سب سے پہلے تو داد دینی پڑتی ہے کہ جس طرح کی عذر نکال کر چیزوں کا انکار کیا جاتا ہے، یہ ایک زبردست آرٹ ہے۔
بہت سے باتیں درمیان میں جمع ہو گئی ہیں۔ کوشش کرتی ہوں کہ بات کو آسان بناتے ہوئے مختصر الفاظ میں چیزوں کو واضح کیا جائے۔
ابن حجر العسقلانی کا مؤقف
ابن حجر العسقلانی نے اپنی کتاب فتح الباری میں جگہ جگہ "تقبیل رجل" کی روایات کو بغیر مردود یا ضعیف ٹہرائے نقل کیا ہے، اور ان سے نتائج کو اخذ کیا ہے۔ یہاں بات یہ نہیں ہو رہی کہ البانی صاحب انکی بات کو مانتے ہیں یا نہیں، بلکہ بات ابن حجر العسقلانی کی مؤقف کی ہو رہی تھی۔ بہرحال، آگے بڑھتے ہیں:
اقتباس:
اصل پيغام ارسال کردہ از:
مہوش علی
ابن حجر العسقلانی سے شیخ ھشام نے ایک روایت اور بھی نقل کی تھی، جس کو میں نے خاص طور پر اپنی پہلی پوسٹ میں ذکر بھی کیا تھا۔ افسوس کہ اپنا مؤقف ثابت کرنے کے چکر میں باذوق صاحب اس روایت کو گول کر گئے۔ آپ اس روایت کو دوبارہ پڑھئیے اور آپ کو مزید اندازہ ہو گا کہ ابن حجر العسقلانی نے اپنا یہ مؤقف کیوں نقل کیا ہے۔
محترمہ ، آپ سے گذارش ہے کہ ذرا اصل عربی متن تو پیش فرمائیں۔
پھر ہم سب دیکھیں گے کہ حافظ عسقلانی علیہ الرحمة کا "حسن" والا موقف ابو بكر المقرى کے حوالے سے صرف "تقبیل ید" کے موضوع پر ہے یا "تقبیل ید ورجل" کے موضوع پر ؟؟
علامہ البانی رحمة اللہ نے بھی ابوداؤد کی اس روایت کو "حسن" قرار دیا ہے مگر ۔۔۔۔۔۔
مگر "حسن" کے ساتھ کہا ہے :
دون ذِكر الرِّجْلين
امید ہے کہ بات سمجھ میں آ گئی ہوگی کہ جو فقرہ ثابت ہی نہیں ، اس روایت کو دلیل بنانا عبث تھا !!
ایک تو بعض اوقات چیزوں کو آپ ایسے نامکمل اور سنسنی خیز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ہر طرف شکوک و شبہات نظر آنے لگتے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ چیزوں کو سادہ زبان میں آسانی کے ساتھ پیش کیا کریں۔ اگر یہ عربی عبارت آپ کے علم میں تھی تو آپ نے یہ عبارت پیش کیوں نہیں کر دی؟ اور البانی صاحب کا ادھر ذکر کہاں سے آ گیا جبکہ ہم ابن حجر العسقلانی کے مؤقف کی بات کر رہے ہیں۔ اور اگر آیا بھی تو پھر البانی صاحب کی مکمل عبارت کا ذکر تو کر دیتے۔ ادھر کم از کم مجھے آپکی بات کی کوئی سمجھ نہیں لگ سکی ہے۔
بہرحال، العسقلانی صاحب کی اصل عربی عبارت کو دیکھتے ہیں جو آپ کے دعوے کے بالکل برخلاف "تقبیل رجل" کی بات کر رہی ہے۔
پہلی روایت: الزارع العبدی کی "جید" روایت جو کہ "تقبیل رجل" کی بات کر رہی ہے
الزارع العبدی کی اس روایت کو میں پہلے مکمل ریفرنسز کےساتھ پیش کر چکی ہوں۔ اس روایت کو امام مقریزی، امام ابو داؤد اور دیگر کئی ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے۔ ابن حجر العسقلانی اس "الزارع العبدی" کی روایت کو "جید" بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:
لنک
[FONT=times new roman(arabic)]
