کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمداحمد

لائبریرین
رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ
ہو جس سے اختلاف، اُسے مار ڈالیے

یہ تھے محترم نوید رزاق بٹ صاحب ۔

اور اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم ایم اے راجا صاحب کو کہ وہ اپنا کلام پیش فرما کر مشاعرے کی رونق کو بڑھائیں۔ فرماتے ہیں:

عشق ہوتا نہ اگر شعر و سخن سے راجا
اس طرح آنکھوں میں یہ رات نہ ساری جاتی

محترم ایم اے راجا صاحب ۔۔۔۔!
 

ایم اے راجا

محفلین
سب سے پہلے تمام محفلین بالخصوص انتظامیہ کو اردو محفل کی سالگرہ کی بھرپور مبارکباد ۔ صدرِ محفل، جناب مہمانِ خصوصی اور تمام محفلین کی خدمت میں ایک غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

میری قسمت کے چراغوں میں اندھیرا کیوں ہے
ظلمتِ شب نے مجھے آ کے یوں گھیرا کیوں ہے

میرا چلنا جو گوارا ہی نہیں تجھ کو تو
مرے قدموں میں یوں راہوں کو بکھیرا کیوں ہے

جس نے بخشے ہیں اندھیروں کے یہ تحفے مجھ کو
اُس کے ہاتھوں کی لکیروں میں سویرا کیوں ہے

مجھ کو حیران کیے رکھتا ہے اکثر یہ خیال
غم جو تیرا تھا کبھی، آج وہ میرا کیوں ہے

چین لینے ہی نہیں دیتی کسی پہلو مجھے
میرے کمرے میں تری یاد کا ڈیرا کیوں ہے

کاش کوئی تو بتائے مجھے آخر راجاؔ
میری بستی میں ہی آہوں کا بسیرا کیوں ہے
ایم ۔ اے۔ راجا​
 

محمداحمد

لائبریرین
محترم ایم اے راجا صاحب کےکلام کے بعد اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم مہدی نقوی حجاز صاحب کو کہ وہ اپنے پر کیف و دل نشین کلام سے مشاعرے کی رونق کو بڑھائیں۔

مہدی نقوی حجاز، جن کا کہنا ہے :

میں بھی اب اک سوال اٹھاؤں گا
دے دیا ہے جواب میں نے بھی

 
جناب، بہت شکریہ محمداحمد صاحب، ایک غزل کے چار اشعار آپ کی سماعتوں کی نذر کرتا ہوں

عاشقی جنس گرائی کا کنایہ تو نہیں
وصل کے بعد تجھے ہم نے بھلایا تا نہیں

چین اس روحِ پریشان کو تجسیم کے بعد
آنے والا تھا، مگر اب تلک آیا تو نہیں

وہ جو اک سنگِ گراں تھا مری ہمراہی کا
چوم کر چھوڑ دیا تو نے، اٹھایا تو نہیں

کیوں تعقب میں لگا رہتا ہے میرے شب و روز
تو خدا ہے مرا بیشک، مرا سایہ تو نہیں!!


ایک کچھ پہلے کی غزل ملاحظہ ہو

زندگی سے فرار ہو گیا ہوں
اتنا با اختیار ہو گیا ہوں

پاؤں پر گر گیا ہوں قسمت کے
اور سجدہ گزار ہو گیا ہوں

طاقِ نسیاں ہے کائنات اور میں
اس کا نقش و نگار ہو گیا ہوں

کیسا مکار ہے کہ میں تیرے
بھولے پن کا شکار ہو گیا ہوں

غم نے پالا ہے مجھ کو اور اب میں
غم کا پروردگار ہو گیا ہوں

میں کسی دن خدا کا چہرہ تھا
یہ جو اب آشکار ہو گیا ہوں

تیرا دشمن ہوا ہوں میں، یعنی
میں ترا رشتہ دار ہو گیا ہوں


اور اک تازہ غزل سنا کر اجازت چاہوں گا۔

وہ کوئی بات چھپانے کے نہیں ہیں قائل
اور ہم زخم دکھانے کے نہیں ہیں قائل

ایک دو پیگ لگا کر جو بہک جاتے ہیں
ہم انہیں ساتھ پلانے کے نہیں ہیں قائل

دوست صحرا میں بھی آجاتے ہیں پانی لے کر
اور ہم پیاس بجھانے کے نہیں ہیں قائل

دیکھیے مت ہمیں صاحب یوں کن انکھیوں سے کہ ہم
بے تکا مصرع اٹھانے کے نہیں ہیں قائل

سچ تو کیا خاک نبھائیں گے کہ وہ داعیِ عشق
جھوٹے وعدے بھی نبھانے کے نہیں ہیں قائل

جھوٹ کیوں بولیں کہ مرجائیں گے ہجراں میں، کہ ہم
پیار میں جان سے جانے کے نہیں ہیں قائل

