اردو محفل کی چھٹی سالگرہ کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ بادشاہ سلامت اپنے گروی شدہ محل کی بوسیدہ بالکونی پر بے چینی کے عالم میں ٹہل رہے تھے ۔
مشیر نے کہا
”عالم پناہ ! موڈریٹر کا درجہ پاؤں تو کچھ عرض کروں ”
” تم سب موڈریٹر بننے کے بعد ادھراُدھرہو جاتے ہو ۔ پھر اردو محفل کے صوبوں میں شرپسندی کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ اس سے اردو محفل پر سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے لوگ بھاگ جاتے ہیں ۔ اور سب سے زیادہ شر پسندی جنوبی صوبوں سیاست اور مذہب میں مچائی جاتی ہے ۔ ہم نے ظفری کو ان صوبوں کا موڈریٹر بنایا تھا ۔ مگر ہم نےاس کو تنخواہ صرف 22 مہینے نہیں دی تواس نے وہاں ناجائز تجاویزات لگوا دیں اور پھر ان سے بھتا بھی لینا شروع کردیا ۔ اور حد تو یہ کہ ہمیں اس میں سے کوئی حصہ بھی نہیں دیا ۔ خیر ہم تمہاری درخواست پر غور کریں گے ۔ کہو ۔۔۔ کیا کہنا چاہتے ہو مگر ذرا تمیز سے ۔۔۔ ”
”حضور آپ کا وزن وزیرِ اعظم شمشاد بھائی کے وزن کو مات کر رہا ہے ۔ اتنےاہتما م کے ساتھ اگر یہاں ٹہلیں گے تو بالکونی زمین بوس ہوجائے گی ۔”
مشیر نے بہ مشکل حدِ ادب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی ۔ بادشاہ نے کہا
” تم کو بالکونی کی پڑی ہے اور یہاں اردو محفل کی چھٹی سالگرہ قریب آرہی ہے ۔ اور ابھی تک مابدولت کو کسی نے ایک قصیدہ بھی لکھ کر نہیں دیا ہے ۔ ہم نے فہیم کو کہا بھی تھا وہ فوری طور پر ایک قصیدہ اردو محفل کی شایانِ شان لکھ کر دے ، مگر مقطع میں ہمارا نام ہونا چاہیئے ۔ مگر اتنی دیر ہوگئی اور فہیم ابھی تک نہیں آیا ۔ ”
اسی دوران بالکونی کا صبر جواب دے گیا ۔ اور بادشاہ سلامت اپنے مشیر کے ساتھ بالکونی سمیت نیچے کیفے پیالہ کی چھت سے ہوتے ہوئے زمین پر جلوہ افروز ہوئے۔ مٹی اور گرد کی وجہ سے دونوں حمام میں ایک جیسے نظر آئے ۔ اسی دوران فہیم کی آمد ہوگئی ۔ بادشاہ نے فہیم کو مخاطب کرنا چاہا ۔
بابا معاف کرو ۔۔۔۔ فہیم بادشاہ کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
بادشاہ کی دھاڑ پر فہیم نے بادشاہ سلامت کو پہچانا ۔ اور پھر فرشی سلام کچھ اس طرح کیا کہ انگرائی اور فرشی سلام میں کوئی فرق باقی نہ رہا ۔ بادشاہ سلامت سے دوسری ملکہ شراوت دیکھی نہیں گئی اور دوسری طرف منہ کرکے بادشاہ نے سوال کیا کہ اب تک کہاں تھے ۔؟
فہیم نے مودبانہ انداز میں کہا ۔
” حضور ! گھوڑے کا پنکچر ہوگیا تھا ۔ اس لیئے آنے میں تاخیر ہوئی ۔
“ یہ تمہارا گھوڑا ہر دوسرے روز پنکچر ہوجاتا ہے ۔تم گدھا کیوں نہیں رکھ لیتے۔؟
