اردو محفل سالانہ مشاعرہ 2014 - تبصرہ جات کی لڑی

میں مشت خاک جس کو کہکشاں صدائیں دیتی ہیں
زمیں کے باب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو۔
مَنُش ہوں رست زندگی کی شوخیاں لُبھاتی ہیں
مے اور شراب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
مجھے اکیلی راتوں کی وہ یادیں اب ستاتی ہیں
خودی کے باب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو

مجھ پہ گزری یہ ابتلا برسوں
میں رہی تجھ میں مبتلا برسوں
اس کا آسیب مجھ پہ ہےچھایا
جو رہا تھا مجھ پہ فدا برسوں

وہ دیا لے گئی ہوا کیونکر
میری امید جو رہا برسوں

شہر ویران کر گیا ہے وہ
بن کے جس میں رہا خدا برسوں

ایک آنسو نے فاش کر ڈالا
راز جو تھا نہیں کُھلا برسوں
نور سعدیہ شیخ
 
مثال دوں بھی تو کیا دوں جب ارسطو نے
کسی بھی طور فلاطوں کو حوصلہ نہ دیا

یہ کیا کہ رنج دیے بےشمار تُو نے مگر
انہیں سہار سکوں، ایسا حوصلہ نہ دیا

ِدوانی جان کے کھاتے رے ترس تو لیکن
کسی نے تھام مرے ہاتھ آسرا نہ دیا

خیال اُس کا مرے دل سے نوچ دے کوئی
کہ جس نے نورؔ، محبت کا بھی صلہ نہ دیا


نور سعدیہ شیخ
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ، آپ کی صلاحیتیوں میں بھی اور اظہار میں بھی نکھار آ رہا ہے۔ بہت خوب!
تفصیلی بات بعد میں کریں گے۔
بہت شکریہ :) :) :) مجھے خوشی ہوئی مجھ ناچیز کی آپ نے حوصلہ افزائی کا۔ میرا حوصلہ بڑھ گیا ہے ۔۔جزاک اللہ ۔۔ بس اساتذہ کرام بہت اچھے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
مجھے تو وقت نے تھمنے کا حوصلہ نہ دیا
مرا نصیب تھا ایسا، دیا دیا، نہ دیا

اُڑان بھر نہ سکی میں، چلی ہوا ایسی
کوئی مدد کو جو آیا تو راستہ نہ دیا

بہت خوب نور سعدیہ شیخ صاحبہ ۔

خوش رہیے۔ :)
 
اگر شمع دل خاک تدبیر ہوتی
کہ ذلت میں یوں آج انساں نہ رہتا
مُرَوَّت جو دل سے ہی نکلے تو اچھّا
کہ نفرت بھری دل میں ایماں نہ رہتا
جو نکلے تھے ہم راہ غفلت میں یارو
کسی دوست پے کوئی بہتاں نہ رہتا
ہوائیں اگر چل پڑی بے ادب سے
کہ موسم بدلنے سےطوفاں نہ رہتا
عجب شمعِ پہلو میں ہے انجمن کی
کہ دل میں ترا ہم کو ارماں نہ رہتا
امانت ہے میرا یہ پیکر زمیں کا
مگر موت کا یوں فرشتہ نگہباں نہ رہتا
فنا ہونا ہے زندگی میں وفاؔ کو
کبھی دل میں حسرت کہ امکاں نہ رہتا

وفاؔ عباس
 
اس محفل میں اک وہ نہ تھی نم، جب دل نے پکارا اس دن تھا
جب دل سے دل کا دل نہ لگا، تب موت نے مارا اس دن تھا
اس ایندھن میں ہم گر ہی پڑے، جو روگِ محبت کہتے ہیں
جب رونا ہم پے ضبط نہ تھا، انساں نے پکارا اس دن تھا
ہم صحرا میں جب دفن نہ تھے، ہر روز بغاوت کرتے تھے
اپنی اپنی حسرت میں مرے، پھولوں پے جنازہ اس دن تھا
اک ہم ہی غافل یاد نہ تھے، جب یاد نے دل پے دستک دی
پھولوں سے خوشبو جاتی رہی، ہر پیڑ امارہ اس دن تھا
کے اس سے ہم جب دور رہے، ہر بات کہ مطلب سیدھا تھا
اک ہم نا تھے شب ِ غم میں وفاؔ، ہر درد کہ مارا اس دن تھا

وفا عباس
 
دل کی دنیا کا سکندر ہو جاؤں گا
تیاگ کر سب میں قلندر ہو جاؤں گا
قطرہ قطرہ پیتا جاؤں گا زندگی
اور پھر اک دن سمندر ہو جاؤں گا
میں ہی اس جانب ہوں، میں ہوں اُس سمت بھی
میں ہی درماں،میں ہی خنجر ہو جاؤں گا
یوں جتن سے ہے اُٹھایا پہلا قدم
مڑ کے جو دیکھا تو پتھر ہو جاؤں گا
پہلے چلوں گا کسی پیغمبر کے ساتھ
خود ہی اپنا پھر میں رہبر ہو جاؤں گا
تیرا ملنا عارضی، ایسا ہی سہی
یہ تو ہو گا میں معطر ہو جاؤں گا
تب بھی تیرے قدموں میں عزت ہو گی ماں
جب میں سورج کے برابر ہو جاؤں گا
دوسروں کی روشنی سےدیکھا جہاں
اور گماں یہ تھا سخن ور ہو جاؤں گا

کاشف سعید
 

محمداحمد

لائبریرین
محمد احمد کی بہت اچھی غزل ہے، نہ جانے کہاں چھپی ہوئی تھی اب تک۔ ان کی برقی کتاب شائع ہونے کے بعد کی ہے کیا؟

بہت شکریہ اعجاز عبید صاحب۔۔۔!
یہ دونوں غزلیں اب تک کہیں پیش نہیں کی گئی تھیں۔ (شاید اسی لئے ایک دو اشعار سُرخی سے رنگے گئے ہیں :) ) اور برقی کتاب بھی اب تک ہماری کوئی نہیں ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زبردست
محترم محمداحمد صاحب
محترمہ غزالہ ظفر صاحبہ
محترم خرم شہزاد خرم صاحب
محترم واسطی خٹک صاحب
محترمہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ
محترم وفا عباس صاحب
محترم کاشف سعید صاحب

بہت اعلی کلام آپ احباب نے پیش کیا۔ میں پچھلی قطاروں سے داد برسا رہا تھا۔ لیکن جب پہنچی نہیں تو مجبورا مجھے اگلی قطار میں آنا پڑا۔۔۔ :)
 
Top