بابا کی تعریف۔۔ اشفاق احمد
بابا وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کو آسانی عطا کرے۔ یہ اس کی تعریف ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ آتا ہو گا کہ بابا ایک بھاری فقیر ہے۔ اس نے سبز رنگ کا کرتا پہنا ہوا ہے۔ گلے میں منکوں کی مالا ہے۔ ہاتھ میں اس کے لوگوں کو سزا دینے کا تازیانہ پکڑا ہوا ہے، اور آنکھوں میں سرخ رنگ کا سرمہ ڈالا ہے۔ بس اتنی سی بات تھی۔ ایک تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے اعلٰی درجے کی سرخ رنگ کی ٹائی لگائی ہے۔ بیچ میں سونے کا پن لگائے ہوئے ایک بہت اعلٰی درجے کا بابا ہوتا ہے۔ اس میں جنس کی بھی قید نہیں ہے۔ مرد عورت، بچہ، بوڑھا، ادھیڑ نوجوان یہ سب لوگ کبھی نہ کبھی اپنے وقت میں بابے ہوتے ہیں، اور ہو گزرتے ہیں۔ لمحاتی طور پر ایک دفعہ کچھ آسانی عطا کرنے کا کام کیا۔ اور کچھ مستقلاً اختیار کر لیتے ہیں اس شیوے کو۔ اور ہم ان کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ میری زندگی میں بابے آئے ہیں اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگوں کو آسانی عطا کرنے کا فن کس خوبی سے کس سلیقے سے جانتے ہیں۔
میری یہ حسرت ہی رہی۔ میں اس عمر کو پہنچ گیا۔ میں اپنی طرف سے کسی کو نہ آسانی عطا کر سکا، نہ دے سکا اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ نہ ہی آئندہ کبھی اس کی توقع ہے۔
جب ہم تھرڈایئر میں تھے تو کرپال سنگھ ہمارا ساتھی تھا۔ ہم اس کو کرپالاسنگھ کہتے تھے۔ بیچارہ ایسا ہی آدمی تھا جیسے ایک پنجابی فوک گانے والا ہوتا ہے۔ لال رنگ کا لباس پہن کے بہت ٹیڑھا ہو کے گایا کرتا ہے۔ ایک روز ہم لاہور کے بازار انارکلی میں جا رہے تھے تو سٹیشنری کی دکانوں کے آگے ایک فقیر تھا۔ اس نے کہا بابا اللہ کے نام پر کچھ دے تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر اس نے کرپال سنگھ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بابا سائیں کچھ دے۔ تو کہنے لگا کہ بھاجی اس وقت کچھ ہے نہیں، اور اس کے پاس واقعی نہیں تھا۔ تو فقیر نے بجائے اس سے کچھ لینے کے بھاگ کر اس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور گھٹ کے چبھی (معانقہ) ڈال لی۔ کہنے لگا، ساری دنیا کے خزانے مجھ کو دیئے، سب کچھ تو نے لٹا دیا۔ تیرے پاس سب کچھ ہے۔ تو نے مجھے بھاجی کہہ دیا۔ میں ترسا ہوا تھا اس لفظ سے۔ مجھے آج کسی نے بھا جی نہیں کہا۔ اب اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
ان دنوں ہم سارے ہوسٹل کے لڑکے چوری چھپے سینما دیکھنے جاتے تھے۔ تو لاہور بھاٹی کے باہر ایک تھیٹر تھا اس میں فلمیں لگتی تھیں۔ میں ارواند، غلام مصطفٰی، کرپال یہ سب۔ ہم گئے سینما دیکھنے، رات کو لوٹے تو انار کلی میں بڑی یخ بستہ سردی تھی، یعنی وہ کرسمس کے قریب کے ایام تھے سردی بہت تھی۔ سردی کے اس عالم میں کہرا بھی چھایا ہوا تھا۔ ایک دکان کے تختے پر پھٹا جو ہوتا ہے، ایک دردناک آواز آ رہی تھی ایک بڑھیا کی۔ وہ رو رہی تھی اور کراہ رہی تھی، اور بار بار یہ کہے جا رہی تھی کہ ارے میری بہوجھے بھگوان سمیٹے تو مر جائے نی، مجھے ڈال گئی، وہ بہو اور بیٹا اس کو گھر سے نکال کے ایک دکان کے پھٹے پر چھوڑ گئے تھے۔ وہ دکان تھی جگت سنگھ کواترا کی جو بعد میں بہت معروف ہوئے۔ ان کی ایک عزیزہ تھی امرتا پرتیم، جو بہت اچھی شاعرہ بنی۔ وہ خیر اس کو اس دکان پر پھینک گئے تھے۔ وہاں پر وہ لیٹی چیخ و پکار کر رہی تھی۔ ہم سب نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی کہ دیکھو کتنا ظالم سماج ہے، کتنے ظالم لوگ ہیں۔ اس غریب بڑھیا بیچاری کو یہاں سردی میں ڈال گئے۔ اس کا آخری وقت ہے۔ وہاں اروند نے بڑی تقریر کی کہ جب تک انگریز ہمارے اوپر حکمران رہے گا، اور ملک کو سوراج نہیں ملے گا ایسے غریبوں کی ایسی حالت رہے گی۔ پھر وہ کہتے حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔ پھر کہتے ہیں۔ اناتھ آشرم (کفالت خانے، مقیم خانے) جو ہیں وہ کچھ نہیں کرتے۔ ہم یہاں کیا کریں۔ تو وہ کرپال سنگھ وہاں سے غائب ہو گیا۔ ہم نے کہا، پیچھے رہ گیا یا پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے۔ تو ابھی ہم تقریریں کر رہے تھے۔ اس بڑھیا کے پاس کھڑے ہو کے کہ وہ بایئسکل کے اوپر آیا بالکل پسینہ پسینہ سردیوں میں، فق ہوا، سانس اوپر نیچے لیتا آگیا۔ اس کے ہوسٹل کے کمرے میں چارپائی کے آگے ایک پرانا کمبل ہوتا تھا جو اس کے والد کبھی گھوڑے پر دیا کرتے ہوں گے۔ وہ ساہیوال کے بیدی تھے۔ تو وہ بچھا کے نا اس کے اوپر بیٹھ کر پڑھتے وڑھتے تھے۔ بدبودار گھوڑے کو کمبل جسے وہ اپنی چارپائی سے کھینچ کر لے آیا بایئسکل پر، اور لا کر اس نے بڑھیا کے اوپر ڈال دیا، اور وہ اس کو دعائیں دیتی رہی۔ اس کو نہیں آتا تھا وہ طریقہ کہ کس طرح تقریر کی جاتی ہے۔ فنِ تقریر سے ناواقف تھا۔ بابا نور والے کہا کرتے تھے انسان کا کام ہے دوسروں کو آسانی دینا۔