ناچتے گاتے ہیں زنجیر بہ پا زنداں میں
جشنِ آزادی منانے کے نہیں ہیں قائل

ایک روحانی تعلق ہے اندھیرے سے حجازؔ
اس لیے شمع جلانے کے نہیں ہیں قائل
 

محمداحمد

لائبریرین
تیرا دشمن ہوا ہوں میں، یعنی
میں ترا رشتہ دار ہو گیا ہوں

مہدی نقوی حجاز صاحب کے خوبصورت اشعار کے بعد اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم سید عاطف علی صاحب کو کہ جن کا کہنا ہے:

سوزنِ تدبیر ایسی گم ہوئی
چاک نہ تقدیر کا میری سلا

محترم سید عاطف علی صاحب اپنا کلام پیش کرکے مشاعرے کی رونق بڑھائیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تمام قابلِ احترام ساتھیو ں دوستو ں کی خدمات میں پر خلوص سلام اور واجب الاحترام بزرگان و اساتذہ کرام کے لیے خصوصی آداب کے ساتھ محفل کے نویں برس کی تکمیل کے جشن کے لیے نیک خواہشات اور ہدیہ ء تبریک پیش کرتا ہوں۔اورصدرِمحفل ، مہمانان گرامی کی اجازت کے اپنے کلام سے دو کاوشیں احباب کی نذر کرتا ہوں۔امید ہے کہ طوالت گراں نہیں گزرے گی۔
شکریہ و آداب


تری نسبتوں کا نشاں چاہیے
جبیں کو یہی آستاں چاہیے

مجھے ایک ایسا جہاں چاہیے
اثر جس میں ہو وہ فغاں چاہیے

مَحّبت کی ارزاں دکاں چاہیے
مگر جنس اس میں گراں چاہیے

نہ سمجھا کوئی آنسوؤں کو مرے
مجھے مجھ سااک ترجماں چاہیے

میں لوح و قلم کا تو منکر نہیں
مگر آج تیر و کماں چاہیے

مرے ہی محافظ کریں مجھ کو قید
تو مجھ کو بھی تیغ و سناں چاہیے

قبا سرخ ہو تو عَلَم کیوں سفید؟
پھر اس پر بھی خوں کا نشاں چاہیے

خرد نے مسخّر کیا یہ جہاں
مگر مجھ کو سوزِ نہاں چاہیے

جبیں وقفِ جبر ِِ رسومِ سجود
اِسے روبرو لامکاں چاہیے

سنبھلتا نہیں رازِ ہستی کا بار
مجھے اک امیں رازداں چاہیے

جوئے شیر و تیشہ ؤ کوہِ گراں!
مجھے سخت تر، امتحاں چاہیے

مری انجمن میں اگر تو نہ ہو!
ترے نام کا میہماں چاہیے

مری شہر بدری پہ راضی نہیں
اسے تو بس اک میری جاں چاہیے

ہر اک پر ہویدا نہیں ہےیہ راز
دل ِ زارِ آشفتگاں چاہیے

سمجھتا ہوں تیرا اشارہ مگر
بتا تجھ کو کیا میری جاں چاہیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم تو ہیں دیوانگی کا سلسلہ
کیا ہمارا کیا زمانے کا گلا

آرزوؤں کے لہو کا تھا صلا
جنتیں کھوکر یہ سنگ در ملا

خوش ہے ان کے پاس دل ،پھرکیا گلا
دوست ہی جب دشمنوں سے جا ملا

مسجد و دیر و کلیسا ،بے حضور
میکدے سے ہی ملا جو کچھ ملا

سوزنِ تدبیر ایسی گم ہوئی
چاک نہ تقدیر کا میری سلا

آخرِ شب اور حجابِ آخریں
جوں ہلال وبدر کا ہو سلسلا

صبحدم خوشبو ہے کس کی باغ میں
دیکھنے کے واسطے جو گل کھلا

ساقیا باقی ہیں کیوں ہوش و حواس
ایک جام ِآخریں تو خود پلا

ہم بھی ہم مشرب ہیں تیرے واعظا
مے سے بخشیں گے ترے دل کو جلا

میکشوں کی ہاتھ میں ہیں جام خوش
منبروں کو واعظوں سے ہے گلا

چشم ِ تر کی منزل ِ مقصود تھی
ریگزاروں کو ملا کیسا صلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
سمجھتا ہوں تیرا اشارہ مگر
بتا تجھ کو کیا میری جاں چاہیے