" جناب کہاں سے لوں ، سارے تو اسمبلیوں میں براجمان ہیں ۔ "
فہیم نے عاجزی سے کہا ۔
ہاں یہ تو تم نے صحیح کہا ،خیر ۔۔۔ ہمارا قصیدہ کہاں ہے ۔ ؟ بادشاہ نے پوچھا
“ یہ رہا حضور “ فہیم نے مودبانہ انداز میں قصیدہ بادشاہ کی نظر کیا ۔
بادشاہ نے قصیدے پر نظر ڈالی اور چونک گئے ۔
“ ۔۔۔ صغراں علی ۔۔۔۔ موبائل نمبر ×××××××××× ۔۔۔ ہائیں کیا ہے ۔ ؟ بادشاہ سلامت دھاڑے ۔
“ معافی کا خواستگار ہوں جناب ۔۔۔ غلطی سے ہاتھ دوسری جیب میں چلا گیا ۔ یہ رہا آپ کا قصیدہ “
فہیم نے اپنی دوسری جیب سے ایک اور پرچہ نکال کر بادشاہ کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔
“ حضور ! اگر پہلے والا پرچہ واپس کردیں تو نوازش ہوگی ۔ “ فہیم نے عاجزانہ انداز میں بادشاہ سے درخواست کی ۔
“ اس کو بھول جاؤ ۔۔۔۔۔ آج ہی ملکہ سے چھپ کر ہم نے نیا موبائل لیا ہے ۔ موبائل کی کارکردگی دیکھنے کے لیئے آج اسی نمبر پر ہم ٹرائی کریں گے ۔ “
فہیم نے بے چارگی سے مشیرِ خاص ابن سعید کو دیکھا تو مشیرِ خاص نے آہستگی سے کہا “ ابے ۔۔۔ میری طرف کیا دیکھ رہا ہے ۔ میری تو پوری ڈائری ہی بادشاہ کے پاس ہے ۔ “
“ یہ تم نے یہاں کیا لکھا ہے ۔۔۔۔ اردو محفل کی جو جان ہے ۔۔۔۔ وہ ریما خان ہے ، ریما خان ہے “
ابے ۔۔۔ہم تم کو ریما لگتے ہیں کیا ۔۔۔ ؟ بادشاہ سلامت پھر دھاڑے
“ اور یہاں کیا لکھا ہے ۔۔۔۔۔ اردو محفل کے سب ہیں ہم ۔۔۔ پھر لگے دم تو مٹے غم “
“ یہ تم نے پھر سُوٹے پی کر قصیدہ لکھا ہے ۔ پورے ہی کاغذ سے ہمیں چرس کی بو آرہی ہے ۔ ہمیں تو نشہ سا چڑھنے لگا ہے ۔ “
یہ کہتے کیساتھ ہی بادشاہ نے جھومنا شروع کردیا ۔
مشیرِ خاص نے بادشاہ کے کان میں کہا
“ جناب ! اس طرح پولیس آجائے گی “
بادشاہ نے اچانک جھومنا چھوڑ کر جیب سے تسبیح نکال کر پڑھنا شروع کردیا ۔
“ اس قصیدے کو لے جاؤ اور اس کی اصلاح کرا کر لاؤ ۔ ہوسکے تو فاتح سے مدد لے لو ۔ سنا ہے آج کل وہ چھٹی پر ہے ۔ “
“ حضور فاتح جی نے شاعری چھوڑ دی ہے ۔ “
“ وہ کیوں “
“ پچھلے سال فاتح کی شادی پر وارث بھائی نے سگریٹ پیتے ہوئے بے دھیانی میں اپنا سگریٹ اس گھوڑے کی پشت میں بُجھا دیا تھا ۔ جس پر فاتح دولہا بنے سوار تھے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ۔ وہ بس یہی گاتے پھرتے ہیں کہ “ کسی دا یار کوئی ، سگریٹ نہ پی وے “ ۔
“ ہمم ۔۔۔۔۔ خیر ہم کچھ نہیں جانتے ۔ قصیدہ ہمیں فوری طور پر چاہیئے ۔ “
“ آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی ۔ “
فہیم نے کہا ۔
