اردو محفل کا سکول (5)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نیلم

محفلین
خوبصورتی کی تلاش میں ہم چاہے پوری دنیا کا چکر لگا آئیں اگر وہ ہمارے اندر نہیں تو کہیں نہیں ملے گی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بابا کی تعریف۔۔ اشفاق احمد



بابا وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کو آسانی عطا کرے۔ یہ اس کی تعریف ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ آتا ہو گا کہ بابا ایک بھاری فقیر ہے۔ اس نے سبز رنگ کا کرتا پہنا ہوا ہے۔ گلے میں منکوں کی مالا ہے۔ ہاتھ میں اس کے لوگوں کو سزا دینے کا تازیانہ پکڑا ہوا ہے، اور آنکھوں میں سرخ رنگ کا سرمہ ڈالا ہے۔ بس اتنی سی بات تھی۔ ایک تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے اعلٰی درجے کی سرخ رنگ کی ٹائی لگائی ہے۔ بیچ میں سونے کا پن لگائے ہوئے ایک بہت اعلٰی درجے کا بابا ہوتا ہے۔ اس میں جنس کی بھی قید نہیں ہے۔ مرد عورت، بچہ، بوڑھا، ادھیڑ نوجوان یہ سب لوگ کبھی نہ کبھی اپنے وقت میں بابے ہوتے ہیں، اور ہو گزرتے ہیں۔ لمحاتی طور پر ایک دفعہ کچھ آسانی عطا کرنے کا کام کیا۔ اور کچھ مستقلاً اختیار کر لیتے ہیں اس شیوے کو۔ اور ہم ان کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ میری زندگی میں بابے آئے ہیں اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگوں کو آسانی عطا کرنے کا فن کس خوبی سے کس سلیقے سے جانتے ہیں۔
میری یہ حسرت ہی رہی۔ میں اس عمر کو پہنچ گیا۔ میں اپنی طرف سے کسی کو نہ آسانی عطا کر سکا، نہ دے سکا اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ نہ ہی آئندہ کبھی اس کی توقع ہے۔
جب ہم تھرڈایئر میں تھے تو کرپال سنگھ ہمارا ساتھی تھا۔ ہم اس کو کرپالاسنگھ کہتے تھے۔ بیچارہ ایسا ہی آدمی تھا جیسے ایک پنجابی فوک گانے والا ہوتا ہے۔ لال رنگ کا لباس پہن کے بہت ٹیڑھا ہو کے گایا کرتا ہے۔ ایک روز ہم لاہور کے بازار انارکلی میں جا رہے تھے تو سٹیشنری کی دکانوں کے آگے ایک فقیر تھا۔ اس نے کہا بابا اللہ کے نام پر کچھ دے تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر اس نے کرپال سنگھ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بابا سائیں کچھ دے۔ تو کہنے لگا کہ بھاجی اس وقت کچھ ہے نہیں، اور اس کے پاس واقعی نہیں تھا۔ تو فقیر نے بجائے اس سے کچھ لینے کے بھاگ کر اس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور گھٹ کے چبھی (معانقہ) ڈال لی۔ کہنے لگا، ساری دنیا کے خزانے مجھ کو دیئے، سب کچھ تو نے لٹا دیا۔ تیرے پاس سب کچھ ہے۔ تو نے مجھے بھاجی کہہ دیا۔ میں ترسا ہوا تھا اس لفظ سے۔ مجھے آج کسی نے بھا جی نہیں کہا۔ اب اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
ان دنوں ہم سارے ہوسٹل کے لڑکے چوری چھپے سینما دیکھنے جاتے تھے۔ تو لاہور بھاٹی کے باہر ایک تھیٹر تھا اس میں فلمیں لگتی تھیں۔ میں ارواند، غلام مصطفٰی، کرپال یہ سب۔ ہم گئے سینما دیکھنے، رات کو لوٹے تو انار کلی میں بڑی یخ بستہ سردی تھی، یعنی وہ کرسمس کے قریب کے ایام تھے سردی بہت تھی۔ سردی کے اس عالم میں کہرا بھی چھایا ہوا تھا۔ ایک دکان کے تختے پر پھٹا جو ہوتا ہے، ایک دردناک آواز آ رہی تھی ایک بڑھیا کی۔ وہ رو رہی تھی اور کراہ رہی تھی، اور بار بار یہ کہے جا رہی تھی کہ ارے میری بہوجھے بھگوان سمیٹے تو مر جائے نی، مجھے ڈال گئی، وہ بہو اور بیٹا اس کو گھر سے نکال کے ایک دکان کے پھٹے پر چھوڑ گئے تھے۔ وہ دکان تھی جگت سنگھ کواترا کی جو بعد میں بہت معروف ہوئے۔ ان کی ایک عزیزہ تھی امرتا پرتیم، جو بہت اچھی شاعرہ بنی۔ وہ خیر اس کو اس دکان پر پھینک گئے تھے۔ وہاں پر وہ لیٹی چیخ و پکار کر رہی تھی۔ ہم سب نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی کہ دیکھو کتنا ظالم سماج ہے، کتنے ظالم لوگ ہیں۔ اس غریب بڑھیا بیچاری کو یہاں سردی میں ڈال گئے۔ اس کا آخری وقت ہے۔ وہاں اروند نے بڑی تقریر کی کہ جب تک انگریز ہمارے اوپر حکمران رہے گا، اور ملک کو سوراج نہیں ملے گا ایسے غریبوں کی ایسی حالت رہے گی۔ پھر وہ کہتے حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔ پھر کہتے ہیں۔ اناتھ آشرم (کفالت خانے، مقیم خانے) جو ہیں وہ کچھ نہیں کرتے۔ ہم یہاں کیا کریں۔ تو وہ کرپال سنگھ وہاں سے غائب ہو گیا۔ ہم نے کہا، پیچھے رہ گیا یا پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے۔ تو ابھی ہم تقریریں کر رہے تھے۔ اس بڑھیا کے پاس کھڑے ہو کے کہ وہ بایئسکل کے اوپر آیا بالکل پسینہ پسینہ سردیوں میں، فق ہوا، سانس اوپر نیچے لیتا آگیا۔ اس کے ہوسٹل کے کمرے میں چارپائی کے آگے ایک پرانا کمبل ہوتا تھا جو اس کے والد کبھی گھوڑے پر دیا کرتے ہوں گے۔ وہ ساہیوال کے بیدی تھے۔ تو وہ بچھا کے نا اس کے اوپر بیٹھ کر پڑھتے وڑھتے تھے۔ بدبودار گھوڑے کو کمبل جسے وہ اپنی چارپائی سے کھینچ کر لے آیا بایئسکل پر، اور لا کر اس نے بڑھیا کے اوپر ڈال دیا، اور وہ اس کو دعائیں دیتی رہی۔ اس کو نہیں آتا تھا وہ طریقہ کہ کس طرح تقریر کی جاتی ہے۔ فنِ تقریر سے ناواقف تھا۔ بابا نور والے کہا کرتے تھے انسان کا کام ہے دوسروں کو آسانی دینا۔
 