یہ تھے جناب سید عاطف علی صاحب جو اپنا کلام سنا رہے تھے، اور اب ہم دعوت دیتے ہیں محترمہ عائشہ بیگ عاشی صاحبہ کو کہ تشریف لائیں، اور محفلین کو اپنے کلام سے محظوظ فرمائیں
فرماتی ہیں

ہوا سے خوشبو چرا رہی ہوں
دریچے دل کے سجا رہی ہوں

عاشی صاحبہ!
 
السلام علیکم
آنگن آنگن گلشن گلشن خوشبو محفل
کتنی مبارک کتنی حسیں ہے اردو محفل
اک کیفیت حرف نگرکی ہوش کسے ہے
فکر و خیال سے باتیں کرتی جادو محفل

میں سب سے پہلے تو اردو محفل کی انتظامیہ کو صد مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ اس خوش اسلوبی سے اردو محفل کی نویں سالگرہ کے موقع کو یادگار بناتے ہوئے ایک عظیم الشان عالمی مشاعرہ کا انعقاد کیا
جو ان لمحات کو یاد نہیں یادگار بنا رہا ہے
اردو ادب کے مایہ ناز شعرا اس مشاعرہ میں اپنا کلام پیش کر رہے ہیں وہِیں ہم ایسے شعرا جو ابھی حرف حرف رینگ رہے ہیں وہ بھی اس مشاعرے میں شریک ہو کر اپنا نام ویب کی تاریخ ادب میں رقم کر رہے ہیں
مشاعرے میں مجھ سے پہلے شعرا خوب رنگ باندھ چکے ہیں ،
اپنے کچھ تشنہ حروف ، بکھرے خیال آپ احباب کی سماعتوں اورذوقِ سخن فہمی کی نذر کرتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ ہے شفیق آسماں ، نہ مہربان ہے زمیں
نہ کوئی ہمنوا کہیں ، کہیں نہ کوئی ہمنشیں

یہ وحشتوں کا سوختہ ، محبتوں کا سلسلہ
کسی کے پاس بھی نہیں، کسی سے دُور بھی نہیں

میں جی کے بھی نہ جی سکی ، میں مر کے بھی نہ مر سکی
مجھے خود اپنے ڈس گئے ، مثالِ مارِ آستیں

نہ میں اِسے سمجھ سکی نہ یہ مجھے سمجھ سکا
میں شاید اس جہان کی مزاج آشنا نہیں

تغیراتِ زندگی کے مرحلے عجیب ہیں
پلی کہیں، بڑھی کہیں ،بسی کہیں، مری کہیں

کچھ اور دردِ جاں گُسِل کچھ اور فکرِ بے کراں؟۔
نہیں اجی ،نہیں نہیں ،اجی نہیں ،اجی نہیں

اداسیوں کی سر زمیں کی سنگلاخ برف پر
گلابِ آرزو کھلے تو تھے مگر کہیں کہیں

ہے آج عاشی سجدہ ریز اُسکی بارگاہ میں
جھکی ہے جس کے سامنے حیاتیات کی جبیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُٹھا کے راکھ سے ذرّہ، ستارہ کر کے دیکھیں گے
فلک، دریائے حیرت کا کنارہ کر کے دیکھیں گے

کسی دن، آگ کے شعلے سے بادل بھی بنائیں گے
کسی دن، برف گالے کو شرارہ کر کے دیکھیں گے

کوئی پل، خواب جگنو روک لیں گے اپنی مٹھی میں
کوئی پل، روشنی کو استعارہ کر کے دیکھیں گے

کبھی، خاموش لمحوں میں کریں گے گفتگو جذبے
کبھی، گویا رُتوں میں حرف اشارہ کر کے دیکھیں گے

تمہارے نام ، کچھ پل کر کے صدیوں کا سکوں پایا
تمہارے نام، جیون اب تو سارا کر کے دیکھیں گے

سنو! ہم کر چکے بیعت، جنوں کو کر چکے مرشد
سنو! کس نے کہا ہم، استخارہ کر کے دیکھیں گے

