اردو محفل کا سکول (5)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
محبت چھلاوہ ھے۔ ۔ ۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ھے کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ھیں اتصال جسم کے خواہاں ھیں ۔ کچھ آپ کی روح کے لیئے تڑپتے ھیں کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ھو جانا چاھتے ھیں ۔ کچھ کو سمجھ سوچ ادراک کی سمتوں پر چھا جانے کا شوق ھوتا ھے ۔ ۔ ۔ محبت چھلاوہ ھے لاکھ روپ بدلتی ھے ۔ ۔ ۔ اسی لیئے لاکھ چاھو ایک آدمی آپ کی تمام ضرورتیں پوری کر دے یہ ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ اور بالفرض کوئی آپ کی ھر سمت ھر جہت کے خلا کو پورا بھی کر دے تو اس بات کی کیا گارنٹی ھے کہ آپ اس کی ھر ضرورت کو ھر جگہ ھر موسم اور ھر عہد میں پورا کرسکیں گے ۔ ۔ ۔ انسان جامد نہیں ھے بڑھنے والا ھے اوپر دائیں بائیں ۔ ۔ ۔ اس کی ضروریات کو تم پابند نہیں کر سکتے ۔۔۔

ًبانو قدسیہ کے ناول، راجہ گدھ سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کہتے ہیں کہ ایک چھوٹی مچھلی نے بڑی مچھلی سے پوچھا کہ"آپا یہ سمندر کہاں ہوتا ہے؟“ اُس نے کہا جہاں تم کھڑی ہوئی ہو یہ سمندر ہے- اُس نے کہا، آپ نے بھی وہی جاہلوں والی بات کی۔ یہ تو پانی ہے، میں تو سمندر کی تلاش میں ہوں اور میں سمجھتی تھی کہ آپ بڑی عمر کی ہیں، آپ نے بڑا وقت گزارا ہے، آپ مجھے سمندر کا بتائیں گی- وہ اُس کو آوازیں دیتی رہی کہ چھوٹی مچھلی ٹھہرو،ٹھہرو میری بات سُن کے جاؤ اور سمجھو کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں لیکن اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور چلی گئی- بڑی مچھلی نے کہا کہ کوشش کرنے کی، جدّوجہد کرنے کی، بھاگنے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، دیکھنے کی اور Straight آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے- مسئلے کے اندر اُترنے کی ضرورت ہے- جب تک تم مسئلے کے اندر اُتر کر نہیں دیکھو گے، تم اسی طرح بے چین و بےقرار رہو گےاور تمہیں سمندر نہیں ملے گا-
میرے "بابا“ نے کہا یہ بڑی غور طلب بات ہے- جو شخص بھی گول چکروں میں گھومتا ہے اور اپنے ایک ہی خیال کے اندر”وسِ گھولتا“ہے اور جو گول گول چکر لگاتا رہتا ہے، وہ کُفر کرتا ہے، شِرک کرتا ہے کیونکہ وہ اِھدِناالصّراطَ المُستَقیم (دکھا ہم کو سیدھا راستہ) پر عمل نہیں کرتا- یہ سیدھا راستہ آپ کو ہر طرح کے مسئلے سے نکالتا ہے لیکن میں کہتا ہوں سر اس” دُبدا“ (مسئلے) سے نکلنے کی آرزو بھی ہےاور اس بے چینی اور پیچیدگی سے نکلنے کو جی بھی نہیں چاہتا، ہم کیا کریں- ہم کچھ اس طرح سے اس کے اندر گِھرے ہوئے ہوتے ہیں، ہم یہ آرزو کرتے ہیں اور ہماری تمنّا یہ ہے کہ ہم سب حالات کو سمجھتے جانتے، پہچانتے ہوئے کسی نہ کسی طرح سے کوئی ایسا راستہ کوئی ایسا دروازہ ڈھونڈ نکالیں، جس سے ٹھنڈی ہوا آتی ہو- یا ہم باہر نکلیں یا ہوا کو اندر آنے دیں، لیکن یہ ہمارے مقدّر میں آتا نہیں ہے- اس لیے کہ ہمارے اور Desire کے درمیان ایک عجیب طرح کا رشتہ ہے جسے بابا بدھا یہ کہتا ہے کہ جب تک خواہش اندر سے نہیں نکلے گی (چاہے اچھی کیوں نہ ہو) اُس وقت تک دل بے چین رہے گا- جب انسان اس خواہش کو ڈھیلا چھوڑ دے گا اور کہے گا کہ جو بھی راستہ ہے، جو بھی طے کیا گیا ہے میں اُس کی طرف چلتا چلا جاؤں گا، چاہے ایسی خواہش ہی کیوں نہ ہو کہ میں ایک اچھا رائٹر یا پینٹر بن جاؤں یا میں ایک اچھا” اچھا“ بن جاؤں- جب انسان خواہش کی شدّت کو ڈھیلا چھوڑ کر بغیر کوئی اعلان کئے بغیر خط کشیدہ کئے یا لائن کھینچے چلتا جائے تو پھر آسانی ملے گی۔

