اس سزا پر عملدرآمد نہیں ہوگا
حامد میر
19 دسمبر ، 2019
یہ زخمی زخمی سا آئین ہے، اِسے بار بار توڑا گیا، یہ بار بار بحال ہوتا رہا کیونکہ یہ پاکستانی عوام کو میسر واحد متفقہ قومی دستاویز ہے جس نے تمام تر اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود پاکستان کے عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔
اس آئین کو توڑنے والے کو کبھی سزا نہ ملی تھی کیونکہ آئین شکن آمروں نے مفاد پرست سیاستدانوں کی مدد سے بار بار آئینی تحفظ حاصل کر لیا لیکن 17؍دسمبر 2019کو پہلی دفعہ ایک آئین شکن آمر پرویز مشرف کو سزا سنائی گئی۔
مشرف کو ملنے والی سزا پر افواجِ پاکستان کے ترجمان کی طرف سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
عام پاکستانیوں کو اس غم و غصے کا بھرپور احساس ہے لیکن یہی عام پاکستانی اپنے آئین کا بھی بہت احترام کرتے ہیں جس کو توڑنے کی سزا سنگین غداری کا مقدمہ ہے۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ مشرف نے پاکستان کے دفاع کے لئے دو جنگیں لڑیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اُنہیں سزا کس الزام میں ملی اور کیا یہ الزام غلط ہے؟ کیا تین نومبر 2007کو مشرف نے آئین معطل نہیں کیا تھا؟ یہ وہ آئین ہے جس سے وفاداری کا حلف مشرف نے اُٹھایا تھا۔
اس آئین کی دفعہ چھ کہتی ہے ’’کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا کسی اور غیرآئینی طریقے سے آئین منسوخ کرے یا اُسے معطل کرے یا اُسے منسوخ کرنے کی سازش کرے تو سنگین غداری کا مجرم ہوگا‘‘۔ 17
؍دسمبر 2019سے پہلے صرف سیاستدانوں، صحافیوں اور شاعروں، ادیبوں کو غدار کہا جاتا تھا۔
ایک فوجی آمر ایوب خان نے تو محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار قرار دے دیا تھا لیکن پہلی دفعہ ایک عدالت نے کسی آمر کو آئین سے غداری کا مجرم ٹھہرایا ہے اس لئے کچھ لوگ عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔
1973کا آئین پہلی دفعہ جنرل ضیاء الحق نے 1977میں پامال کیا لیکن وہ سنگین غداری کے مقدمے سے بچ گئے کیونکہ 1985کی قومی اسمبلی نے اُن کی آئین شکنی کو آٹھویں ترمیم کے ذریعہ تحفظ دے دیا۔
اس آئین کو جنرل پرویز مشرف نے 1999میں دوسری مرتبہ توڑا۔ اُنہیں 2002کی اسمبلی نے 17ویں ترمیم کے ذریعہ تحفظ دے دیا۔
مشرف نے 2007میں اس آئین کو معطل کیا لیکن 2008کی اسمبلی نے اُنہیں تحفظ نہیں دیا۔
2009میں سپریم کورٹ نے اُنہیں غاصب قرار دے کر اُن پر آئین سے بغاوت کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔
اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ریاستی اداروں میں مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا تھے لہٰذا اُنہوں نے مشرف پر مقدمہ چلانے کے بجائے اُنہیں پاکستان سے باہر جانے دیا لیکن اُن کی مفاہمت کی پالیسی ناکام رہی۔
میمو گیٹ اسکینڈل میں زرداری کو غدار قرار دیا گیا اور بعد ازاں گیلانی کو عدلیہ نے نااہل قرار دے دیا۔ 2013کے انتخابات سے قبل مشرف پاکستان واپس آ گئے۔
اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کوشش کی کہ مشرف واپس چلے جائیں لیکن مشرف نے کیانی کی نہیں سنی۔
پھر نواز شریف وزیراعظم بن گئے اور اُنہوں نے اپنے وعدے کے مطابق مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔
نواز شریف نے غلطی یہ کی کہ مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد کو اپنا وزیر قانون بنایا لہٰذا مشرف کے وکلا زاہد حامد سمیت شوکت عزیز اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شریکِ ملزم بنانے کی کوشش کرتے رہے لیکن جب معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو ان تینوں کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ ان تین کو شریکِ ملزم بنانے کی صورت میں مشرف کے کور کمانڈرز کو بھی شریک ملزم بنانا پڑتا۔