وقد جمع الحافظ أبو بكر بن المقري جزءا في تقبيل اليد سمعناه، أورد فيه أحاديث كثيرة وآثارا، فمن جيدها حديث الزارع العبدي وكان في وقد عبد القيس قال " فجعلنا نتبادر من رواحلنا فنقبل يد النبي صلى الله عليه وسلم ورجله " أخرجه أبو داود، ومن حديث مزيدة العصري مثله، ومن حديث أسامة بن شريك قال " قمنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقبلنا يده " وسنده قوي ومن حديث جابر " أن عمر قام إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقبل يده " ومن حديث بريدة في قصة الأعرابي والشجرة فقال " يا رسول الله ائذن لي أن أقبل رأسك ورجليك فأذن له " وأخرج البخاري في " الأدب المفرد " من رواية عبد الرحمن بن رزين قال " أخرج لنا سلمة بن الأكوع كفا له ضخمة كأنها كف بعير فقمنا إليها فقبلناها " وعن ثابت أنه قبل يد أنس.[/FONT]
مجھے نہیں علم کہ اتنی صاف اور واضح عبارت کے بعد آپ نے پھر یہ الزام کیوں لگایا کہ امام ابو داؤد، امام مقریزی اور ابن حجر العسقلانی نے صرف "تقبیل ید" کا موضوع پر اتفاق کیا ہے۔۔۔۔۔۔ (جیسا آپ نے دوبارہ
یہاں پھر یہی دعوی دہرایا ہے)۔ کیا یہ بھی آپکی طرف سے بشری غلطی کا کوئی تقاضا ہوا ہے؟
نیز امام ابن حجر العسقلانی کے علاوہ امام ابن عبدالبر اور امام منذری بھی اس روایت کو حسن بیان کر رہے ہیں۔
and Ibn Hajar in Fath al-Bari (1989 ed. 11:67 Isti'dhan ch. 28 #6265) said: "Among the good narrations in Ibn al-Muqri's book is the hadith of al-Zari` al-`Abdi." It was declared a fair (hasan) hadith by Ibn `Abd al-Barr, and al-Mundhiri confirmed it in Mukhtasar al-sunan (8:86)
لیکن پتا نہیں کیوں مگر ہمارے پیش کردہ مضبوط و ٹھوس دلائل شاید ہمیشہ بے وزن و بے قیمت ہوتے ہیں جو فریق مخالف ان کو کوئی اہمیت دینے پر تیار نہیں ہوتا، جبکہ انکے پیشکردہ رائی جیسے دلائل بھی بھی پہاڑ بن جاتے ہیں۔
امام ابو داؤد نے یہ مکمل روایت (بمع تقبیل رجل) یہاں نقل کی ہے:
[FONT=times new roman(arabic)]
162 - باب قبلة الرجل [/FONT][FONT=times new roman(arabic)]
[/FONT][FONT=times new roman(arabic)]
إظهار التشكيل [/FONT]
[FONT=times new roman(arabic)]5227 - حدثنا محمد بن عيسى بن الطباع، حدثنا مطر بن عبد الرحمن الأعنق، حدثتني أم أبان بنت الوازع بن زارع، عن جدها، زارع وكان في وفد عبد القيس قال لما قدمنا المدينة فجعلنا نتبادر من رواحلنا فنقبل يد النبي صلى الله عليه وسلم ورجله - قال - وانتظر المنذر الأشج حتى أتى عيبته فلبس ثوبيه ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال له " إن فيك خلتين يحبهما الله الحلم والأناة " . قال يا رسول الله أنا أتخلق بهما أم الله جبلني عليهما قال " بل الله جبلك عليهما " . قال الحمد لله الذي جبلني على خلتين يحبهما الله ورسوله . [/FONT]
2۔ دوسری روایت: حضرت بریدہ کی اعرابی بدو اور شجر والی روایت
منہاجین کی مضمون میں یہ روایت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی تھی:
۵۔ امام مقری (م ۳۸۱ھ) اپنی کتاب تقبیل الید (ص: ۶۴، رقم: ۵) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن میں کچھ مزید چاہتا ہوں تاکہ میرے یقین میں اضافہ ہوجائے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو اعرابی کے بلاوے پر ایک درخت اس کے پاس آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔ اس کے بعد طویل روایت ہے اور آخر میں اعرابی نے تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد عرض کیا:
يا رسول الله! أئذن لي أن أقبل رأسك ورجلك.
"اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کاسر اقدس اور قدم مبارک چوم لوں۔"
اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اجازت مرحمت فرمائی۔ اور پھر اس اعرابی نے سجدہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی۔ امام مقری کی روایت کردہ اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (۱۱: ۵۷) میں نقل کیا ہے۔ نیز علامہ مبارک پوری نے بھی تحفۃ الاحوذی (۷: ۴۳۷) میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔
اس روایت کے مزید حوالے یہ ہیں:
Qadi `Iyad narrated it in al-Shifa' (1:299) and al-Bazzar in his Musnad (3:49). The editor of Suyuti's Manahil al-safa (p. 124 #575) said: See Kashf al-astar (3:132). Ghazali cites the account of the kiss in the Ihya' and al-Hakim in the Mustadrak as well as Ibn Muqri'. Both al-Hakim and al-`Iraqi declared its chain authentic (sahih), as stated by al-Zabidi in his Ithaf (6:280)
باذوق بھائی اگر چاہیں تو انہیں ابن حجر العسقلانی کی عبارت میں "تقبیل رجل" کا ذکر اس روایت میں بھی بالکل صاف طور پر نظر آ جائے گا۔ فتح الباری میں ابن حجر العسقلانی اس اعرابی اور شجر والی روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
[FONT=times new roman(arabic)]وقد جمع الحافظ أبو بكر بن المقري جزءا في تقبيل اليد سمعناه، أورد فيه أحاديث كثيرة وآثارا، فمن جيدها حديث الزارع العبدي وكان في وقد عبد القيس قال " فجعلنا نتبادر من رواحلنا فنقبل يد النبي صلى الله عليه وسلم ورجله " أخرجه أبو داود، ومن حديث مزيدة العصري مثله، ومن حديث أسامة بن شريك قال " قمنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقبلنا يده " وسنده قوي ومن حديث جابر " أن عمر قام إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقبل يده " ومن حديث بريدة في قصة الأعرابي والشجرة فقال " يا رسول الله ائذن لي أن أقبل رأسك ورجليك فأذن له " وأخرج البخاري في " الأدب المفرد " من رواية عبد الرحمن بن رزين قال " أخرج لنا سلمة بن الأكوع كفا له ضخمة كأنها كف بعير فقمنا إليها فقبلناها " وعن ثابت أنه قبل يد أنس.[/FONT]
ابن حجر العسقلانی کا بیان کہ وہ فتح الباری میں وہی روایات نقل کر رہے ہیں جو صحیح ہیں یا پھر کم از کم حسن کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں
فتح الباری کی مقدمے کے بالکل آغاز میں ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں:
بشرط الصحة أو الحسن فيما أورده من ذلك
اس لیے اگر ابن حجر العسقلانی اگر مرسل روایت پیش کر رہے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دیگر روایت کی موجودگی میں یہ مرسل روایت ابن حجر السقلانی کے نزدیک قابل حجت ہو چکی ہے، اور وہ اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں دے رہے ہیں کہ "اس سے ملتی جلتی روایت یا واقعہ السدی کا ہے۔۔۔"
اسکے بعد باذوق بھائی کے دعوے میں کتنا وزن باقی رہ جاتا ہے کہ ابن حجر العسقلانی "مرسل مردود" روایت کو نقل کر رہے ہیں، اور اس تقبیل رجل پر اور کوئی روایت موجود نہیں اس لیے یہ روایت مرسل و مردود ہی رہی اور جو نتیجہ اور مؤقف ابن حجر العسقلانی نے پیش کیا ہے اسکا کوئی مطلب نہیں ہے وغیرہ وغیرہ؟؟؟
السدی کی روایت پر مزید تبصرہ
ایک دفعہ پھر یہ بات کہ جو دلائل ہمارے مؤقف تو تقویت پہنچائیں ان کی حیثیت کو یہ رائی کر دیتے ہیں۔
مرسل روایت بذات خود ائمہ کے ایک گروہ کے نزدیک "صحیح" روایت ہے، اور اس میں "جمہور" کی کوئی شرط سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ بہرحال، لمبی چوڑی بحث کر کے نئی نئی "پخ" ڈالنے کی کوشش کی گئی جیسا کہ: (1) "جمہور" کی شرط ڈال دی گئی (2) اور پھر اس بات کا مستقل انکار کیا جاتا رہا کہ تقبیل رجل کی کوئی اور روایت بھی موجود ہے۔
تقبیل رجل کی دوسری روایت اوپر نقل ہو چکی ہیں۔ اور السدی کی روایت کے متعلق باذوق بھائی کا دعوی پھر بھی یہ ہے کہ:
سوال یہ ہے کہ کیا السدی الکبیر کی ثقاہت ثابت ہونے پر طبری کی روایت سے "تقبیل رجل (پاؤں چومنا)" والا فقرہ بھی ثابت ہو جائے گا؟؟
ہرگز نہیں !!!!