“ کیا بات ہے مشیرِ خاص ۔۔۔ آج وزیرِ اعظم نظر نہیں آرہے ہیں ۔ “
“ حضور وہ آج اپنا بلڈ ٹیسٹ کرانے گئے تھے ۔ “
“ اوہ اچھا ۔۔۔۔ پھر کیا ہوا ۔ “
“ حضور ! ان کے بلڈ کا گروپ پازیٹو ٹپال نکل آیا ہے ۔ “
“ ہائیں ۔۔۔ یہ کونسا بلڈ گروپ ہے ۔ “
“ جناب وہ دن میں اتنی چائے پی جاتے ہیں کہ بدن میں لہو کے بجائے اب چائے دوڑ رہی ہے ۔ بلکہ ہسپتال میں بھی اپنی دو بوتلیں گرم کروا کر پی چکے ہیں ۔ “
“ خیر جب وہ آئیں تو ان سے محفل کی سالگرہ کی تیاریوں کی بابت پوچھ لینا ۔ اب ہم اپنے کمرے میں سونے کے لیئے جاتے ہیں ۔ “
“ جناب آپ کے کمرے میں تو ساجد بھائی نے بھینس باندھ رکھی ہے ۔ آپ ایسا کریں کہ برآمدے میں سو جائیں ۔ ویسے بھی محل میں کوئی چوکیدار بھی نہیں ہے ۔ آپ کے برآمدے میں اس طرح سونے سے یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔ “
مشیرِ خاص نے شوخی سے کہا
بادشاہ نے خونخوار نظروں سے مشیرِ خاص کی طرف دیکھا اور برآمدے کی طرف بڑھ گئے ۔
( تیاریاں جاری ہیں )
نوٹ : اس تحریر میں دوستوں کے نام انتہائی اعتبار اور دوستی کے حوالے سے استعمال کیئے گئے ہیں ۔ اگر کسی دوست کو معیوب لگے تو ذپ میں اس کا اظہار کردے ۔ اس کا نام حذف کردیا جائیگا ۔
اور آئندہ کی تحریروں میں کوئی دوست اس مشقت سے بچنا چاہے تو وہ بھی ذپ کرسکتا ہے ۔ ورنہ ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا ۔
مشیر نے کہا
”عالم پناہ ! موڈریٹر کا درجہ پاؤں تو کچھ عرض کروں ”
” تم سب موڈریٹر بننے کے بعد ادھراُدھرہو جاتے ہو ۔ پھر اردو محفل کے صوبوں میں شرپسندی کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ اس سے اردو محفل پر سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے لوگ بھاگ جاتے ہیں ۔ اور سب سے زیادہ شر پسندی جنوبی صوبوں سیاست اور مذہب میں مچائی جاتی ہے ۔ ہم نے ظفری کو ان صوبوں کا موڈریٹر بنایا تھا ۔ مگر ہم نےاس کو تنخواہ صرف 22 مہینے نہیں دی تواس نے وہاں ناجائز تجاویزات لگوا دیں اور پھر ان سے بھتا بھی لینا شروع کردیا ۔ اور حد تو یہ کہ ہمیں اس میں سے کوئی حصہ بھی نہیں دیا ۔ خیر ہم تمہاری درخواست پر غور کریں گے ۔ کہو ۔۔۔ کیا کہنا چاہتے ہو مگر ذرا تمیز سے ۔۔۔ ”
”حضور آپ کا وزن وزیرِ اعظم شمشاد بھائی کے وزن کو مات کر رہا ہے ۔ اتنےاہتما م کے ساتھ اگر یہاں ٹہلیں گے تو بالکونی زمین بوس ہوجائے گی ۔”
مشیر نے بہ مشکل حدِ ادب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی ۔ بادشاہ نے کہا
