چکور اور شہباز سب اوج پر ہین
مگر ایک ہم ہین کہ بے بال و پر ہین
کم تو کیا ہوتا بلکہ اور بڑھ گیا۔
دلے۔ دلیک، لیک بجائے نظم مین استعمال ہوتے ہین۔
پر کا مخفف ہپ (جسے اہل لکھنو پَہ بالفتح اور اہل دلی پہ بالکسر بولتے ہین)
بول چال کے فقرون مین نظم مین اکثر آتا ہے جیسے
سمجھ ہم کو آئی پہ نا وقت آئی
اگرچہ اور گو کے جواب مین تو بھی اور تہم بھی استعمال ہوتے ہین۔
سو بھی کبھی ان معنون مین آتا ہے جیسے
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائین سو وہ بھی نہوا
۷۔ حروف عطف جو استثنا کے لیے آئے ہین یہ ہین۔ الّا، مگر اور بعض اوقات۔ لیکن جیسے سب آئے مگر احمد نہ آیا۔ سب نے حامی بھری الا اس بندنے۔
۸۔ حروف علت جو علت یعنے سبب کے ظاہر کرنے کے لیے عموماً استعمال ہوتے ہین یہ ہین۔
کہ، کیونکر، اس لیے کہ، اس واسطے کہ، تاکہ، لہذا۔ جیسے کوشش کیے جاؤ کہ اسی مین کامیابی کا راز ہے۔ محبت پیدا کرو کیونکر عالم اسی پہ قائم ہے۔ ان سے ضرور ملو اس لیے کہ ان سے ملنا باعث سعادت ہے۔ وہ خود گیا تاکہ سارا معاملہ اپنی آنکھون سے دیکھ لے۔
اس لیے اور لہذا چونکہ جواب مین آیا کرتے ہین جیسے
چونکہ وہ ناراض ہیں لہذا میں بھی ان سے نہیں ملتا۔
کبھی جو علت کے لیے آتا ہے جیسے
فقیر کے دل مین اسکی کچھ ایسی محبت ہے جو ایسے وقت مین بھی اسی کا دم بھرتا ہے۔
۹، جیسا (جیسے) اور گویا بعض وقت عطف کا کام دینے اور صرف تشبھیر یا مقابلہ کے لیے آتے ہین جیسے کہ وہ لکڑی اس طرح رکھی تھی جیسے کوئی انسان کھڑا ہو۔ ہرگز ہوا اسکو نہین لگتی گویا فانوس اسکی آسمان ہے (باغ و بہار)
۱۰۔ کہ حرف بیانیہ ہے، اور ہمیشہ دو جملون کے ملانے کے لیے آتا ہے۔ جیسے مین سمجھا کہ اب وہ نہ آئے گا۔
یہ حرف عموماً مقولہ کے بعد آتا ہے یا مقصد، ارادہ، امید، خواہش، رحجان، حکم، نصیحت یا مشورہ، ڈر، اجازت، کوشش، ضرورت یا فرض کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے
میرا ارادہ ہے کہ اب یہاں سے چل دون، مین نے کہا تھا تمہارے یہاں رہنے کی ضرورت نہین۔
مین نے کہا تھا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
ہنس کے ستم ظریف نے مجھکو اٹھا دیا کہ یون
تم کو لازم ہے کہ اب وہان نہ جاؤ۔ اسے چاہیے کہ ایسا نہ کرے۔ اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ خانہ نشین ہوجائے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ نہ آجائے۔ اگر اسکی یہ آرزو ہے کہ اس بارے مین کامل تحقیق کرے تو کسی ماہر فن سے ملنا چاہیے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم اب چل دو وغیرہ۔
کبھی ضمیر موصولہ کے بعد آتا ہے۔ جیسے جو رائے کہ تم نے ظاہر کی وہ صحیح نہین ہے۔ اس طرح جب کے ساتھ بھی مل کر آتا ہے۔ جیسے وہ یہاں نہین ہے تو تمہین ایسا کرنا لازم نہین۔
حروف تخصیص
