تمام امیدواروں کو آرٹیکل 62 ، 63 کی چھلنی سے گزرنا ہوگا اور 218/3 اور 1976ءکے عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 77 سے 82 اور سپریم کورٹ کے انتخابی اصلاحات کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگا۔ انقلاب کا سفر ابھی جاری ہے اور ہم معاہدے پر عمل درآمد ہونے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔حکومتی اتحادیوں نے "مل ملا" کر علامہ صاحب کو "واپس" بھجوا دیا ۔۔۔ ان کا یہی "کارنامہ" بہت ہے ۔۔۔ اب کچھ نہیں ہونے جا رہا ۔۔۔ اب صرف عام انتخابات ہوں گے جن میں تمام بڑے سیاسی کھلاڑی شریک ہوں گے ۔۔۔
نہیں سر ، میری معلومات کے مطابق ان آرٹیکلز پر عمل درآمد کروانے کے لیے لائحہ عمل طے کر لیا گیا ہے اور اس دفعہ الیکشن کا منظر نامہ مختلف ہوگا۔62، 63 کی چھلنیاں پہلے بھی تھیں اور اب بھی رہیں گی۔ لیکن گزرنے والوں کے پاس بہت سے ہتھکنڈے ہیں۔ گھوم پھر کر وہی لوگ پھر آ جائیں گے۔
جمشید دستی کی مثال سب کے سامنے ہے۔
لانگ مارچ نے حکومت کو معاہدہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور ایسے لوگوں سے (یزیدوں ، ظالموں ، لٹیروں) سے بات منوانا تضاد نہیں ، حق کی فتح ہے۔شفقت محمود صاحب کی تمام باتیں درست لیکن معاہدہ تو ا’نہی لوگوں سے ہوا جو اِن تمام مسائل کے بانی ہیں۔ معا ہدہ پر دستخط بھی ’اسی وزیراعظم نے کئے جس کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری ہو چکے تھے۔قادری صاحب کی تقاریر سے تو یہی لگتا تھا جیسے کہ یہ دھرنا تمام اہم مسائل ختم کروا کر ہی ختم ہو گا۔البتہ قوم کے ’ان لاکھوں لوگوں کی استقامت اور خلوص کو سلام پیش کیا جانا چاہیے جو انتہائی نامسائد حالات کے باوجود اپنے مقصد کے حصول کے لئے ڈٹے رہے۔
یہ تو الیکشن کے نتائج کے بعد ہی پتا چلے گا کہ یہ حقیقی تھا یہ محض ٹوپی ڈرامہ!لانگ مارچ نے حکومت کو معاہدہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور ایسے لوگوں سے (یزیدوں ، ظالموں ، لٹیروں) سے بات منوانا تضاد نہیں ، حق کی فتح ہے۔
درست کہا ، جد و جہد ابھی ختم نہیں ہوئی ! مطالبات پر عمل درآمد کے لیے بھی ایک لائحہ عمل طے ہے بس دیکھتے جائیں کیا ہوتا ہےیہ تو الیکشن کے نتائج کے بعد ہی پتا چلے گا کہ یہ حقیقی تھا یہ محض ٹوپی ڈرامہ!