ڈاکٹر طاہر القادری جو ایجنڈا اور مقصد لے کر اٹھے تھے گو وہ مکمل نہیں ہوا لیکن اسے مکمل طور پر فلاپ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا لانگ مارچ اور پانچ روزہ دھرنا کامیاب اور اپنی مثال آپ تھا۔ ایسا نظم و ضبط اتنے بڑے اجتماعات میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ علامہ طاہر القادری کے دھرنے نے حکمرانوں کو کنٹینر میں آ کر مذاکرات کرنے پر مجبور کر دیا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات وقتی طور پر پس پشت ڈال کر میاں نوازشریف کا مہمان بننا پڑا۔ طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے پر مرکزی حکومت فعال اور اپوزیشن متحرک ہوئی۔ گو کہ آج کوئی بھی پارٹی اپوزیشن میں نہیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ مسلم لیگ ن پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی پر حکمرانی کرتی ہے اور خود کو اپوزیشن کہلاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ایک آدھ نہیں صوبہ بلوچستان میں درجنوں وزیر ہیں وہ بھی اپنے ہاتھ سے اپوزیشن کا اعزاز کھونے پر آمادہ نہیں۔ بہرحال حکومت اور حکومتی پارٹیوں کو طاہر القادری کے دھرنے سے جمہوریت ڈیل ریل ہونے کا خدشہ لاحق ہوا تو وہ حصہ بقدر جثہ اور اپنی استطاعت کے مطابق ایک جگہ اکٹھا ہوئیں۔ ایک لائحہ عمل طے کیا اور جمہوریت کو نقصان سے بچانے کے لیے عزم ظاہر کیا گیا۔ یہ کام بیک وقت لاہور اور اسلام آباد میں ہوتا رہا ہے۔ خوب، بہت خوب بلکہ بہت ہی خوب! طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کی نوبت ہی کیوں آئی۔ اس کی مکمل ذمہ دار ہمارے سیاستدان اور مروجہ جمہوری سسٹم ہے۔ طاہر القادری نے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو وہ تڑپ اٹھے۔ کل طاہر القادری کے خلاف اکٹھے ہونے والے سیاستدان اگر عوام کو مصائب اور مشکلات سے نکالنے کے لیے اسی طرح اکٹھے ہوتے اور عوام کو بحرانوں سے نجات دلا دیتے تو یقین مانئے لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکاءکی تعداد کسی دیہات کے ہائی سکول کے بچوں کے برابر ہوتی اور یہ لانگ مارچ ماڈل ٹاﺅن سے نکلنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتا۔
پاکستان کے بچے بچے کو لانگ مارچ کے جواز کا علم اور وہ اس کی کامیابی کے راز سے واقف ہے۔عالمی سطح پر اس حوالے سے سوالات ضرور اٹھ رہے تھے جن کا جواز ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے قبل مل گیا۔ سپریم کورٹ نے رینٹل کرپشن کیس میںملوث ہونے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تو یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ دنیامیں سرِ عام یہ بحث ہونے لگی کہ جس ملک میں اس قسم کا وزیراعظم ہو کہ جسے سپریم کورٹ کرپشن کیس میں گرفتار کرنے کا حکم دے تو ایسی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا بلاجواز نہیں ہو سکتا۔سپریم کورٹ نے حکمرانوں کو ایک بارپھر ایکسپوز کر دیا ہے۔ لوگ صدر اور وزیراعظم کو جن الفاظ میں یاد کرتے ہیں وہ سن کر بطور پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکن اور رہنما کے میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کی پوری دنیا میں رسوائی ہوئی ہے۔ وہ گرفتار ہوں یا نہ ہوں۔ چیئرمین نیب نمک خواری کا جس طرح چاہیں حق ادا کرنے کی کوشش کریں وہ وزیراعظم راجہ کی عزت، احترام اور وقار بحال نہیں کر سکیں گے۔ آخر وزیراعظم کس حوصلہ سے بیرون ممالک جا کر اپنے ہم منصبوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکیں گے۔مغربی معاشروں میں ایسی باتوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ راجہ کی گرفتاری کا حکم تو ان کی تذلیل کر گیا اس حکم کے سامنے ہٹ دھرمی سے ان کی مزید رسوائی ہو رہی ہے۔