ترے احساس، میں ضم ہو گیا احساس عاشی کا
ترے احساس کو خوشبو کا دھارا کر کے دیکھیں گے
~~~~~~~
عائشہ بیگ عاشی
~~~~~~~
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ترے احساس، میں ضم ہو گیا احساس عاشی کا
ترے احساس کو خوشبو کا دھارا کر کے دیکھیں گے

یہ تھیں محترمہ عائشہ بیگ عاشی صاحبہ، جو اپنے خوبصورت کلام سے ہمیں محظوظ کر رہی تھیں اور اب ہم دعوتِ سخن دیتے ہیں جناب شہزاد نیر صاحب کو۔
کہتے ہیں
سادگی حسن کی شعروں میں بیاں کرنی تھی
لفظ آسان چُنے، مصرعہ سادہ باندھا
محترم شہزاد نیر صاحب
 

شھزاد نیر

محفلین
جمال ِ کم سخن سے ایسا کام کیسے ہو گیا
میں خوگر ِ کلام ، بے کلام کیسے ہو گیا

محبتوں کے سلسلے تمہی پہ کیسے رْک گئے
مسافروں کا اِس گلی قیام کیسے ہو گیا

یہ لخت لخت روشنی تمیں کہاں سے مل گئ
کرن کرن کا رْخ پہ انتظام کیسے ہو گیا

جو خوئے احتیاط پر تمہارا اختیار ہے
تو روئے بے نیاز لالہ فام کیسے ہو گیا

تمام راستوں پہ وہ چلا قدم سنبھال کر
بدن کے راستے پہ بے لگام کیسے ہو گیا

سکوت کے سکون کی کمائ کیسے لْٹ گئ
سخن کا اضطراب میرے نام کیسے ہو گیا

"وحید و سعد" آئیو ، ارے مدد کو دوڑیو
میں غرق ِ صد سبو تھا،تشنہ کام کیسے ہو گیا

وہ دید ِ لا وجود کس نظر کی گھاٹ اْتر گئ
یہ عمر بھر کا کام تھا ، تمام کیسے ہوگیا

نہیں نہہیں کوئ نہیں،کوئ نہیں کہیں نہیں
گمان تھا !! یقین کا امام کیسے ہو گیا

زمیں کو جانتے ہوئے ، فلک کو تانتے ہوئے
میں آپ ہی امام تھا ، غلام کیسے ہو گیا

ضرور کچھ غلط لکھا گیا شرف کے باب میں
یہ زر کا انتظام ، احترام کیسے ہو گیا

یہ جْوئے درد کس طرح زمین ِ جاں پہ بہہ پڑی
فصیل ِ ضبط ِ غم کا انہدام کیسے ہو گیا

شہزاد نیر

؎" ڈاکٹر ؤحید احمد"؎" سعد ضیغم

اردو محفل کے باذوق احباب کی نذر ایک تازہ غزل

عمدہ

"جب بھی چُپکے سے نکلنے کا ارادہ باندھا
مجھ کو حالات نے پہلے سے زیادہ باندھا

چلتے پھرتے اسے بندش کا گماں تک نہ رھے
اُس نے انسان کو اس درجہ کشادہ باندھا

کتنی بھی تیز ھوئی حِرص و ھوس کی آندھی
ھم نے اک تار ِ توکل سے لبادہ باندھا

یک بہ یک جلوہء تازہ نے قدم روک لئے
!میں نے جس آن پلٹنے کا ارادہ باندھا

تو نے سامان میں جب باندھ ھی دی تھی منزل
کس لئے یار مرے پاؤں میں جادہ باندھا

اس نے دل باندھ کے اک آن میں بازی جیتی
ھم تو سمجھے تھے فقط ایک پیادہ باندھا

سادگی حسن کی شعروں میں بیاں کرنی تھی
لفظ آسان چُنے ، مصرع سادہ باندھا "
(شہزاد نیر )
 
مدیر کی آخری تدوین:
جب بھی چُپکے سے نکلنے کا ارادہ باندھا
مجھ کو حالات نے پہلے سے زیادہ باندھا


یہ تھے شہزاد نیر جو اپنے کلام سے محفلین کو شرف بخش رہے تھے۔
اب ہم دعوت کلام دیں گے محفل کے ہردل عزیز ابن سعید صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنے رنگین کلام سے محفل کو گلرنگ کریں
 
