شاید بے دھیانی میں لکھ گئے ہیں یا بہاؤ میں بہہ رہے ہیں مگر ان دنوں محفل پر انگریزی الفاظ کا استعمال کچھ زیادہ ہی دکھائی دینے لگا ہے۔اسکول لائف زندگی کا سنہری دور ہے جس کی یادیں تا عمر تازہ رہتی ہیں
اسکول لائف کی کوئی نصابی نظم جو آپ کو اب تک یاد ہو وہ شریک محفل کریں
ایک نظم شاید چھٹی یا ساتویں میں پڑھی تھی کچھ یوں ہے
کوئےکوئے ہیں سب دیکھے بھالےچونچ بھی کالی پر بھی کالےکالی کالی وردی سب کیکالی سینا کے ہیں سپاہیایک سی صورت ایک سی سیاہیگر ہلے آواز بُری سیکان میں جا لگتی ہے چھری سییوں تو ہے کوا حرص کا بندہکچھ نہ چھوڑا پاک نہ گندہپر اچھی ہے اس کی یہ عادتبھائیوں کی کرتا ہے دعوتچیر کوئی ذرا سی گر پا لےکھائے نہ جب تک سب کو بلا لےکھانے دانے پہ گرتا ہےپیٹ کے کارن گھر گھر پھرتا ہےوہ دیکھو دیوار پہ ہے بیٹھاغُلے کی ہے مار پہ بیٹھاکیوں نہ باندھوں اس پہ نشانہبے صبرا چونکنا سیاناکائیں کائیں پنکھ پسارےکرتا ہے یہ بھوک کے مارےتاک رہا تھا کونا کتراکچھ دیکھا تو نیچے اتراہاتھ میں تھا بچے کے ٹکڑاآنکھ بچا کر جھٹ لے بھاگاواہ رے تیری پھرتی کاگاہائے ہائے کرتے رہ گئے گھر کےیہ جا وہ جا چونچ میں بھر کےپیڑ پہ تھا چڑیا کا بسیرااس کو ظالم میں جا گھیراہاتھ لگا ننھا سا بچہنوچا پھاڑا کھا گیا کچاچڑیا رو رو کر جان کو ہے کھوتیہے اس ظالم کی جان کو روتیچیں چیں چیں چیں دے کے دہائیاپنی بپتا سب کو سنائیکون ہے جو فریاد کو پہنچےاس بیچاری کی داد کو پہنچےپکنے پر جب مکا آئیکوؤں نے جا لوٹ مچائیدودھیا بُھٹا چونچ سے چیراکہ سچ مچ کا ہے اُٹھائی گیرارکھوالے نے پائی آہٹگوپھن لے اُٹھا وہ چھٹ پٹہریا ہریا شور مچا کرڈھیلا مارا تڑ سے گھما کرلالچ خور ڈھیٹ نڈر ہےڈاکو سے کچھ اس میں کسر ہےڈاکو ہے کہ چور اچکاپر ہے اپنی دھن کا پکا
معذرت خواہ ہوںاور ہم جناب۔۔۔ ۔۔بھول گئے کیا۔۔۔ ؟
میں تو پریشان ہو گیا تھا لڑائی نہ ہو جائےشئیر تو کی تھی۔۔ لیکن شاید غدیر زھرا بھی یہی لکھ رہی تھی اس وقت۔۔۔ بئی غدیر ہم نے فرحت کیانی کی محنت پر ہاتھ صاف کیا ہے۔۔ آپ کے مراسلے پر واللہ نہیں۔۔۔
نوازش ہے جنابتو کیا ہوا، ہم نے تو یاد کر لیا تھا نا؟؟؟؟؟؟
ہمیں سید شہزاد ناصر انکل نے اپنا نائب بنایا تھا، کہ آپ کو ہم ٹیگ کر دیں
میری پسندیدہ نظموں میں سے ایکایک پہاڑ اور گلہری
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور! کیا کہنا
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا!