زاویہ دوم، باب دوم سے اقتباس - اشفاق احمد
 

شمشاد

لائبریرین
ساہ تے بگانی چیز اے، ایدا کی پھروسہ کرنا، اپنی چیز ہوندی تے چنتا وی کردے۔
 

مقدس

لائبریرین
ون آف مائی آل ٹائم فیورٹس

خواہشات


بادشاہ نے ایک درویش سے کہا۔۔
” مانگو کیا مانگتے ہو؟" درویش نے اپنا کشکول آگے کردیا اور عاجزی سے بولا۔۔

” حضور! صرف میرا کشکول بھر دیں۔۔" بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتارے انگوٹھیاں اتاریں جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم ۔۔ لہٰزا اس نے فوراً خزانے کے انچارج کو بلایا۔۔
انچارج نے ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا‘ بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے گئے کشکول بڑا ہوتا گیا۔۔ یہاں تک کہ تمام جواہرات غائب ہوگئے۔۔
بادشاہ کو بے عزتی کا احساس ہوا اس نے خزانے کہ منہ کھول دیئے لیکن کشکول بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔ خزانے کے بعد وزراء کی باری‘ اس کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی‘ لیکن کشکول خالی کا خالی رہا۔۔ ایک ایک کے کے سارا شہر خالی ہوگیا لیکن کشکول خالی رہا۔۔ آخر بادشاہ ہار گیا درویش جیت گیا۔
درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹا‘ مسکرایا‘ سلام کیا اور واپس مڑ گیا‘ بادشاہ‘ درویش کے پیچھے بھاگا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔۔
” حضور ! مجھے صرف اتنا بتادیں یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے ؟" درویش مسکرایا۔۔
” اے نادان ! یہ خواہشات سے بنا ہوا کشکول ہے‘ جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔۔۔"