اس دوران نواز شریف پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ مشرف کو بیرونِ ملک جانے دیں ورنہ ریاستی اداروں سے محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔
نواز شریف نے بھی ریاستی اداروں سے مفاہمت کے نام پر مشرف کو ایک خاموش این آر او دیا اور وہ بیرونِ ملک چلے گئے۔ یہ خاموش این آر او کام نہ آیا اور سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بھی نا اہل قرار دے دیا۔
2018میں عمران خان وزیراعظم بنے۔ اُنہوں نے مشرف کے ایک وکیل فروغ نسیم کو وزیر قانون اور مشرف کے دوسرے وکیل انور منصور خان کو اٹارنی جنرل بنا دیا۔
اپوزیشن کے زمانے میں عمران خان بار بار مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ وزیراعظم بننے کے بعد اُن کی حکومت نے مشرف کو بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
خصوصی عدالت بار بار مشرف کو بیان ریکارڈ کرانے کا موقع دیتی رہی لیکن مشرف نے بیان ریکارڈ نہ کرایا اور آخر کار ساڑھے پانچ سال میں 125سماعتوں کے بعد خصوصی عدالت نے مشرف کو سزائے موت سنا دی۔ سب جانتے ہیں کہ مشرف کو سزائے موت نہیں ہو سکتی لیکن یہ وہ سزا ہے جو پاکستان میں سنگین غداری کے ملزمان کو پہلے بھی مل چکی ہے۔
عمران خان کی حکومت کھل کر مشرف کی حمایت کر رہی ہے۔ مشرف کے خلاف سنائے جانے والے فیصلے پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ اُن کا ساتھ دینے والوں کو سزا کیوں نہیں ملی؟
سنگین غداری کا مقدمہ صرف حکومت بنا سکتی ہے لہٰذا حکومت چاہے تو کچھ شریک ملزمان پر مقدمہ بنا سکتی ہے لیکن یہ بہت مشکل ہے۔
عمران خان کی اصل ترجیح مشرف کو بچانا ہوگی۔ مشرف کے وکلا اس فیصلے پر اپیل دائر کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور جب اپیل پر سماعت ہوگی تو مقدمہ دوبارہ کھل جائے گا۔ اگر عدالتی فیصلہ برقرار رہتا ہے تو پھر سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کی کوشش ہو گی۔
سزائے موت کو عمر قید میں بدلنا صدرِ مملکت کا اختیار ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پرویز مشرف پاکستان واپس آ کر گرفتاری پیش کریں۔ پاکستان واپس آنا بہت مشکل ہو گا۔
مشرف کو بینظیر بھٹو قتل کیس میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔ اُن پر غازی عبدالرشید قتل کیس بھی زیر التوا ہے۔ ججز نظر بندی کیس میں اُن پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔
12؍مئی 2002کو کراچی میں ہونے والے قتلِ عام کا مقدمہ بھی انجام کو نہیں پہنچا۔ پاکستان واپسی کی صورت میں اُنہیں ان تمام مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
5دسمبر 2019کو شائع ہونے والے میرے کالم کا عنوان تھا ’’دیر ہے اندھیر نہیں‘‘۔
میں نے اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ ’’یاد رکھئے گا! آج نہیں تو کل، پاکستان کی کوئی نہ کوئی عدالت مشرف اور اس کو بچانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف فیصلہ ضرور سنائے گی کیونکہ اس دنیا میں دیر ہے، اندھیر نہیں‘‘۔
کسی بھی عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنا یا اُس کے خلاف اپیل میں جانا ہر شہری کا آئینی حق ہے لیکن جب ہم عدالتی فیصلوں کے پیچھے سازشیں اور بدنیتی تلاش کریں گے تو پھر منتخب وزرائے اعظم کے خلاف عدالتی فیصلوں کو بھی سامنے رکھیں۔
اگر وہ فیصلے ٹھیک تھے تو مشرف کے خلاف فیصلہ ٹھیک ہے، اگر مشرف کے خلاف فیصلہ غلط ہے تو پھر وہ فیصلے بھی غلط تھے۔
اس بحث سے نکلئے اور مل جل کر پاکستان کو آگے بڑھائیے۔ خدانخواستہ ہم اپنی اپنی اَنا کے اسیر بن گئے تو قیامت تک یہ بحث جاری رہے گی کہ اگر مشرف غدار نہیں تو فاطمہ جناحؒ بھی غدار نہیں تھیں اور اگر فاطمہ جناحؒ غدار نہیں تھیں تو اُنہیں غدار قرار دینے والوں کی طرف سے معافی کون مانگے گا؟
سچ یہ ہے کہ مشرف کے خلاف سزا کی واپسی بہت مشکل ہے لیکن اس سزا پر عملدرآمد نہیں ہو گا۔