پاکستان کے سوشل اور روایتی میڈیا میں طاہر القادری کے ماضی کو کھنگالا جا رہا ہے۔ الزامات کی بھرمار ہے۔ طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری کیا،بلکہ عروج پر رہا۔ آخر انہوں نے غلط کیا کیا ہے؟ میں نے اس حوالے سے یورپ میں موجود اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے ای میل ،فون اور فیس بک پر رابطہ کیا ان میںسے اکثریت نے طاہر القادری پر تنقید کرنے والوں سے سوال کیا کہ کیا پاکستانی روایتی سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ اور اڑھائی اڑھائی تین تین سال کی باریاں لینے والے کیا دودھوں دھلے ہیں، کیا وہ گنگا نہائے ہوئے اور فرشتے ہیں؟طاہرالقادری کے حوالے سے تو معاملہ تنقید سے بڑھ کر دشنام تک جا پہنچا تھا۔ کئی لوگ تو ان پر بہتان باندھتے دکھائی دیئے اور تو اور وزیرداخلہ رحمن ملک کا بس چلتا تو وہ خون کی ندیاں بہا دیتے۔ انہوں نے ایک دوبار ایسا کرنے کی کوشش کی اور یہ دھمکی تو خصوصی طور پر ہولناک تھی کہ ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائےگا۔ رحمن ملک کو صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے تدبراور تحمل سے خونریزی سے باز رکھا لیکن وہ بہتان طرازی سے بازنہ آئے شاید ایسا ان کی خصلت ہے اور فطرت میں شامل ہے۔ طاہر القادری دھرنے کے دوران ہر لمحہ شرکاءکے درمیان رہے لیکن رحمن ملک نے سوال اٹھا دیا کہ قادری صاحب اسلام آباد ایف 7کے ایک گھر میں رات کو 30منٹ کیا کرتے رہے۔ اس پر علامہ نے سیخ پا تو ہونا ہی تھا۔جب حکومت نے طاہر القادری کے ساتھ 10رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی تو انہوں نے برملا کہا شیطان ملک کے سوا جو مرضی آ جائے۔
بیرون ممالک بیٹھے دانشوروں اور دیدہ وروں اور جہاندیدہ افراد کی یہ رائے بھی ہے کہ پہلے پی پی پی اور ن لیگ میں نوراکشتی ہوتی تھی اب وہ کھل کر ایک دوسرے کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ ن لیگ نے پہلے پی پی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی پھر ن لیگ اس کی فرینڈلی اپوزیشن بن گئی۔ اب اگلے ٹینیﺅر کے لیے دونوں کے مابین انڈرسٹینڈنگ ہو چکی ہے۔ اب مرکز اور پنجاب ن لیگ کے پاس سندھ پی پی پی اور دیگر صوبوں میں پی پی آج کی طرح مخلوط حکومت میں شامل ہو گی۔ خدا خیر کرے۔
گذشتہ روز سے جاری اس نفسیاتی جنگ میں قطعہ نظر اس کے کہ کون جیتا کون ہارا، ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف کے عمران خان صاحب نے ایک دفعہ پھر بروقت فیصلہ نہ کرکے پاکستان کے انقلاب پسند طبقے کو بہت مایوس کیا ہے اور جس جگہ پر تحریک انصاف 31اکتوبر2011کوکھڑی تھی وہاں اب منہاج القرآن کی عوامی تحریک کھڑی ہے۔اور دوسری طرف میاں نوازشریف گذشتہ ہونے والے تمام ضمنی الیکشنوں کے نتائج کی وجہ سے جس مقام پر پہنچ چکے تھے وہ اس مقام کو بھی برقرار نہ رکھ سکے۔شاید میاں صاحب یہ بھول گئے تھے کہ انہیں زرداری کی نفرت کی وجہ سے عوامی توجہ ملی ہے اور اب عوام نے دیکھ لیا ہے کہ میاں نوازشریف اور زرداری صاحب میں ایک خفیہ ڈیل یا انڈرسٹینڈنگ چل رہی ہے۔ان تحفظات کی وجہ سے ایک مذہبی رجحان رکھنے والا طبقہ اور موجودہ حکومت سے نالاں عوام نوازشریف صاحب سے یقینا ناراض ہو چکے ہیں۔اس کا فائدہ بہرحال پیپلزپارٹی کو پہنچے گا ۔اگر الیکشن آئندہ چندہفتوں میں ہو گئے تو عوامی تحریک ایک بڑا اپ سیٹ دے سکتی ہے۔لیکن افسوس یہ ہوگا کہ عمران خان اورمیاں نوازشریف دونوں اپنی حالیہ پالیسیوں کی وجہ سے جیت کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری کے ماضی اور ان کے کردار پر بات ہو سکتی ہے لیکن ان کے مطالبات کو ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت نے بلاشبہ ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں۔ میں اسے طاہر القادری کی اخلاقی فتح قرار دیتا ہوں۔ ان کا اجتماع انتہائی منظم رہا۔ بارش اور شدید سردی بھی شرکاءکا عزم متزلزل نہ کر سکی۔ اس اجتماع میں بہت کچھ خوشنما تھا سب سے زیادہ یہ تھا کہ اجتماع کے دوران صرف اور صرف پاکستانی پرچم لہراتے رہے اور وہ بھی بڑی تعداد میں۔