جلوہ گاہِ وصال کی شمعیںہتھوڑے اور بندوق کی جنگ میں جیت صرف بندوق کی ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
خبر فیک ہے لیکن بہت دھڑلے سے پیش کی جا رہی ہے، کئی جگہوں پر کل سے دیکھ چکا ہوں:
بالائے آئین حکومت کے ایک حامی کا لیول دیکھ لیں، کیسے آئینی اداروں کے سربراہان کو مطعون کیا جاتا ہے جب وہ ان بالائے آئین قوتوں کی مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو یہ آئین و قانون کے محافظین کے فیصلوں کی بجائے ان کی فیملی بیک گراؤنڈ میں موجود غیر متعلقہ افراد کے نام پر ان کی ایسی کی تیسی کیسے کرتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رشتہ دار ہے اعلیٰ عدلیہ میں؟
حمید گل؟ ہاہاہامشرف کے حامی یہ بھی پڑھ لیں کہ اس کے بارے جنرل حمید گل نے کیا کیا انکشافات کیے تھے، جنرل حمید گل نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف امریکا کا ایک ملازم تھا، اس لیے میں نے شروع میں ہی اپنی راہیں اس سے جُدا کر لیں، حالانکہ وہ میرا سٹوڈنٹ تھا۔ اس نے میرے ماتحت بھی کام کیا اور وہ بھی مجھے اپنا رول ماڈل سمجھتا تھا، وہ اکثر میرے حوالے دیا کرتا تھا۔ جہاں تک اس کے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے نعرے کا تعلق تھا، وہ دراصل خود کو سب سے آگے رکھنے کا ایک بہانہ تھا اور وقت نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک کرپٹ آدمی تھا"۔
جی ہاں حمید گل،گو کہ میں اس کا سب سے بڑا مخالف ہوں لیکن ماورائے آئین مخلوق کے خلاف اس سے بہتر گواہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔حمید گل؟ ہاہاہا
ویسے تو تمام سیاسی دو نمبر ہیں لیکن نواز ان میں بھی دو نمبر سیاسی ہے اور مشرف ایک عظیم لیڈر۔۔۔اب جرنیلوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ نواز شریف کی طرح کیوں نکالا اور کیوں پھانسی دی ریلی نکالیں۔
اپنے عظیم لیڈر سے کہیں ناں کہ وطن واپس آ کر مقدمے کا سامنا کرے، اپنا نام کلیئر کرائے، تمنچہ لیگ تو بھرپور طریقے سےاس کا اب بھی ساتھ دے رہی ہے، ممکن ہے اس کی واپسی پر کورٹ پر حملہ بھی کر دے لہٰذا وقت مناسب ہے اسے کہیں بہادر ہے تو پاکستان واپس آئے۔ ایک سزا یافتہ مجرم کو عظیم لیڈر کہتے ہوئے دو بار سوچنا چاہیے، یہ وہی عظیم لیڈر ہے ناں جس کے بارے میں تمنچہ لیگ کے حمید گل نے جو فرمایا تھا وہ بھی ملاحظہ کیجئے۔مشرف ایک عظیم لیڈر۔۔۔
جو کروا رہا ہے نواز شریف کروا رہا ہے!اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رشتہ دار ہے اعلیٰ عدلیہ میں؟
عمران خان اور نواز شریف میں کیا فرق ہے؟بالکل درست کہا۔
عمران خان موقف سے پیچھے نہیں ہٹے، موقف خود آگے نکل گیا ہے۔
جسٹس قیوم کو فون کال عمران خان نے نہیں شہباز شریف نے کی تھی اپنی مرضی کا فیصلہ لکھوانے کیلئے۔ ججوں سے یاریاں، رشتہ داریاں اور پھر بعد میں رونا کہ عدلیہ ظالم ہے۔بالائے آئین حکومت کے ایک حامی کا لیول دیکھ لیں، کیسے آئینی اداروں کے سربراہان کو مطعون کیا جاتا ہے جب وہ ان بالائے آئین قوتوں کی مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو یہ آئین و قانون کے محافظین کے فیصلوں کی بجائے ان کی فیملی بیک گراؤنڈ میں موجود غیر متعلقہ افراد کے نام پر ان کی ایسی کی تیسی کیسے کرتے ہیں۔