حروف تخصیص یا حصہ مین ہی کا مفصل ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ تو کے متعلق البتہ یہان کسی قدر بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(۱) تاکید فعل جیسے سنو تو۔ کہو تو وغیرہ
(۲) تکیمل مقصد جیسے یہ کہکر وہ تو چلے گئے۔ سارا سامان مہیا کرکے وہ تو الگ ہوگئے۔ یعنے جو کاام ان کے ذمہ تھا اس کی تکمیل کردی۔
(۳) جو خاص قسم کا زور ظاہر کرتا ہے۔ جیسے، جسے تم تلاش کرتے تھے وہ مین ہی تو ہون۔
(۴) دھمکی کے لیے۔ جیسے، دیکھو تو وہ کیسے کرتا ہے۔
ان معنون مین اکثر سہی کے ساتھ مل کر آتا ہے۔ جیسے آئے تو سہی۔
یہ حروف تخصیص ہمیشہ ان الفاظ کے متصل آتے ہین جن کی تخصیص یا تاکید مقصود ہوتی ہے۔ سوائے ضمیر متکلم (مین) کے جبکہ اسکے ساتھ علامات فاعل نے آئے۔ اس صورت مین نے ان کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ جیسے، مین نے ہی کہا تھا۔ بائی حالتون مین ہمیشہ متصل آتا ہے۔ جیسے اس نے کہا تھا وغیرہ۔
تو بھی ہمیشہ اس لفظ کے ساتھ جس کی تخصیص کرتا ہے، مگر جب علامات فاعل و مفعول و اضافت یا حرف ربط آتے ہیں تو ان کے بعد آتا ہے۔ جیسے، تم کو تو خبر تک نہ ہوئی۔ مین نے تو پہلے ہی کہدیا تھا۔ اس کا تو کام ہی تمام ہوگیا۔
تو اور ہی مل کر بھی آتے ہین۔ جیسے، یہ مین ہی تو تھا۔ تم ہی تو تھے۔
ہو تو ہو مین پورے فقرے کے ساتھ تو خاص معنی رکھتا ہے۔ یہ اس وقت کہتے ہین جبکہ کسی امر کے متعلق آخری چارہ کار بتانا مقصود ہو۔ جیسے
موت ہی سے کچھ علاج درد فرقت ہو تو ہو
غسل میت ہی ہمارا غسل صحت ہو تو ہو
تکرار الفاظ
تکرار لفظی اردو زبان کی بڑی خصوصیات مین سے ہے اور اس لیے ہم نے یہ مناسب خیال کیا کہ اس خصوصیت کا ذکر مختصر طور پر علیحدہ کیا جائے۔
اردو مین تمام اجزائے کلام (یعنے اسم صفت، ضمیر، فعل تمیز فعل) سوائے حروف ربط و عطف کے ایک ہی ساتھ مکرر استعمال ہوسکتے ہین۔ الفاظ کے دہرانے سے ہر ایک کے معنے پیدا ہوجائے ہین نیز اختلاف، زور، تاکید یا مبالغے کا اظہار ہوتا ہے۔
۱۔ اسم کی تکرار سے ہر ایک کے معنی پیدا ہوتے ہین۔ مگر وہ سب پر شامل ہوتا ہے جیسے گھر گھر عید ہے۔ یعنی ہر گھر مین
کبھی یہ اضافت کے ساتھ آتا ہے، یعنے وہ اسم جس کی تکرار ہوتی ہے وہ مضاف واقع ہوتا ہے۔ جیسے میرا رواں رواں اس کو دعا دے رہا ہے۔ (یعنی ہر ایک رواں)
بعض وقت اضافت کے ساتھ بھی ہر ایک کے معنے میں آتا ہے مگر سب پر شامل نہین ہوتا۔ مثلاً وہ برس کے برس آتا ہے یعنی ہر برس۔
۲۔ کبھی مختلف کے معنے نکلتے ہین جیسے ملک ملک کا جانور وہاں جمع تھا (یعنی مختلف ملکوں کے جانور)
۳۔ کبھی اسم کی تکرار سے زور مبالغہ یا تاکید نکلتی ہے جیسے، دل ہی دل مین کڑھتا رہا، لیلٰی لیلٰی پکارتا رہا۔
(ا) یہ استعمال اکثر ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ بعض اوقات جب پہلا اسم جمع ہو تو بغیر ہی کے بھی آتا ہے جیسے ہاتھوں ہاتھ، راتوں رات۔
