نور سعدیہ شیخ صاحبہ
صرف اختتام نہیں، خوشگوار اختتام، ہرا بھرا
رنگ سبز ہی رہیں تو بہتر ہے۔ علی زریون کا شعر ہے
سبز کرتا ہے وہ سماعتوں کو
اور ہری آیتیں سناتا ہے
ان کے لئے الارمنگ سچویشن ہے۔۔۔ وہ زینہ بہ زینہ نئی منازل کی طرف پیش قدمی جا رکھیں اور سرخ رخساریِ دنیا کو فنا کر دیں۔
میرے رنگ، میرا کینوس
ہمارا کینوس ہی دراصل ہمارا اصل اثاثہ ہے۔ بہت اچھا لگا
محض پہنا نہیں انہیں میں نے
میں نے رنگوں سے بات بھی کی ہے
مجھے پھر علی زریون یاد آ گئے
اہلِ جنون الفراق! اہلِ شعور الوداع!
شبد تمام ہو چکا ،یعنی تمام ختم شد۔۔!
جسم غلام تھا علی،عشق امام ہے علی۔۔!
کارِ امام دائم است، کارِ غلام ختم شد۔!!
ایسے ہی رنگوں سے بھرپور رہیے کہ یہی کُل اثاثۂ زندگی ہے۔