شمشاد

لائبریرین
شکریہ شریک محفل کرنے کا لیکن یہ بھی تو لکھنا تھا کہ یہ تحریر اشفاق احمد کی کس کتاب اور کس مضمون سے لی گئی ہے۔
 

نیلم

محفلین
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
انسان کی زندگی میں کچھ ساعتیں سعد ہوتی ہیں۔ شب قدر میں آنے والی اس سعد ساعت کی طرح جسے بہت سے لوگ گزر جانے دیتے ہیں، صرف چند اس ساعت کے انتظار میں ہاتھ اٹھائے اور جھولی پھیلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس ساعت کے انتظار میں جو چلتے پانی کو روک دے اور رکے ہوئے پانی کو رواں کر دے، جو دل سے نکلنے والی دعا کو لبوں تک آنے سے پہلے مقدر بنا دے۔

(اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "پیر کاملﷺ" سے)
 

نیلم

محفلین
ایک بات زندگی بھر یاد رکھنا اور وہ یہ کہ کسی کو دھوکا دینا اپنے آپ کودھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے وہ مرتا نہیں ہے۔گھوم پھر کر ایک روز واپس آپ کے پاس ہی پہنچ جاتا ہے کیونکہ اس کو اپنےٹھکانے سے بڑی محبت ہے اور وہ اپنی جائے پیدائش کو چھوڑ کر کہیں رہ نہیں سکتا.
 

