مس جی بہت بہت شکریہ چھٹی منظور کرنے کا۔ تو لیں ہم سکول آ گئے ہیں اور سبق بھی یاد کیا ہے۔ آج ہم کچھ مسلمان سائنسدان جابر بن حیان کے بارے میں بتائیں گے۔ تو کچھ یوں ہے کہ:
ان کی اندازاََ تاریخ پیدائش 731ء اور مقام طوس یا خراسان تھا ۔ جابر بن حیا ن کا روزگار دوا سازی اور دوا فروشی تھا ۔ يعنی کہ جابر بن حیا ن ايک حکيم بھی تھے ۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا توان کی ماں نے ان کی پرورش اور تعلیم و تر بیت کی ۔ جابر بن حیان نے کچھ ہوش سنبھالی تو ماں انہیں کوفہ کے مضافات میں اپنے ميکے پرورش پانے کے لئے بھیج دیا ۔ لہذا اچھی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ۔ جوان ہونے کے بعد انہوں نے کوفے میں رہايش اختيار کی ۔ اس زمانے میں کوفہ میں علم و تدریس کے کافی مواقع تھے ۔ کوفہ میں جابر نے امام جعفر صادق (۴) کی شاگردی اختیار کی جن کے مدرسے میں مذہب کے ساتھ ساتھ منطق، حکمت اور الکیمیا جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے ۔ اس وقت کی رائج یونانی تعلیمات نے اس پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔ علم حاصل کرنے کےدوران اس نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو سونا بنانے کے جنون میں مبتلا دیکھا تو خود بھی یہ روش اپنا لی ۔ کافی تجربات کے بعد بھی وہ سونا تیار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ لیکن کیمیا میں حقیقی دلچسپی کی وجہ سے اس نے تجربات کا سلسلہ ختم نہ کیا۔ تاریخ کا سب سے پہلا کیمیا دان اور عظیم مسلمان سائنسدان طوس میں اپنے باپ کی جلا وطنی (ايک روايت کے مطابق وفات) کے دوران پیدا ہوا۔ جابر کا تعلق عرب کے جنوبی حصے کے ایک قبیلے اذد سے تھا۔ اس نے اپنے والد کے آبائی شہر کوفہ میں اپنی تجربہ گاہ تعمیر کی۔
اس نے اپنی کیمیاء کی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑے کو رنگنے، دھاتوں کو صاف کرنے، مومجامہ بنانے، لوہے پر وارنش کرنے، خضآب تیار کرنے کے علاوہ دیگر بہت سی اشیا بنانے کے طریقے درج کیئے۔ اس کے کئی اشیاء کے سلفائڈ بنانے کے بھی طریقے بتائے۔ اس نے شورے اور گندھک کے تیزاب جیسی چیز دنیا میں سب سے پہلی بار ایجاد کی۔ جو کہ موجودہ دور میں بھی نہایت اہمیت کی حامل اور سنسنی خیز ہے۔ اس نے سب سے پہلے قرع النبیق کے ذریعے کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ امرقابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں علمی "سائنسی" اور فکری حوالے سے دوسری صدی عیسویں کے بعد کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی ۔ بقراط "ارسطو"" "اقلیدیس " ۔۔ ار شمیدیش ۔۔ ۔۔ بطلیموس ۔۔ اور ۔۔ جا لینوس ۔۔ کے بعد صرف سکندریہ کی آخری محقق ہائپاتيا چوتھی صدی عیسویں میں گزری تھی ۔ لہذا علمی میدان میں چھائی ہوئی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان تھا ۔ اس کے بعد گیارھویں صدی تک مسلمان سائنسدانوں اور مفکروں کا غلبہ رہا ۔