” تم کو بالکونی کی پڑی ہے اور یہاں اردو محفل کی چھٹی سالگرہ قریب آرہی ہے ۔ اور ابھی تک مابدولت کو کسی نے ایک قصیدہ بھی لکھ کر نہیں دیا ہے ۔ ہم نے فہیم کو کہا بھی تھا وہ فوری طور پر ایک قصیدہ اردو محفل کی شایانِ شان لکھ کر دے ، مگر مقطع میں ہمارا نام ہونا چاہیئے ۔ مگر اتنی دیر ہوگئی اور فہیم ابھی تک نہیں آیا ۔ ”
اسی دوران بالکونی کا صبر جواب دے گیا ۔ اور بادشاہ سلامت اپنے مشیر کے ساتھ بالکونی سمیت نیچے کیفے پیالہ کی چھت سے ہوتے ہوئے زمین پر جلوہ افروز ہوئے۔ مٹی اور گرد کی وجہ سے دونوں حمام میں ایک جیسے نظر آئے ۔ اسی دوران فہیم کی آمد ہوگئی ۔ بادشاہ نے فہیم کو مخاطب کرنا چاہا ۔
بابا معاف کرو ۔۔۔۔ فہیم بادشاہ کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
بادشاہ کی دھاڑ پر فہیم نے بادشاہ سلامت کو پہچانا ۔ اور پھر فرشی سلام کچھ اس طرح کیا کہ انگرائی اور فرشی سلام میں کوئی فرق باقی نہ رہا ۔ بادشاہ سلامت سے دوسری ملکہ شراوت دیکھی نہیں گئی اور دوسری طرف منہ کرکے بادشاہ نے سوال کیا کہ اب تک کہاں تھے ۔؟
فہیم نے مودبانہ انداز میں کہا ۔
” حضور ! گھوڑے کا پنکچر ہوگیا تھا ۔ اس لیئے آنے میں تاخیر ہوئی ۔
“ یہ تمہارا گھوڑا ہر دوسرے روز پنکچر ہوجاتا ہے ۔تم گدھا کیوں نہیں رکھ لیتے۔؟
" جناب کہاں سے لوں ، سارے تو اسمبلیوں میں براجمان ہیں ۔ "
فہیم نے عاجزی سے کہا ۔
ہاں یہ تو تم نے صحیح کہا ،خیر ۔۔۔ ہمارا قصیدہ کہاں ہے ۔ ؟ بادشاہ نے پوچھا
“ یہ رہا حضور “ فہیم نے مودبانہ انداز میں قصیدہ بادشاہ کی نظر کیا ۔
بادشاہ نے قصیدے پر نظر ڈالی اور چونک گئے ۔
“ ۔۔۔ صغراں علی ۔۔۔۔ موبائل نمبر ×××××××××× ۔۔۔ ہائیں کیا ہے ۔ ؟ بادشاہ سلامت دھاڑے ۔
“ معافی کا خواستگار ہوں جناب ۔۔۔ غلطی سے ہاتھ دوسری جیب میں چلا گیا ۔ یہ رہا آپ کا قصیدہ “
فہیم نے اپنی دوسری جیب سے ایک اور پرچہ نکال کر بادشاہ کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔
“ حضور ! اگر پہلے والا پرچہ واپس کردیں تو نوازش ہوگی ۔ “ فہیم نے عاجزانہ انداز میں بادشاہ سے درخواست کی ۔
“ اس کو بھول جاؤ ۔۔۔۔۔ آج ہی ملکہ سے چھپ کر ہم نے نیا موبائل لیا ہے ۔ موبائل کی کارکردگی دیکھنے کے لیئے آج اسی نمبر پر ہم ٹرائی کریں گے ۔ “
فہیم نے بے چارگی سے مشیرِ خاص ابن سعید کو دیکھا تو مشیرِ خاص نے آہستگی سے کہا “ ابے ۔۔۔ میری طرف کیا دیکھ رہا ہے ۔ میری تو پوری ڈائری ہی بادشاہ کے پاس ہے ۔ “
“ یہ تم نے یہاں کیا لکھا ہے ۔۔۔۔ اردو محفل کی جو جان ہے ۔۔۔۔ وہ ریما خان ہے ، ریما خان ہے “
ابے ۔۔۔ہم تم کو ریما لگتے ہیں کیا ۔۔۔ ؟ بادشاہ سلامت پھر دھاڑے