(زیرو پوائنٹ ،جاوید چوہدری)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
تعلق کیا چیز ہے؟
یہ بھی حسیات سے تعلق رکھنے والی غیر مرئی خوبیوں میں سے ایک کیفیت ہے، جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن سمجھنے پر آئیں تو سمجھ نہیں سکتے۔ ماں کی محبت کے تعلق کو مامتا کہہ کر واضع نہیں کر سکتے۔ ڈکشنری میں یا لٹریچر سے اس کی وضاحتیں ملتی ہیں، مامتا نہیں ملتی۔ جہاد پر جان سے گزر جانے والے بہادر کے جذبے کو اس وقت تک سمجھا نہیں جا سکتا، جب تک آپ خود ایسی بہادری کا حصہ نہ بن جائیں۔ تعلق، زندگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے صبر کی مانند ایک ڈھال ہے۔ جب کبھی جہاں بھی سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، وہاں قناعت، راحت اور وسعت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ کو اندر ہی اندر یہ یقین محکم رہتا ہے کہ "آپ کی آگ" میں سلگنے والا کوئی دوسرا بھی موجود ہے، دہرا وزن آدھا رہ جاتا ہے۔
بانو قدسیہ کے ناول حاصل گھاٹ سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
تہیہ کیجیے، راستہ پائیے
جب ایک آدمی کا تہیہ ہو جائے کہ میں نے اس راستے سے اس راستے پہ جانا ہے تو اللہ پھر اس کو برکت دیتا ہے اور پھر وہ آدمی جس کی تلاش میں ہوتا ہے وہ ایک دن خود صبح پانچ بجے آ کے اس کے دروازے پہ دستک دیتا ہے، ڈھونڈنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
تہیہ ہو تو پھر ہوتا ہے نہ ہو تو مشکل ہے، پھر آدمی ڈھونڈتا رہتا ہے، بتائیے اشفاق صاحب کوئی اچھا سا بابا!!!۔
یہ ایسے ہے کہ، کیوں کہ ابھی اس کا کوئی ارادہ نہیں اس کا صرف پروگرام یہی پوچھنا ہے کہ نارووال گاڑی کب جاتی ہے؟
کہیں جانا ہے؟
تو کہے گا، نہیں میں تو صرف ایسے ہی پوچھ رہا تھا!!!۔
باب، اندر کی تبدیلی سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
علم عطا کرنا، اور نصحیتیں کرنا بہت آسان ہے اور محبت دینا مشکل کام ہے۔
(اشفاق احمد، زاویہ کے باب "بابے کی تعریف" سے اقتباس)۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کبھی آپ نے ایسا تعلق محسوس کیا ہے کہ، کسی شخص کی غیر موجودگی میں زندگی خالی خولی ماچس کی ڈبیہ بن جائے؟
(بانو قدسیہ کے ناول، حاصل گھاٹ کے صفحہ 72 سے اقتباس)۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہر انسان کے اندر ایک چھوٹا سا رب چھپا ہوا ہے، جو چاہتا ہے کہ زندگی میں اسے ایک سچا پجاری، ایک صادق عبد اور ایک سر ہتھیلی پر رکھنے والا سچا عاشق مل جائے۔
(بانو قدسیہ کے ناول، راجہ گدھ، صفحہ 393 سے اقتباس)۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
علم جتنا بھی ہے وہ اللہ کی پہنچ ہے، اور وہ اپنی مرضی کے مطابق جب چاہتا ہے انسانوں کو عطا کرتا رہتا ہے، نہ پہلے نہ بعد میں۔
زاویہ سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
حضرت فضل شاہ صاحب قطب دو عالم نوروالے, نوروالے فرماتے ہیں:
"جب تم کوئی عیب دیکھو تو اس کو اپنے اندر تلاش کرو اگر اس کو اپنے اندر پاؤ تو اسے نکال دو۔ دوسرے کی عیب چینی سے یہ بہترہے اور حقیقی تبلیغ ہے۔ اسے بزرگان دین تلاوت الوجود کہتے ہیں"۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
عبد کی شان یہی ہے کہ وہ دعا کرتا ہے۔
ہماری بھی تو ایک شان ہے ناں، ہم بھی تو کوئی گرے پڑے لوگ نہیں، ہم دعا کریں گے۔ دے گا تو پھر وہی دے گا۔
زاویہ کے باب، دعا سے انتخاب۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمیشہ مسکراتے رہو، کیوں کہ مسکراہٹ چہرے کا دروازہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ دل گھر میں موجود ہے یا نہیں اور جس گھر میں مکین نہ ہو بھی بےآباد اور ویران ہوتا ہے اور جس گھر میں مکین ہو اسے کبھی کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اشفاق احمد
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
شاید ہر مرد کے اندر یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ عورت کو اس کی پٹڑی سے اتارے اور اپنے راستے پہ لے کر چلے۔ (بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ سے ایک مکالمہ)۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
محبت انسان کو ہمیشہ سفر میں رکھتی ہے، ایک پل کا چین بھی اگر آپ کی رگوں کے نام کر دیا جائے تو آپ کا اپنا اور اپنے محبوب کا نام بھول جائے گا۔ اور ایسے میں پہلی محبت کی موت ہوتی ہے۔ باقی کی محبتیں اپنے انجام سے خوفزدہ، محبت مسلسل فعل ہے اور مسلسل زندگی اور موت۔
اک لمحے کو دہرانا بھی کسی سائے میں بیٹھ کر سستانا بھی، اور آبلے گننا بھی یا صرف اپنے لیے سانس لینا بھی جرم ہے۔
اشفاق احمد
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top