اسکول لائف کی کوئی نصابی نظم شئیر کریں

بچے کی دعا

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے!

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درمندوں سے صعیفوں سے محبت کرنا

مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

( علامہ محمد اقبال )
بہت خوب :)
یہ ہم اسمبلی میں پڑھا کرتے تھے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حکم کیا کرنا ہے
محبت میں حکم نہیں دیا جاتا عرض کیا جاتا ہے
اسکول لائف کی کوئی نظم یاد ہو تو شریک کریں

شئیر تو کی تھی۔۔ لیکن شاید غدیر زھرا بھی یہی لکھ رہی تھی اس وقت۔۔۔ بئی غدیر ہم نے فرحت کیانی کی محنت پر ہاتھ صاف کیا ہے۔۔ آپ کے مراسلے پر واللہ نہیں۔۔۔ :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
ایک پہاڑ اور گلہری

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور! کیا کہنا
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا!
جو میں بڑی نہیں تری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجکو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اُس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے ! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برُا نہیں قدرت کے کارخانے میں

(علامہ محمد اقبال)
 

بھلکڑ

لائبریرین
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھے
تیرا ہر اِک ذرّہ ہم کو اپنی جان سے پیارا
تیرے دَم سے شان ہماری تُجھ سے نام ہمارا
جب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تُجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھے
قدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد تجھے
دھڑکن دھڑکن پیار ہے تیرا قدم قدم پر گِیت رے
بستی بستی تیرا چرچا نگر نگر اے مِیت رے
جب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھے
قدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد تجھے
تیری پیاری سج دھج کی ہم اتنی شان بڑھائیں
آنے والی نسلیں تیری عظمت کے گُن گائیں
جب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھے
قدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد تجھے
 

عمر سیف

محفلین
میری بیٹی آج کل یہ نظم پڑھتی ہے

مرغے میں نے انڈہ دیا
مرغی تُو نے خوب کیا
انڈے کتنے چنگے ہیں
پاؤں تیرے ننگے ہیں
کیسی باتیں کرتی ہو
انڈے بیچو، جوتے لو

:D
 

حسیب

محفلین
ٹوٹ بٹوٹ کے مرغے
ٹوٹ بٹوٹ کے دو مُرغے تھے
دونوں تھے ہُشیار
اِک مُرغے کا نام تھا گیٹو
اِک کا نام گِٹار
اِک مُرغے کی دُم تھی کالی
اِک مُرغے کی لال
اِک مُرغے کی چونچ نرالی
اِک مُرغے کی چال
اِک پہنے پتلُون اور نیکر
اِک پہنے شلوار
اِک پہنے انگریزی ٹوپی
اِک پہنے دستار
اِک کھاتا تھا کیک اور بِسکٹ
اِک کھاتا تھا نان
اِک چباتا لونگ سپاری
ایک چباتا پان
دونوں اِک دن شہر کو نِکلے
لے کر آنے چار
پہلے سبزی منڈی پہنچے
پھر لنڈے بازار
اِک ہوٹل میں انڈے کھائے
اِک ہوٹل میں پائے
اِک ہوٹل میں سوڈا واٹر
اِک ہوٹل میں چائے
پیٹ میں جُوں ہی روٹی اُتری
مُرغے ہوش میں آئے
دونوں اُچھلے، ناچے، کُودے
دونوں جوش میں آئے
اِک بولا میں باز بہادُر
تُو ہے نِرا بٹیر
اِک بولا میں لگڑ بگھیلا
اِک بولا میں شیر
دونوں میں پھر ہُوئی لڑائی
ٹھی ٹھی ٹُھوں ٹُھوں ٹھاہ
دونوں نے کی ہاتھا پائی
ہی ہی ہُوں ہُوں ہاہ
اِک مُرغے نے سِیخ اُٹھائی
اِک مُرغے نے ڈانگ
اِک کے دونوں پنجے ٹُوٹے
اِک کی ٹُوٹی ٹانگ
تھانے دار نے ہنٹر مارا
چِیخے چُوں چُوں چُوں
ٹوٹ بٹوٹ نے گلے لگایا
بولے کُکڑوں کُوں
اضافی نوٹ: ہمارے نصاب میں یہ مکمل شامل نہ تھی۔بلکہ اس میں سے چند اشعار شامل تھے۔ لیکن تلاش کرنے پر مکمل مل گئی۔​
بشکریہ فرحت کیانی
یہ فرحت نے یہاں بھی پوسٹ کر رکھی ہے۔​

سوم یا چہارم میں اردو کی کتاب میں یہ نظم مکمل شامل تھی
 
Top