بہت بہت شکریہ محترم خرم بھائی کہ آپ نے اتنی محبت سے ناچیز کو یاد کیا۔ یہ سر اسر آپ کی محبت ہی ہے ورنہ :
من آنم کہ من دانم
یہاں میں اردو محفل کی انتظامیہ ، مشاعرے کے تمام منتظمین خاص طور پر محترم محمد وارث صاحب اور محترم خلیل الرحمٰن صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جن کی زیرِ سر پرستی اتنا اچھا مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو محفل کی انفرادی روایت ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔
اور اب جنابِ صدر اور اساتذہ کرام کی اجازت سے پہلے کچھ چیدہ چیدہ اشعار اورپھر ایک غزل پیش کرنے کی جسارت کروں گا:
سخن ہوں سر بہ سر لیکن ادا ہونے سے ڈرتا ہوں
میں اس قحطِ سماعت میں صدا ہونے سے ڈرتا ہوں
میں ڈرتا ہوں کہ دنیا نا شناسِ حرفِ دل ٹھہری
میں خوشبو ہوں سو ایسے میں ہوا ہونے سے ڈرتا ہوں
کچھ زیادہ ہی ڈرتے ہیں آپ
خیر بہت ہی پیارے اشعار ہیں۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
ماشاءاللہ
کیا بات ہے آپ کی
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
فصیلِ ذات سے واپس پلٹ بھی سکتا تھا
میں اپنے آپ میں پھر سے سمٹ بھی سکتا تھا
رفیقِ راہِ عدم تھی ازل سے تنہائی
سفر حیات کا باتوں میں کٹ بھی سکتا تھا
لہو سے میں نے ہی سینچا تھا نخلِ خواہش کو
سو میں ہی شہرِ تمنّا اُلٹ بھی سکتا تھا
بہت خوب
داد قبول کیجیے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اور اب ایک غزل کے کچھ اشعار
الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے
طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے
بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے
چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے
سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے
ارے واہ
مزہ آ گیا
آخر میں ایک بار پھر تمام حاضرینِ مشاعرہ اور انتظامیہ کا بہت بہت شکریہ۔
آپ کا بھی بہت بہت شکریہ جو ہمیں اتنے پیارے کلام سے نوازا۔