میں مشت خاک جس کو کہکشاں صدائیں دیتی ہیں
زمیں کے باب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو۔
مَنُش ہوں رست زندگی کی شوخیاں لُبھاتی ہیں
مے اور شراب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
مجھے اکیلی راتوں کی وہ یادیں اب ستاتی ہیں
خودی کے باب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
مجھ پہ گزری یہ ابتلا برسوں
میں رہی تجھ میں مبتلا برسوں
اس کا آسیب مجھ پہ ہےچھایا
جو رہا تھا مجھ پہ فدا برسوں
وہ دیا لے گئی ہوا کیونکر
میری امید جو رہا برسوں
شہر ویران کر گیا ہے وہ
بن کے جس میں رہا خدا برسوں
ایک آنسو نے فاش کر ڈالا
راز جو تھا نہیں کُھلا برسوں
نور سعدیہ شیخ