(ب) بعض اوقات پہلا اسم اضافت کے ساتھ آتا ہے یعنے دونوں کے بیچ میں اضافت ہوتی ہے۔ جیسے اتنا پڑھا مگر بیل کا بیل ہی رہا۔ یا جاہل کا جاہل ہی رہا۔ یا آدمی کیا ہے دیو کا دیو ہے۔ یا ڈہو کا ڈہو۔
(ج) بعض اوقات اس قسم کی تکرار سے کل کے معنی ہوتے ہین۔ جیسے خاندان کا خاندان (یعنی کل خاندان)، قوم کی قوم، شہر کا شہر ہی اسی مین مبتلا ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ایک شعر کیا غزل کی غزل مرصع ہے۔
(د) کثرت کے معنی بھی آتے ہین۔ جیسے درختون کے جھنڈ کے جھنڈ کھڑے تھے۔ دیوان کے دیوان پڑھ ڈالے۔ جنگل کے جنگل کاٹ ڈالے۔ خم کے خم پی گیا۔ ہرنون کی قطاریں کی قطاریں کھڑی تھین۔
ف۔ یہاں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب تکرار الفاظ اضافت کے ساتھ کثرت کے معنون مین آتا ہے تو کے کا عمل اسما پر نہیں ہوتا۔ جیساکہ دوسرے حالت مین ہونا چاہیے۔ یعنے قطارون کی قطاروین یا دیوانون نہیں کہین بلکہ دیوان اور قطارین اپنی اصل حالت پر قائم رہیں گے اور کے کا عمل ان پر نہیں ہوگا۔
(ہ) کبھی اس تکرار سے کام جاری رہنا پایا جاتا ہے جیسے سڑک کے کنارے کنارے چلا جا۔
(و) بعض اوقات تکرار لفظی سے (اضافت کے ساتھ) تقلیل ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے رات کی رات ملاقات رہی۔
سینے مین قلزم کو لے قطرے کا قطرہ رہا
بل بے سمائی تری اف رے سمندر کے چور
وہ بات کی بات مین بگڑگیا (یعنی ذرا سی بات مین) وقت وقت یعنے فی الفور۔
(ز) کبھی ایک جملے مین دو لفظون کا تکرار ہوتا ہے اور اس سے ہر دو کی شمولیت ظاہر ہوتی ہے جیسے روپیہ کا روپیہ گیا اور عزت کی عزت (یعنے روپیہ اور عزت دونون گئے) وہ آدمی کا آدمی ہے اور بندر کا بندر یعنے آدمی بھی ہے اور بندر بھی۔
(ح) مثل ہے کہ "دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی" یعنے دودھ الگ اور پانی الگ۔ (پورا انصاف) کھوٹے کھرے کی پوری پرکھ۔
(ط) کبھی مگر بہت کم پہلے اسم کے ساتھ آتا ہے اور اسکے معنے مبالغہ یا زیادہ یا جاری رہنے کے ہوتے ہین جیسے دوڑا دوڑا گیا۔ مارا مارا پھرا۔
۴۔ صفات کی تکرار سے بھی یہی معنی پیدا ہوتے ہین یعنی اسم کی طرح ہر ایک کے معنی دیتے ہین۔ جیسے شہر کے سب بڑے بڑے لوگ وہاں موجود تھے۔
چھوٹے چھوٹے ایک طرف ہوجائین اور بڑے بڑے ایک طرف۔
(۲) بعض اوقات اختلاف (یعنے مختلف) ظاہر ہوتا ہے جیسے نئے نئے کام، انوکھی انوکھی باتین (مختلف قسم کی)
(۳) اظہار مبالغہ کے لیے جیسے میٹھی میٹھی باتین، کھٹے کھٹے آم، کالا کالا رنگ، سفید سفید دانے، اجلے اجلے کپڑے۔
کبھی پہلی صفت کے ساتھ اضافت بھی آتی ہے۔ جیسے ننگے کا ننگا، بھوکے کا بھوکا وغیرہ۔
(۴) کبھی تقلیل کے لیے جیسے دال میں کچھ کالا کالا ہے۔ اس میں مجھے سفید سفید دکھائی دیتا ہے۔
۵۔ اسی طرح اعداد بھی بہ تکرار آتے ہین۔
(ا) ہر ایک کے معنے مین جیسے انکو چار چار روپیہ ملے۔
بشکریہ فہیم