صدر مجلس اور دیگر احباب کی اجازت سے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ حکم ہوا ہے رنگین کلام پیش کرنے کا اور ہمیں علم نہیں کہ تک بندیوں میں رنگینی چہ معنی دارد، لہٰذا سطور کو رنگین کر کے پیش کر رہے ہیں۔ ابتدا کرتے ہیں محفل کے ترانے سے: :) :) :)


محفل کا ترانہ


ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے


یہ بحر وفا کا ہے سنگم
گل بار یہاں کا ہے موسم
احساس کے نازک محلوں پر
لہراتا یہاں کا ہے پرچم


ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے


ہر بات مثالی ہے اپنی
ہر بات نرالی ہے اپنی
ہر دن ہے مثال عید یہاں
ہر رات دیوالی ہے اپنی


ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے


ہم سبھی کو عزت دیتے ہیں
اور سب سے محبت لیتے ہیں
دلجوئی ہمارا مسلک ہے
پیغام اخوت دیتے ہیں


ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے


ہم راگ بھی ہیں ہم رنگ بھی ہیں
ہم ساز بھی ہم آہنگ بھی ہیں
خوشبو کی طرح حساس ہیں ہم
پھولوں کی طرح خوش رنگ بھی ہیں


ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے


الفاظ کے جادوگر ہم میں
شعراءِ حسیں پیکر ہم میں
ہم میں ہیں قتیل غالب بھی
نباضِ سخن جوہر ہم میں


ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے


تکنیک و ادب کی ہولی میں
خطاطی کی رنگولی میں
انگنت تحائف کے ڈبے
ڈالے اردو کی جھولی میں


ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے


اقدار نہ گرنے دینگے ہم
افکار نہ مٹنے دینگے ہم
تکنیک کی آندھی میں اپنی
اردو کو نہ اڑنے دینگے ہم


ہم اردو ویب کے شیدائی
محفل کی شمع کے پروانے


:) :) :)

پچھلے مشاعرے میں پیش کردہ بچوں کی تک بندی مسکان پری کے بعد اسی سلسلے کے تحت پیش ہے مسکان محل: :) :) :)

مسکان محل

چلو چلیں مسکان محل
وہاں بہت ہے چہل پہل

کھیلیں کودیں شور مچائیں
کر دیں سب کچھ اتھل پتھل

رنگ پھول خوشبو ہر جانب
آگے پیچھے اغل بغل

غبارے گالوں کے پھلا کر
پھوڑیں ان کو ذرا سنبھل

تتلی رانی ناک پہ بیٹھیں
جگنو کان کے اندر جل

امی کہتی رہتی ہیں
ننگے پاؤں یہاں نا چل

وقت پہ کھا اور جلدی سو
صبح سویرے خوب ٹہل

امی کتنی پیاری ہیں
بات پہ ان کی کریں عمل

بائیسکوپ سنیما میں
خرچہ آدھا مزہ ڈبل

پلی توتلی تہتی ہیں
پلیشان مدھ تو مت تل


:) :) :)

اور یہ تک بندی سنا کر اجازت چاہیں گے۔ "سنا کر" اس لیے کہا کیونکہ اس کی ریکارڈنگ بھی پیش خدمت ہے: :) :) :)

صبا سبک خرام ہے، کہ شب شبینہ کام ہے
رگوں میں راگ و رنگ کا رواں یہ دورِ جام ہے

خلش خلش ہے چار سو، جنوں جنوں گلی گلی
نویدِ نیشِ دائمی، کہ عشقِ نا تمام ہے

گئے دنوں کی یاد بھی، رلاتی ہے، ہنساتی ہے
کہیں پہ غم، کہیں خوشی، حیات اسی کا نام ہے

یہ آ کے جاتی روشنی، یہ جا کے آتی تیرگی
کسے یہاں ثبات ہے، کسے یہاں دوام ہے

اصول فاصلے جنے، مفاہمت وصال ہے
حصول قاتلِ طلب، ادائے بے مرام ہے

لبوں سے گویا چھو لیا، شرار سا اڑا دیا
وہ عارضِ شفق نما، نگاہِ رنگِ شام ہے


:) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
گئے دنوں کی یاد بھی، رلاتی ہے، ہنساتی ہے
کہیں پہ غم، کہیں خوشی، حیات اسی کا نام ہے

خوشگوار و خوشنما و خوش اسلوب کلام پیش کر رہے تھے محترم سعود عالم صاحب!

اور اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب کو وہ اپنے خوبصورت کلام سے قرطاسِ مشاعرہ کو سجائیں۔ محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب ظریفانہ اور سنجیدہ دونوں اصناف میں شعر کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں۔

شوق منزل کا تھا لیکن رہنما کوئی نہ تھا
کِس قدر بھٹکے ہیں اس راہِ خضر میں دوستو!

محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب ۔۔۔۔!
 
صدرِ محفل، عزت مآب مہمانِ خصوصی اور تمام محفلین کی خدمت میں السلام علیکم اور آداب عرض ہے۔

سب سے پہلے چند تازہ اشعار پیش خدمت ہیں۔


اب آشکار ہم پہ ہوئی ہے تو چُپ ہیں ہم
دنیا کی آج ہم سے حقیقت نہ پوچھیے

اس خار خار دشت میں اِن نفرتوں کے بیچ
کیونکر ہوئی کسی سے محبت نہ پوچھیے

قابو رہا نہ دِل پہ ، عجب داستاں ہوئی
دِل میں سمائی کیسی وہ صورت نہ پوچھیے

طے کردہ راہِ ذات ، وہ دشوار راستے
وہ حوصلے ، وہ اُن کی عزیمت نہ پوچھیے

---------------------------------------
---------------------------------------
ایک غزل

رات دن بس اِک تماشا چاہیے
دِل کے بہلانے کو کیا کیا چاہیے

اتفاقاً بھول جاتے ہیں تجھے
التزاماً یاد رکھنا چاہیے

کتنا زخمی آج انساں ہوگیا
اس کو اب کوئی مسیحا چاہیے

اجنبی ہیں راستے، تنہا سفر
شکل کوئی اب شناسا چاہیے

اِس بھری محفِل میں تنہا ہیں خلیل
آج تو بس کوئی اپنا چاہیے

------------------------------------------
------------------------------------------

ایک اور غزل

شعرکچھ ایسے اب بنائیں گے
ہم نشینوں میں داد پائیں گے

بند کردیں گے قافیوں کو کہیں
ایک لمبی ردیف لائیں گے

یہ عروض و بحور کی قیدیں
ایک دِن سب ہی بھول جائیں گے

چھوڑ کر اب یہ قافیہ پیمائی
نظمِ آزاد گنگنائیں گے

دیکھ کر شاعری ہماری وہ
کیسے کیسے نہ تلملائیں گے

ایسے روٹھے ہو اب نہ مانو گے
شعر کہہ کر کسے منائیں گے

عذرِ مستی رکھیں گے کِس پر ہم
جزو تمہارے کسے ستائیں گے

کیا کہو گے خلیل ؔ جب وہ بھی
اِک جوابی غزل سنائیں گے

--------------------------------------
---------------------------------------

کالج کے زمانے کی کہی ہوئی ایک غزل سنا کر اجازت چاہیں گے۔


جب اس کی آنکھ سے ٹپکے کو تم نے سچ جانا
تو پھر بتائو تمہیں سچ کی جستجو کیوں ہے

فریب کھائے ہووں کے نقوشِ پا ہیں یہ
انھی پہ چلیے تو منزل کی آرزو کیوں ہے

عذاب جھیل چکا ہوں زمانے بھر کے سب
یہی ہے عشق تو پھر اتنی ھاو ھو کیوں ہے

جو شہرِ ذات کی پہنائیوں میں ڈوب چکا
اسے نشے کے لیے حاجتِ سبو کیوں ہے

جنوں کی آخری منزل پہ آخرش پہنچے
خلیلؔ اب تمہیں احساسِ رنگ و بو کیوں ہے​
 
اور اب ہم مدعو کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں صاحبِ طرز شاعر جناب فاتح الدین بشیر کو۔

نالۂ شعر میں آثارِ اثر چاہتا ہوں
گو ہوں درماندہ مگر دستِ ہنر چاہتا ہوں

بے کراں ایک سمندر ہے محبت میری
چار اطراف میں اعجازِ اثر چاہتا ہوں

جی ہاں۔ دعوتِ کلام دے رہے ہیں اسی خوبصورت شاعر کو کہ آکر اپنے اسی اعجازِ اثر سے مشاعرہ لوٹ لیں۔ جناب فاتح الدین بشیر صاحب۔
 

فاتح

لائبریرین
کوشش ہے کہ تازہ کلام ہی پیش کروں جو اس سے پہلے پیش نہ کیا ہو۔

ایک نظم کے دو بند :
تم مرا خواب ہو
خواب بھی وہ کہ جو
وجہِ تعبیر ہے
اصلِ تعمیر ہے
وقت کے سحر میں
کھوئی جاتی سبھی
کائناتوں میں جو
ربط زنجیر ہے