جو میں بڑی نہیں تری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجکو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اُس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے ! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برُا نہیں قدرت کے کارخانے میں
(علامہ محمد اقبال)
یہ کون سی نظم ہے بھیا اور آپ نے کس کلاس میں پڑھی ؟-------------
سدا بہار کلامسوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھےسوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھےسوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھےتیرا ہر اِک ذرّہ ہم کو اپنی جان سے پیاراتیرے دَم سے شان ہماری تُجھ سے نام ہماراجب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تُجھےسوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھےقدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد تجھےدھڑکن دھڑکن پیار ہے تیرا قدم قدم پر گِیت رےبستی بستی تیرا چرچا نگر نگر اے مِیت رےجب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھےسوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھےقدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد تجھےتیری پیاری سج دھج کی ہم اتنی شان بڑھائیںآنے والی نسلیں تیری عظمت کے گُن گائیںجب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھےسوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آبادتجھےقدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد تجھے
ماشاءاللہمیری بیٹی آج کل یہ نظم پڑھتی ہے
مرغے میں نے انڈہ دیا
مرغی تُو نے خوب کیا
انڈے کتنے چنگے ہیں
پاؤں تیرے ننگے ہیں
کیسی باتیں کرتی ہو
انڈے بیچو، جوتے لو
بجا فرمائے آپ نےشاید بے دھیانی میں لکھ گئے ہیں یا بہاؤ میں بہہ رہے ہیں مگر ان دنوں محفل پر انگریزی الفاظ کا استعمال کچھ زیادہ ہی دکھائی دینے لگا ہے۔
کیا ہی کہنے کیا یاد دلا دیاٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں،مت دیس بدیس پھر ماراقزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقاراکیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا کوئی پلا سر بھاراکیا گیہوں چاول موٹھ مٹر،کیا آگ دھواں کیا انگاراسب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجاراکچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زرجو پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے جاں اوپرنقارے نوبت بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکرکیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھپرسب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجاراہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بنٹک غافل دل میں سوچ ذراہے ساتھ لگا تیرے دشمنکیا لونڈی باندی دائی دواکیا بند چیلا نیک چلنکیا مندر مسجد تال کنویں کیا گھاٹ سرا کیا باغ چمنسب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجاراجب مرگ بنا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گاکوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سینے اورٹانکے گاہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو ءاک لحد کی پھانکے گااس جنگل میں پھر آھ نظیر اک بھنگا آن نہ جھانکے گاسب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارانظیر اکبر آبادی
ماواں ٹھنڈیا چھاواںجب میں بہت چھوٹی تھی اور اسکول نہیں جاتی تھی تو امی مجھے یہ سناتی تھیں۔۔۔ ۔ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیخالہ اُس کی لکڑی لائیپھوپھی لائی دیا سلائیامی جان نے آگ جلائیٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیدیگچی، چمچہ، نوکر لائےبھائی چاول شکّر لائےبہنیں لائیں دودھ ملائیٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیابا نے دی ایک اکنیخالو نے دی ڈیڑھ دونیّٹوٹ بٹوٹ نے آدھی پائیٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیجوں ہی دسترخوان لگایاگاؤں کا گاؤں دوڑا آیاساری خلقت دوڑی آئیٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیمینڈک بھی ٹرّاتے آئےچوہے شور مچاتے آئےبلّی گانا گاتی آئیٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیکوّے آئے کیں کیں کرتےطوطے آئے ٹیں ٹیں کرتےبُلبل چونچ ہلاتی آئیٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیدھوبی، کنجڑا، نائی آیاپنساری، حلوائی آیاسب نے آکر دھوم مچائیٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیگاؤں بھر میں ہوئی لڑائیکھیر کسی کے ہاتھ نہ آئیمیرے اللہ تری دہائیٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائیاز صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
یہ بھی بہت مشہور نظم ہےاور یہ نظم جب میں اسکول میں پڑھتی تھی تو ہمیشہ چونچ کہتے ہوئے دم والا ایکشن کرتی تھی اور دم کہتے ہوئے منہ پر ہاتھ لگاتی تھی اور چونچ والا ایکشن کرتی تھی ایک تھا تیتر، ایک بٹیرلڑنے میں تھے دونوں شیرلڑتے لڑتے ہو گئی گمایک کی چونچ اور ایک کی دُم
یہ بھی بہت مشہور نظم ہے
میری سات سالہ بھتیجی بھی نظمیں سناتے وقت کمال کی اداکاری کرتی ہے
شاد و آباد رہیں
الفاظ نہیں کچھ کہنے کے لئےمیری امی کا نام بھی ثریا ہے نا تو امی بھی مجھے بچپن میں اور ابو بھی یہ رات میں سناتے تھے۔۔۔ ۔۔کیونکہ میں ہی ثریا کی گڑیا ہوں اور میں یہ سوچتی تھی کی میرے پاس بھی ایک دن ضرور پری آئے گی۔۔۔ ۔
ثریّا کی گڑیا
سُنو اِک مزے کی کہانی سنو
کہانی ہماری زبانی سنو
ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت
جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ
مگر اِک شرارت کی پڑیا تھی وہ
جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ
جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ
نہ امّی کے ساتھ اور نہ بھیّا کے ساتھ
وہ ہر وقت رہتی ثریّا کے ساتھ
ثریّا نے اِک دن یہ اُس سے کہا
مِری ننھی گڑیا یہاں بیٹھ جا!
بلایا ہے امّی نے آتی ہوں میں
کھٹولی میں تجھ کو سلاتی ہوں میں
وہ نادان گڑیا خفا ہو گئی
وہ روئی وہ چلّائی اور سو گئی
اچانک وہاں اِک پری آگئی
کھُلی آنکھ گڑیا کی گھبرا گئی
تو بولی پری مسکراتی ہوئی
سنہری پروں کو ہلاتی ہوئی
"اِدھر آؤ تم مجھ سے باتیں کرو
میں نازک پری ہوں نہ مجھ سے ڈرو"
وہ گڑیا مگر اور بھی ڈر گئی
لگی چیخنے "ہائے میں مر گئی
مِری پیاری آپا بچا لو مجھے
کسی کوٹھڑی میں چھُپا لو مجھے"
ثریّا نے آ کر اٹھایا اُسے
اٹھا کر گلے سے لگایا اُسے
گلے سے لگاتے ہی چُپ ہو گئی
وہ چُپ ہو گئی اور پھر سو گئی
ثریا کو دیکھا ، پری اڑ گئی
جدھر سے تھی آئی اُدھر مڑ گئی
(صوفی تبسّم)
شکریہ چاچومیں تو پریشان ہو گیا تھا لڑائی نہ ہو جائے
ماشاءاللہ غدیر زھرابیٹی بہت سلجھے ہوئے ذوق کی مالک ہیں