تو ہم ادھر باذوق بھائی اور انکےاس معاملے میں کیے جانے والے عذروں کو ادھر چھوڑتے ہیں، اور میں آپکی توجہ امام ابن حجر العسقلانی کے بعد ابن کثیر الدمشقی کی تفسیر القرآن کی لے جاتی ہوں جہاں انہوں نے السدی کی اس روایت کو بیان کیا ہے۔
حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ١٠١ کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو:
فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ.
'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے۔''
ذرا خود سوچئیے کہ پچھلا تھریڈ گواہ ہے کہ تقبیل رجل کا ذکر دیکھ کر لوگوں کو "ایک سیکنڈ" نہیں لگا تھا کہ اس پر "شرکیہ جہالت" کا فتوی دے ڈالیں۔ مگر اتنے جلیل القدر تابعی، و علماء و حفاظ حدیث اس روایت کو بغیر کسی تنقید کے اپنی کتب میں مسلسل نقل کر رہے ہیں۔۔۔۔ تو کیا ان میں اتنی عقل و فہم و دانش و علم بھی نہ تھا جتنا کہ ایک سیکنڈ سے قبل اس تھریڈ میں "شرکیہ جہالت" کا فتوی لگانے والے حضرات میں تھا؟
السدی کے متعلق بشری غلطی
السدی کے متعلق اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ نے بہت وقت لیا۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ اپنی بشری غلطی کہتے ہوئے آپ نے اپنی اصلاح کر لی۔
مگر شکر ہے کہ ایسی کوئی بشری غلطی میں نے نہیں کی کیونکہ انکو تو ہزار غلطیاں (محاورے کے حساب سے خون) بھی معاف ہیں، مگر اگر میں نے ایسی کوئی غلطی کی ہوتی تو پوری زندگی ہر جگہ انہوں نے مجھے اس غلطی کا طعنہ دے دے کر زندگی اجیرن کر دینی تھی اور ہر بحث کے دوران اسکا حوالہ ہونا تھا۔
السدی کی روایت کا صحیح لغیرہ ہونا
ابن حسن،
آپ چاہیں کان کو یوں پکڑیں یا ہاتھ گھما کر پکڑیں،
اور جتنا مرضی اسکی گریڈنگ کرنے سے فرار حاصل کرتے رہیں، آخر میں السدی کی مرسل روایت "صحیح" یا "صحیح لغیرہ" کی بنیاد پر "قابل حجت" ہی ثابت ہو گی اور اسکا ثبوت ائمہ حدیث کا اس روایت کا بغیر تنقید کے نقل کرنا اور اس سے نتیجہ اخذ کرنا ہے اورتقبیل رجل کی دیگر روایات کو نقل کرنا ہے۔ اور میں سب سے پہلے امام ھشام کی کی عبارت کو نقل کر چکی ہوں جہاں وہ صاف صاف طور پر السدی کی اس مرسل روایت کو دیگر روایات کی روشنی میں "صحیح" بیان کر رہے ہیں۔
Umar Ibn Khattab kneeling down in front of Rasool Allah (saw)
Tabari narrates it mursal [missing the Companion-link] through al-Suddi in his Tafsir in commenting on verse 5:101:
"Do not ask of things which once shown to you would hurt you" with the wording: "`Umar ibn al-Khattab got up and kissed the foot of Allah's Messenger and said: O Messenger of Allah, we are pleased with Allah as our Lord, with Islam as our religion, and with Muhammad as our Prophet, and with the Qur'an as our Book. Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka). And he did not cease until the Prophet softened."
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:)."۔۔۔۔۔
مگر نہیں، مسئلہ وہی پرانا ہے کہ ہماری بات کا وزن تو وہی رائی ہی رہنا ہے۔
تقبیل رجل کی ان روایات کو البانی صاحب سے قبل کس نے ضعیف و مردود قرار دیا ہے؟
ایک سوال اور، السدی کی روایت کو کس محدث نے اس سے قبل مرسل ہونے کی وجہ سے صاف صاف الفاظ میں مردود قرار دیا ہے؟
اسی طرح تقبیل ید پر جو دیگر روایات اوپر نقل ہوئی ہیں، (جنہیں ابن حجر العسقلانی اور دیگر ائمہ حدیث "جید"اور "صحیح" اور "حسن" کہہ رہے ہیں) انکو پچھلے 1400 سال میں البانی صاحب سے پہلے کس نے ضعیف و مردود قرار دیا ہے؟