مل کر سینکڑوں فارسی صفات بنتے ہیں جو اردو میں بلا تکلف لکھے اور بولے جاتے ہیں۔
فارسی حروف بے، بر، با، نہ کے ساتھ جیسے برمحل، بروقت، برقرار، بجا، بیجا، بیدل، باتدبیر، بے عقل وغیرہ۔
علاوہ اسکے ہندی میں س خوبی کے لیے اور ک برائی کے لیے بعض کے شروع میں آتا ہے (مگر عموماً یہ قیاسی ہے) جیسے سڈول، سپہل، کڈھپ۔

بشکریہ فہیم
 
Top