“ اور یہاں کیا لکھا ہے ۔۔۔۔۔ اردو محفل کے سب ہیں ہم ۔۔۔ پھر لگے دم تو مٹے غم “
“ یہ تم نے پھر سُوٹے پی کر قصیدہ لکھا ہے ۔ پورے ہی کاغذ سے ہمیں چرس کی بو آرہی ہے ۔ ہمیں تو نشہ سا چڑھنے لگا ہے ۔ “
یہ کہتے کیساتھ ہی بادشاہ نے جھومنا شروع کردیا ۔
مشیرِ خاص نے بادشاہ کے کان میں کہا
“ جناب ! اس طرح پولیس آجائے گی “
بادشاہ نے اچانک جھومنا چھوڑ کر جیب سے تسبیح نکال کر پڑھنا شروع کردیا ۔
“ اس قصیدے کو لے جاؤ اور اس کی اصلاح کرا کر لاؤ ۔ ہوسکے تو فاتح سے مدد لے لو ۔ سنا ہے آج کل وہ چھٹی پر ہے ۔ “
“ حضور فاتح جی نے شاعری چھوڑ دی ہے ۔ “
“ وہ کیوں “
“ پچھلے سال فاتح کی شادی پر وارث بھائی نے سگریٹ پیتے ہوئے بے دھیانی میں اپنا سگریٹ اس گھوڑے کی پشت میں بُجھا دیا تھا ۔ جس پر فاتح دولہا بنے سوار تھے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ۔ وہ بس یہی گاتے پھرتے ہیں کہ “ کسی دا یار کوئی ، سگریٹ نہ پی وے “ ۔
“ ہمم ۔۔۔۔۔ خیر ہم کچھ نہیں جانتے ۔ قصیدہ ہمیں فوری طور پر چاہیئے ۔ “
“ آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی ۔ “
فہیم نے کہا ۔
“ کیا بات ہے مشیرِ خاص ۔۔۔ آج وزیرِ اعظم نظر نہیں آرہے ہیں ۔ “
“ حضور وہ آج اپنا بلڈ ٹیسٹ کرانے گئے تھے ۔ “
“ اوہ اچھا ۔۔۔۔ پھر کیا ہوا ۔ “
“ حضور ! ان کے بلڈ کا گروپ پازیٹو ٹپال نکل آیا ہے ۔ “
“ ہائیں ۔۔۔ یہ کونسا بلڈ گروپ ہے ۔ “
“ جناب وہ دن میں اتنی چائے پی جاتے ہیں کہ بدن میں لہو کے بجائے اب چائے دوڑ رہی ہے ۔ بلکہ ہسپتال میں بھی اپنی دو بوتلیں گرم کروا کر پی چکے ہیں ۔ “
“ خیر جب وہ آئیں تو ان سے محفل کی سالگرہ کی تیاریوں کی بابت پوچھ لینا ۔ اب ہم اپنے کمرے میں سونے کے لیئے جاتے ہیں ۔ “
“ جناب آپ کے کمرے میں تو ساجد بھائی نے بھینس باندھ رکھی ہے ۔ آپ ایسا کریں کہ برآمدے میں سو جائیں ۔ ویسے بھی محل میں کوئی چوکیدار بھی نہیں ہے ۔ آپ کے برآمدے میں اس طرح سونے سے یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔ “
مشیرِ خاص نے شوخی سے کہا
بادشاہ نے خونخوار نظروں سے مشیرِ خاص کی طرف دیکھا اور برآمدے کی طرف بڑھ گئے ۔
( تیاریاں جاری ہیں )
نوٹ : اس تحریر میں دوستوں کے نام انتہائی اعتبار اور دوستی کے حوالے سے استعمال کیئے گئے ہیں ۔ اگر کسی دوست کو معیوب لگے تو ذپ میں اس کا اظہار کردے ۔ اس کا نام حذف کردیا جائیگا ۔
اور آئندہ کی تحریروں میں کوئی دوست اس مشقت سے بچنا چاہے تو وہ بھی ذپ کرسکتا ہے ۔ ورنہ ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا ۔