نیلم

محفلین
اگر زندگی میں سکون چاہتے ہو تو سوائے الله کے کبھی کسی سے توقع مت رکھو

کیونکہ توقع کا پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں رہتا ہے۔
 

نیلم

محفلین
انسان کا اپنے دشمن سے انتقام لینے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے

کہ وہ اپنی خوبیوں میں اضافہ کرے

حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جو لوگ توبہ نہیں کرتے ؟ وہ یہ سوچیں اور اس حقیقت سے آگاہی حاصل کریں کہ آخر کون سی وجوہات ہیں جنہوں نے ان کو گناہ پر اس قدر مصر کر رکھا ہے کہ توبہ کی طرف ان کا دھیان جاتا ہی نہیں ؟ یاد رکھئے ! وہ پانچ اسباب ہیں جو ان کو بدبختی کا سامان فراہم کر رہے ہیں ساتھ ہر ایک کا علاج بھی موجود ہے۔ (بات صرف عمل کرنے کی ہے)
______________________________

________________

پہلا سبب:۔ یہ ہے کہ آخرت پر شاید ان کا ایمان... نہ ہو یا اس کے بارے میں شک و شبہ میں گرفتار ہوں۔
______________________________

_________________

دوسرا سبب:۔ یہ ہو سکتا ہے کہ شہوتوں اور خواہشات نے کچھ اس طرح مغلوب کر رکھا ہو کہ ان کے ترک کرنے کی ہمت ہی جواب دے چکی ہو۔ دنیوی لذتیں اس قدر اس کے نفس پر مسلط ہو چکی ہوں کہ آخرت کا خوف اور خطرہ اس کے دل سے رخصت ہو چکا ہو۔
______________________________

_________________

تیسرا سبب:۔ یہ ہوتا ہے کہ آخرت کا تو فقط وعدہ ہی ہے جب کہ دنیا نقد ہے اور آدمی کا رجحان فطری طور پر نقد کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور جو ادھار ہے یعنی جس کا فقط وعدہ ہے وہ آنکھوں سے اوجھل ہے اور جو چیز آنکھوں سے دور ہو وہ دل سے لامحالہ دور ہو جایا کرتی ہے۔
______________________________

________________

چوتھا سبب:۔ یہ ہوتا ہے کہ مومن تائب ہونے کا ارداہ ہمیشہ رکھا کرتا ہے لیکن تساہل اور تاخیر سے کام لیتا ہے۔ (جیسا کہ انسان کی سرشت میں داخل ہے) اور یہی کہے جاتا ہے کہ کل توبہ کرلوں گا بس ایک یہ خواہش پوری کر لوں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے ارماں میرے لیکن پھر بھی کم نکلے
______________________________

_________________

پانچواں سبب:۔ یہ خیال کرتا ہے کہ کیا گناہ لازمی طور پر دوزخ ہی میں لے جائے گا کیونکہ اللہ عزوجل اپنی رحمت سے بخش سکتا ہے کہ یہی اس کی رحیمی و کریمی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی خواہش جب غلبہ اختیار کرتی ہے تو اسے روکنے کے بجائے کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ معاف کرنے والا ہے جہاں اتنے گناہ معاف ہوگئے وہاں یہ بھی بخش دے گا اور یوں نیکی کے بجائے بدی کے عوض رحمت الٰہی کی امیدیں باندھے رہتا ہے۔
________________________________________________
علاج:
______________________________

__________________

اب جہاں تک پہلے سبب کا تعلق ہے یعنی آخرت پر ایمان ہی نہ رکھنے کا تو اس کے بارے آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں لیکن وہ شخص جو آخرت کو ادھار اور دنیا کو نقد سمجھتا ہے اور اس کو چمٹے رہنے پر مصر ہے اور آخرت کو دل سے محض اس لئے دور کئے ہوئے ہے کہ وہ آنکھوں سے دور ہے تو ہم کہنا چاہتے ہیں اور یہی اس کا علاج بھی ہے کہ وہ یوں سمجھ لے کہ جو چیز آنے والی ہے یعن...ی آخرت وہ آنے والی نہیں بلکہ آچکی ہے اور اتنی سی کسر باقی ہے کہ اس کی آنکھیں بند ہوں اور وہ اس دنیا سے خود بھی اوجھل ہو جائے اور یوں وہ ادھار نقد کی صورت اختیار کرلے! اور پھر یہ چیز (موت) عین ممکن ہے کہ واقعی آج وقوع پذیر ہو جائے اور یہ ادھار آج ہی نقد ہو جائے اور جسے اس نے نقد سمجھ رکھا ہے وہ خواب و خیال ہوکر رہ جائے۔
______________________________