تم مرا خواب ہو
خواب بھی وہ کہ جو
دشتِ تاریک میں
اک ردا بن گیا
ذاتِ بے چہرہ میں
آئنہ بن گیا
میرے ہر درد کی
جو دوا بن گیا
تم وہی خواب ہو
(فاتح الدین فاتحؔ)​

ایک غزل کے چند اشعار:
چاند کے ساتھ رات بھر ہم نے عجب سفر کیا
حاصلِ زیست ایک پل، خواب میں جو بسر کیا

عسرتِ ارتباط تھی شرطِ وصالِ مستقل
کارِ عذاب ہو سو ہو، ہاں بخدا مگر کیا

آخری شاہ زاد تھا حرمتِ عشق شہر کا
شوقِ وصال و لمس نے جس کو وطن بدر کیا

زہر بنا دیا گیا آبِ حیاتِ کنجِ لب
کشتۂ زندگی تھا میں، موت نے ہی امر کیا

دامنِ ضعف کو دوام عفّتِ وقت دے گئی
تارِ شکستگی کو کیوں جسم نے بال و پر کیا
(فاتح الدین فاتحؔ)​

اور ایک تازہ ترین غزل:
لکھتے پھریں جو لکھتے ہیں فلسُوف خیر و شَر
سب سوچنے کی طرز پہ موقوف خیر و شَر

آدم پہ ہے اجارہ و معراجِ اختیار
صدیوں کے اقتدار میں ملفوف خیر و شر

کاسے میں ان کے ساغرِ جم اور امیدِ حور
بانٹے ہیں ٹھیکروں میں جو موصوف خیر و شر

مجھ کو تو خوابِ امن دکھاتے ہیں اور خود
اک دوسرے سے جنگ میں مصروف خیر و شر

بدنامیوں کے خوف سے فطرت پہ اک نقاب
فتووں کے نام سے ہوئے معروف خیر و شر

جب تک ہوس کا نام ہے تقویٰ تو کس طرح
انساں کی زندگی سے ہوں محذوف خیر و شر
(فاتح الدین فاتحؔ)​
 
چاند کے ساتھ رات بھر ہم نے عجب سفر کیا
حاصلِ زیست ایک پل، خواب میں جو بسر کیا



آخری شاہ زاد تھا حرمتِ عشق شہر کا
شوقِ وصال و لمس نے جس کو وطن بدر کیا

بہت ساری داد سمیٹتے ہوئے پنے خوابوں کی خوشبو بکھیر رہے تھے جناب فاتح الدین بشیر صاحب۔
 
روپ کا کندن کے شاعر جناب منیر انور کے بارے میں جناب محمد یعقوب آسی رقمطراز یوں ہوتے ہیں۔

منیر انور بلاشبہ ایک اچھا شاعر ہے اور اس سے بھی اچھی بات، کہ وہ ایک اچھا آدمی بھی ہے۔ اس کی ذات میں بھی اور شاعری میں بھی ایک دل آویز شگفتگی اور سلیقہ مندی پائی جاتی ہے۔ وہ محسوسات بھی بہت تیز رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اِن کا اظہار کس طور کرنا ہے۔


بڑا بلیغ اشارہ تھا اس کی باتوں میں
ہمارا ذکر تھا اور راہ کے غبار کی بات

ہم شمع بڑھاتے ہیں صاحبِ طرز، صاحبِ دیوان شاعر جناب منیر انور صاحب کی جانب اور ان سے ملتمس ہیں کہ وہ تشریف لاکر اپنے تازہ کلام سے ہمیں نوازیں۔
 

منیر انور

محفلین
السلام علیکم محترم احباب ۔۔ اردو محفل کے اس خوبصورت سلسلے میں شرکت کا موقع دیا جانے پر ممنون ہوں اور دعا گو کہ اللہ یہ رونقیں اور محبتیں سلامت رکھے ۔۔ آمین

