منصور آفاق
محفلین
ایک نظم پیش خدمت ہے
ایک اوردعا
پھر وہی صبحِ مدنیہ بخش دے
بخش خوشحالی وہی سورج بھری
سر اٹھا کر چلنے کی توفیق دے
پھر سکونت دے جہاں میں دھج بھری
پھر خلیفہ دے کوئی فاروق سا
پھر حکومت دے وہی حشمت بھری
پھرصداقت دے دیانت دے ہمیں
سلطنت دے پھر وہی سطوت بھری
پھر وہی عظمت بھر ا بغداد دے
پھر ہمیں لوٹا دے اندلس علم کا
کھول دروازے ہمارے فہم کے
بخش ہم لوگوںکو پارس علم کا
پھر صلاح الدیں ایوبی بھیج کر
ساحلِ مردار کو مہتاب دے
پھر ہماری چشمِ ظلمت ناک کو
قبلہ ءاول کے روشن خواب دے
اکبر اعظم کوئی شاہِ جہاں
بخش بے چہرہ جہانِ وقت کو
اک تری نظر عنایت کے طفیل
کھینچ سکتے ہیں کمانِ وقت کو
بھیج داتا گنج شامِ رنج میں
استقامت دے گمانِ وقت کو
ابن عربی کی جوانی بخش دے
دھول ہوتے آستانِ وقت کو
پھر خیام و حافظ و تبریز بھیج
بخش لاہوتی ترانے وقت کو
پھر عطا کر قریہ ءاحساس میں
رومی و سعدی کے گانے وقت کو
پھراضافہ کر ہمارے علم میں
پھر عطا کرشاعری تہذیب کی
پھر ہمیں لوٹا ہمارا قرطبہ
پھر ہمیں دے سروری تہذیب کی
منصور آفاقایک اوردعا
پھر وہی صبحِ مدنیہ بخش دے
بخش خوشحالی وہی سورج بھری
سر اٹھا کر چلنے کی توفیق دے
پھر سکونت دے جہاں میں دھج بھری
پھر خلیفہ دے کوئی فاروق سا
پھر حکومت دے وہی حشمت بھری
پھرصداقت دے دیانت دے ہمیں
سلطنت دے پھر وہی سطوت بھری
پھر وہی عظمت بھر ا بغداد دے
پھر ہمیں لوٹا دے اندلس علم کا
کھول دروازے ہمارے فہم کے
بخش ہم لوگوںکو پارس علم کا
پھر صلاح الدیں ایوبی بھیج کر
ساحلِ مردار کو مہتاب دے
پھر ہماری چشمِ ظلمت ناک کو
قبلہ ءاول کے روشن خواب دے
اکبر اعظم کوئی شاہِ جہاں
بخش بے چہرہ جہانِ وقت کو
اک تری نظر عنایت کے طفیل
کھینچ سکتے ہیں کمانِ وقت کو
بھیج داتا گنج شامِ رنج میں
استقامت دے گمانِ وقت کو
ابن عربی کی جوانی بخش دے
دھول ہوتے آستانِ وقت کو
پھر خیام و حافظ و تبریز بھیج
بخش لاہوتی ترانے وقت کو
پھر عطا کر قریہ ءاحساس میں
رومی و سعدی کے گانے وقت کو
پھراضافہ کر ہمارے علم میں
پھر عطا کرشاعری تہذیب کی
پھر ہمیں لوٹا ہمارا قرطبہ
پھر ہمیں دے سروری تہذیب کی