________________

دوسرے سبب کا علاج یہ ہے کہ جو شخص ترک لذت کی تاب نہیں لا سکتا اسے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ذرا سی چیز یہ برداشت نہیں کر سکتا تو کل کو دوزخ کی آگ کو کیسے برداشت کر سکے گا اور جنت کی لذتیں (تصور میں لاکر) وہ کس طرح ضائع ہوتیں دیکھ سکے گا جو شخص دنیا کی گھٹیا لذتیں ترک نہیں کرسکتا وہ بہشت کی لذتوں پہ کیسے کیسے نہ للچائے گا اور اس وقت اس پر کیا گزرے گی۔
______________________________

_________________

اور اس بات کو بھی ذرا سوچنا چاہئیے کہ بیماری کی حالت میں ٹھنڈا پانی سب سے بڑی نعمت معلوم ہوتی ہے اور وہ بہت ہی اچھا لگتا ہے لیکن اگر کوئی طبیب کہہ دے کہ یہ ٹھنڈا پانی نقصان دہ ہے تو بیمار اپنی تمام خواہش کے باوجود اسے ترک کر دیتا ہے کیونکہ اس طرح اسے شفاء کی امید ہوتی ہے تو پھر اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے مطابق کیا ترک شہوت اس سے زیادہ ضروری نہیں ہے جب کہ اس سے ابدی بادشاہی کی امید کی جا سکتی ہو۔
______________________________

_________________

اور جو شخص توبہ میں تاخیر سے کام لے رہا ہو اس کو غور کرنا چاہئیے کہ آخر یہ کس خوش فہمی میں گرفتار ہے ؟ آج کے بجائے کل کے انتظار میں کیوں ہے ؟ کیا عجب کہ کل کا دن اسے دیکھنا نصیب ہی نہ ہو اور آج ہی پیغام اجل آ پہنچے ؟ اس لئے حدیث پاک میں آیا ہے کہ اہل دوزخ میں سے دہائی دینے والے بیشتر وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے توبہ میں تاخیر سے کام لیا ہوگا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
یا اللہ پناہ دے اُس نیند سے جس سے میری فجر کی نماز قضاء ہوجاتی ہے




یا اللہ پناہ دے ایسی مصروفیت سے جس سے ظہر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے



...
یا اللہ پناہ دے ایسے قیلولے (آرام) سےجس سے میری عصر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے




یا اللہ پناہ دے ایسی محفل سے کہ جس کے لُطف سے میری مغرب کی نماز قضاء ہو جاتی ہے




یا اللہ پناہ دے ایسی تھکاوٹ سے جس سے میری عشا کی نماز قضاء ہو جاتی ہے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
تقدیر اور تدبیر
انسان دو پاؤں کا جانور ہے۔ اس کا ایک پاؤں تدبیر سے اٹھتا ہے اور دوسرے قدم کو اس کی قسمت اٹھاتی ہے۔ تمہارے ڈی این اے نے یہ بات طے کر دی تھی کہ تمہاری آنکھوں کا اور بالوں کا رنگ کیا ہو گا۔۔۔ یہ بات بھی طے ہے کہ تمہارا قد اتنا ہی ہو گا۔۔۔ یہ تمہاری قسمت ہے۔
اور ان بالوں کو، اس رنگ کو اور قد کو جو چار چاند میک اپ اور ہیل والی جوتیاں لگاتی ہیں، وہ تدبیر ہے۔
قسمت گندھی ہوئی مٹی ہے، کوئی اس سے اینٹیں بناتا ہے۔۔ کوئی کوزہ تیار کرتا ہے۔۔ کوئی اس مٹی میں پھول اگاتا ہے، ٹیوب روز کے۔۔۔
من چلے کا سودا صفحہ بائیس سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
"اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق حقیقی ہے، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشق حقیقی ایک درخت ہے اور عشق مجازی اسکی شاخ ہے۔
جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔۔۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔"
زاویہ سوئم، باب :محبت کی حقیقت سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔
زاویہ دوم، باب گیارہ سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اور بھسم ہوتے دیکھاہے۔ پھر ان کی راکھ کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھاہے۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپ محبت کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہر وقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ رکھتےہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورو، آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام نجویز نہیں کیا جاسکا۔
اشفاق احمد کے سفرنامے، سفر در سفر سے اقتباس
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top