ایک غزل پیش ہے ۔۔


غزل کہوں کہ تجھے حاصل غزل لکھوں
میں لفظ لکھوں مگر پھر بدل بدل لکھوں

تمہارے ساتھ جو لمحے نصیب میں آئے
انہیں میں عمر کہوں ، اور ایک پل لکھوں

تری نظر کے بدلتے ہوئے اشاروں کو
میں تیرا آج کہوں اور اپنا کل لکھوں

لکھوں تو لکھتا چلا جاؤں عشق کی ضد ہے
ہے مصلحت کا تقاضا سنبھل سنبھل لکھوں

ابد قرار دوں چاہت کی ہر نشانی کو
میں تیرے پیار کو سرمایہء ازل لکھوں

وہ میری روح میں شامل ہے اس طرح انور
بِن اس کے زیست فقط سانس کا عمل لکھوں

ایک نظم احباب کی خدمت میں پیش ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہرج ہی کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کیا طوفان اٹھا ہے
دل بستی کے سارے منطر
اپنی اصل بھلا بیٹھے ہیں
یادیں ، باتیں ، آنکھیں ، خوشبو
جھیل کنارہ ، گرتی بوندیں
اور ترا لہراتا آنچل
سب کچھ گڈ مڈ ہونے کو ہے
آج یہ ہم بھی سوچ رہے ہیں
دھول بھری ہے جو آنکھوں میں
سینے پر جو بوجھ پڑا ہے
درد کی گہری گرد میں لپٹے
دھندلے دھندلے یہ سب منظر
دھو لینے میں ہرج ہی کیا ہے
اپنی آنکھیں اپنے آنسو !
رو لینے میں ہرج ہی کیا ہے

ایک غزل احباب کی بے پایاں محبتوں کی نذر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فضائے مہر و محبت تری پناہ میں ہوں
میں اپنے حسنِ تخیل کی بارگاہ میں ہوں

ابھی ہوں اس کی کشش کے حصار سے باہر
ابھی میں عکسِ تمنا ہوں اور راہ میں ہوں

ترا وقار مرے ساتھ سے عبارت ہے
مثالِ دُرِثمیں میں تری کلاہ میں ہوں

اے میرے حسنِ مذَبذَب ترے جمال کی خیر
کہ میں یقیں ہوں مگر چشمِ اشتباہ میں ہوں

مدارِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
میں تیری راہِ طلب میں ہوں ، تیری چاہ میں ہوں

کہاں وہ دور کہ جچتا نہ تھا نظر میں تری
کہاں یہ وقت کہ میں بھی تری نگاہ میں ہوں

کہیں غرورِ گلِ تر ہے خاکِ پا میری
کہیں کہیں مگر انور میں عجزِ کاہ میں ہوں

بہت شکریہ دوستو ۔ ایک غزل کے چند اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب شرمندہءاظہار نہیں ہو سکتے
ہم تری راہ کی دیوار نہیں ہو سکتے

راس آ جائے ترے خواب کی زنجیر جنہیں
وہ کبھی نیند سے بیدار نہیں ہو سکتے

یہ تو ممکن ہے تعلق نہ رکھیں تجھ سے مگر
دوست ہیں باعث آزار نہیں ہو سکتے

ہم بہاروں کے تعاقب میں خزاؤں کا شکار
ہاں ہوئے ہیں مگر اس بار نہیں ہو سکتے

جن کے لفظوں سے امیدوں کے دیئے جلتے ہیں
وقت کی دھند سے دوچار نہیں ہو سکتے

ہم کتابوں کی طرح زندہ رہیں گے انور
ہم ترے شہر کا اخبار نہیں ہو سکتے
 
مدیر کی آخری تدوین:
یہ تو ممکن ہے تعلق نہ رکھیں تجھ سے مگر
دوست ہیں باعث آزار نہیں ہو سکتے

جن کے لفظوں سے امیدوں کے دیئے جلتے ہیں
وقت کی دھند سے دوچار نہیں ہو سکتے

ہم کتابوں کی طرح زندہ رہیں گے انور
ہم ترے شہر کا اخبار نہیں ہو سکتے

غزل کہوں کہ تجھے حاصل غزل لکھوں
میں لفظ لکھوں مگر پھر بدل بدل لکھوں

یوں لفظ بدل بدل کر ہمارے دلوں کو گرمارہے تھےاور ڈھیروں داد سمیٹ رہے تھے جناب منیر انور صاحب۔ اب ہم دعوتِ کلام دے رہے ہیں صاحبِ طرز شاعر جناب منصور آفاق صاحب کو کہ آکر اپنا حوضِ آبِ حیات سے گزرا ہوا تازہ کلام عطا فرمائیں۔


جب بھی میں کشفِ ذات سے گزرا
اک نئی کائنات سے گزرا

لفظ میرا تر ے تعاقب میں
حوضِ آبِ حیات سے گزرا


کائناتیں عظیم ہیں لیکن
میں محیط و محاط سے گزرا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top